“پاکستان“۔۔۔ اقبال کاعظیم خواب

 نیک ارادے کہیں نہ کہیں حقیقی لبادہ اوڑھے سرخ روح ہونے کی غرض موقع ومحل کی تلاش میں محو رہتے ہیں تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ محض اسلامی طرز زندگی کی خاطر پاکیزہ اسلامی معاشرے کے قیام کا ارادہ دل میں لیے لاکھوں مسلمانوں کو ان کی پوری زندگی کی عبادات کا ثواب پاکستان یعنی “پاک سرزمیں“ کی صورت میں ملا ہو۔۔! لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وہ یہی پاکستان تھا؟ جس کو سب کچھ داﺅ پہ لگا دینے والے مسلمانوں نے۳۸ سال کی عبادت کے ثواب پر فوقیت دی۔!کیوں کہ وہ بھی ایک ستائیسویں کی رات تھی روایات کے مطابق ستائیسویں شب میں عبادت کا اجر ۳۸ سال کی عبادت کے برابر ہے۔ اس رات کو ہزار سال سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت مندرجہ بالا ٓیت سے واضح ہوتی ہے:
“سابقہ امتوں کا عابدوہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شب قدر عطا کر دی جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی “ (فتح القدیر للشوکانی۵:۲۷۴)

قائد کی آواز پر سب نے لبیک کہا اور آدھے، لٹے پٹے، بلا سازوسامان مسلمان وقفے وقفے سے ہجرت کر کے اس پاک سرزمیں نامی وطن پر پہنچنا شروع ہوئے۔ قافلے چلے ہندوﺅں نے بغاوت کی، گھوڑا گاڑیوں ، بسوں ، ٹرینوں اور مال گاڑیوں پر سوار ان قافلوں میں سے لاتعداد دوران سفر شہید کر دیئے گئے۔۔ ہزاروں ماﺅں کی گودیں اجڑ یں، بچے یتیم ہوئے، بہنوں بیٹیو ں کی بے حرمتی ہوئی، باپ ،بھائی بیٹے قتل کر دئے گئے۔ لاشیں دریاﺅں میں بہائی گیئں ۔ خون کے دلدل سے گزرے کے باوجودباقی ماندہ قافلے نے پاکستان کی سرزمین پر پہنچ کر رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیااور اسلامی مملکت کے نام سے پا کستان کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے اقدام کرتے رہے۔۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیاد ان شہیدوں کے لہو نے رکھی تھی؟ غور سے مشاہدہ کیا جائے تو آج کا پاکستان محض اس دور کے تقسیم ہند سے قبل کے دورانیئے کی نمائندگی کرتا دکھائی دیتا ہے جہاں پیسے اور لالچ کے لیے ایک دوسرے کا احساس نہ کرنا، اپنے انفرادی فوائد کی زد میں آکر دوسرے کے حقوق کو پامال کرنا، تعلیم کو دیگر اصولوں میں بانٹ دیا جانا یا پھر اس کی روک تھام کے لیے بے دریغ معصوم بچوں کو قتل کیا جانا، خود کو ذات پات اور فرقوں میں بانٹ لیا جانا، محدود قوائد کے دائرے میں رہ کر اپنے اپنے فرقوں کی ڈیمانڈز کو پورا کیا جانا وغیرہ، یہ سب آج بھی قائم ودائم ہے فرق محض اتنا ہے کہ اس دور میں ظلم کرنے والی دیگر قومیں تھیں جبکہ آج لیبل لگائے ہوئے مسلمانوں کے نام پر پہروپئیے اپنی ہی قوم کو نہ صرف پامال کرنے کے در پے ہیں بلکہ زوال کی جانب دھکیل رہے ہیں۔۔
ذرا سوچیئے کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ جو ستائیسویں شب رب ذوالجلال نے تحفے کی صورت میں مسلمانوں کو عطا کیا تھا! قائد اعظم نے ۷۴۸۱ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : “ہم جس اہم جدوجہد مین مصروف ہیں وہ محض مادی فوائد کے لیے نہیں بلکہ یہ جدوجہد مسلم قوم کی روح کی بقاءکے لیے ہے“۔
تقسیم ہند سے پہلے کے دور اور آج کے پاکستان میںکسی قدرمطابقت دکھائی دیتی ہے۔ اس دور میں مسلم لیگ کے نام پر مسلمانوں کی صرف ایک جماعت تھی جو حق کی ترجماں تھی، جبکہ آج حق کے نام پر کفر کی کئی جماعتیں اپنے پر پھڑ پھڑا رہی ہیں اور پاکستان کی بھلائی کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کا دائرہ بھر رہی ہیں۔ جو بازاروں اور گھروں کے باہراپنے اپنے جھنڈے اور بینر ز لگائے ،نہ جانے کس حق اور انصاف کی ترجمانی کر ر ہی ہیں حق کا جھنڈا تو صرف وہ تھا جو قرآن کی شکل میں قیامت تک کے لیے ہمیں دیا گیا یا پھر وہ پرچم تھا جو ۷۴۹۱ یا رمضان المبارک کی اس ستائیسویں شب شہیدوں کے لہو کے رنگ میں رنگا لہرا یاگیا۔۔ قائد نے کامیابی کو تنظیم ، اتحاد اور یکجہتی کا دوسرا پہلوکرار دیا توپھر یہ طرح طرح کے پرچم لہرا کر ہم دنیائے عالم میں آخر کس حق کو اجاگر کر رہے ہیں ۔! اسلام کی سربلندی اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ پاکستانی قوم آپس میں منظم ہو کر ہی دنیا میں پہچان بنا نے کی اہلیت رکھ سکے گی۔ اور تب ہی ہم ان شہداءکی قربانیوں کا ازالہ شاید کر پائیں۔

Hina Parvez Ansari
About the Author: Hina Parvez Ansari Read More Articles by Hina Parvez Ansari: 2 Articles with 1949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.