آزادی کا مطلب کیا ․․․․․․․․․

14 اگست 1947 ء کو مسلمانوں نے اپنی جدو جہد کے نتیجے میں ایک ملک حاصل کیا۔ وہ وطن جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا ۔ وہ دنیا کے نقشے پر اُبھرنے والا ایک نیا نام جس کو یہ مقام دینے کے لئے قائداعظم نے دن رات محنت کی۔14 اگست رات بارہ بجے ریڈیو سے اُبھرنے والی آواز " یہ ریڈیو پاکستان ہے" نے مسلمانوں کو کس خوشی سے سرشار کیا تھا ۔ جو آج تک یہ الفاظ سنتے ہوئے برقرار ہے۔ اس ملک کو حاصل کرنے میں ان لاکھوں مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو صرف آزادی کے نام پر اتنا سب کچھ چھوڑ کر نئے وطن کی طرف چل پڑے ۔ اسی آزادی کے نام پر قتل ہوئے اور بے گور و کفن راستوں میں پڑے رہے ۔ یہ ملک ان کی مرہون منت ہے جن کو آزادی کا مطلب سمجھ میں آیا اور جنہوں نے ارضِ پاک کی عزت اور حفاظت کی۔

آج کا ماحول دیکھ کر درد مند پاکستانی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ دہشت گرد دندناتے پھریں اور قتل و غارت گری سے ملک کا امن و امان تباہ کریں ۔ کوئی شہر محفوظ نہ ہو ۔ ہر وقت خوف و ہراس کی کیفیت طاری رہے ۔ کیا یہ آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ لوگ ایک قوم کے بجائے صوبائیت اور فرقہ واریت کو فروغ دیں ۔ کیا آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ راہبر خود ہی غفلت کا شکار ہو جائیں اور کوئی میرکارواں نہ ہو۔ ہر ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھا جائے اور نااہل سمجھا جائے۔ عنانِ حکومت حاصل کرنے کی حرص ہو مگر لوگوں کی فکر نہ ہو ۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی پر نظر نہ ہو اور نہ ہی اقدامات کیے جائیں بس اقتدار میں رہنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جائے ۔

پاکستان کے ابتدائی سال بہت مشکل تھے ۔ وسائل کی کمی تھی لیکن آزادی کا مفہوم سمجھ میں آتا تھا اور اس کی قدر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ساری قوم متحد رہی اور مل جل کر مسائل پر قابو پایا ۔ وہ لوگ جو پاکستان کو چند دنوں کو مہمان کہتے تھے انہیں منہ توڑ جواب دیا گیا اور پاکستان کو ایک کامیاب ملک بنا کر دکھایا ۔ پاکستان کو یہ مقام بھی حاصل ہوا کہ آج تنقید کرنے اور ذرا ذرا سی بات پر مخالفت کرنے والے ممالک پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جوہری توانائی حاصل کرنے کے بعد تو پاکستان کے وقار میں بہت اضافہ ہوا اور ساتھ ہی بُری نیت رکھنے والے بھی محتاط ہوگئے۔ خاص طور پر سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان نے جو آزمائش کا وقت دیکھا تھا اور دوسروں کی باتیں سنی تھیں اس کی تلخی کم ہو گئی ۔ ہم نے بحیثیت پاکستانی قوم کے ہر اچھا بُرا وقت دیکھا لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ لیکن آج کیا وجہ ہے کہ ہم پھر پریشان حال ہیں ۔ تنقید زیادہ ہے اور عملی کام کم۔

پاکستان کو آج پھر ضرورت ہے کہ ہر شہری آزادی کے مطلب کو سمجھے ۔ آزادی ذہن کی اور سوچ کی ہو۔ آزادی خیالات اور مثبت اقدام کی۔ آزادی آزاد قوم کی طرح کُھل کر سانس لینے اور اچھے طریقے سے جینے کی۔ آزادی تعلیم حاصل کرنے اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی۔ آزادی اپنے کام کو ایمانداری اور احسن طریقے سے انجام دینے کی۔ آزادی اپنے حدود و قیود کو واضح کرنے اور دوسروں کی عزت کی۔ آزادی محنت و مشقت اور عزت نفس کی قدر کی۔ آزادی صاف شفاف انصاف کی۔ آزادی خوبصورت اور صاف ستھرے ماحول کی۔ آزادی مثبت رویوں کو اپنانے اور دوسروں کے لئے قربانی دینے کی۔ آزادی کا مطلب " میں " سے شروع نہیں ہوتا بلکہ " ہم" سے شروع ہوتا ہے ۔ آزادی سماعت و گفتار کی لیکن احترام کی حد کے اندر رہ کر۔ آزادی ملک و قوم کے مضبوط دفاع کی۔ آزادی اپنے اندر کے شخص کی جو نہ جانے اپنے اندر کتنی صلاحتیں چھپائے بیٹھا ہے اور ظاہر نہیں کرتا۔ غرض یہ کہ آزادی کا مطلب اگر سمجھ آجائے تو ہم ایک قوم بن کر پھر اُبھریں اور دنیا کو بتا دیں کہ ملک حاصل کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور قوم کیسے اس کی حفاظت کرتی ہے۔
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39954 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.