حکومت اپنی عقل و دانش سے حکومت کودرپیش ایک بحران سے
نکالنے میں کسی حد تک کامیاب ہونے لگتی ہے ایک اور بحران حکومت کو اپنے
حصار میں لے لیتا ہے، پہلے دھرنوں نے حکمرانوں کا سانس لینا دوبھر کر رکھا
تھا اور صاف دکھائی دینے لگا تھا کہ ان دھرنوں کی منصوبہ بندی ٹھوس بنیادوں
اور بہت ہی ہنر مند ہاتھوں اور دماغوں نے کی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں گھسنا
اور پی ٹی وی پر دھاوا بولنا ایسے ہی محض اتفاق نہیں تھا۔اس وقت پاکستان
پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی اور اس کی حلیف جماعتوں کی قیادت سمجھداری کا
مظاہرہ نہ کرتیں اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دھرنا سازش کے راستے میں
کھڑی نہ ہوتی اور حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو حکومت کے اکھڑے قدم کبھی نہ جم
پاتے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کی اس فراخدلی اور اپنے ساتھ کیے
گئے یکجہتی کے مثظاہرے سے سبق حاصل نہیں کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دھرنا
پالیٹکس جسے دھرنا سازش کہنا زیادہ موزوں ہوگا کیونکہ دھرنا پالیٹکس
جمہوریت کی برسوں کے لیے بساط لپیٹنے کی گہری سازش تھی۔ اس سازش میں پہلے
عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کو تنہا میدان میں اتارا گیا اس
وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی لیکن اس نے کمال دانشمندی سے علامہ طاہر
القادری کے دھرنے کے شرکاء کی مہمان نوازی اور خاطر تواضع کی اور نہایت احس
طریقے سے اس سازش کو ناکام بناتے ہوتے دھرنا ختم کروایا اور علامہ صاحب کو
مستقبل کی آس کے پیچھے لگا کر اسلام آباد سے واپس لاہور روانہ کیا جہاں سے
پھر علامہ صاحب بیرون ملک علاج معالجے کے لیے پرواز کر گئے۔اب دھرنا سازش
کی کی منصوبہ بندی عوام کے سامنے آ رہی ہے، چند روز پیشتر وزیر داخلہ
چودہری نثار علی خان نے میڈیا کو بتایا کہ’’ چند ایک آفیسر آرمی چیف کو
تبدیل نہیں کروا سکتے‘‘ اس خبر میں اور بھی بہت کچھ کہا گیا لیکن راقم نے
وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ قوم کو کھل کر اعتماد میں لیا جائے اور بتایا
جائے کہ پاک فوج کے امیر لشکر( آرمی چیف) جنرل راحیل شریف کو کونسا افسر
ہتانے کی کوشش میں تھا یا ہے کیونکہ ادھوری بات سے مسائل حل ہونے کی بجائے
مذید الجھتے ہیں، لیکن وزیر داخلہ کی جانب سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ اب
کراچی کے رہائشی اور پنجاب سے منتخب سینٹر اور وفاقی وزیر ماحولیات مشاہد
اﷲ خاں نے بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنوں کی سازش کے
پیچھے آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل ظہیرالاسلام تھے ان کی گفتگو کی ایک
ٹیپ بھی ہاتھ لگی جو پچھلے سال وزیر اعظم نواز شریف نے ایک ملاقات میں آرمی
چیف کو بھی سنائی اور جنرل ظہیر الااسلام نے اپنے آواز کی تصدیق بھی کی۔
کچھ اخبارات نے وزیر ماحولیات سینٹر مشاہد اﷲ خان کے اس ہوشربا اور
انکشافات پر مشتمل انٹرویو کو شہ سرخی کے طور پر شائع کیا ہے جبکہ چند ایک
نے اس کی وضاخت اور تردید کی خبریں لگائیں ہیں، زینٹر مشاہدا ﷲ خان کی جانب
سے بھی کہا گیا ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کرکے شائع کیا گیا
ہے۔ جبکہ وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان جو یقیننا عرفان صدیقی ہو سکتے ہیں نے
کہا ہے کہ ایسی باتوں میں کوئی صداقت نہ ہے اور نہ ہی ایسی کوئی ٹیپ وجود
رکھتی ہے،ایسا ہی ایک بیان پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے بھی
جاری کیا ہے۔اب گیند بی بی سی کی کورٹ میں ہے اسکی وضاخت کو حتمی اور مستند
تسلیم کیا جائیگا اگر بی بی سی نے کہا کہ سینٹر مشاہد اﷲ خان نے ایسا ہی
کہا ہے جیساکہ اس نے نشر کیا ہے تو پھر چند روز قبل میرے لکھے کالم کی
صداقت ثابت ہو جائیگی کہ جولائی کے بعد آنے والے چند مہینے پاکستان کی
سیاست اور حکومت کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہونگے، میں نے یہ بھی لکھا تھا
کہ آنے والے ان چند مہینوں میں پاکستان کے سیاسی موسم میں حدت بڑھے گی اور
حکومت کو مدت پوری کرنے سے روکنے کے لیے اسکے راستے میں سپیڈ بریکر لگانے
والوں کی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہو گی۔حکومت کے ترجمان پرویز رشید اور وزیر
اعظم ہاؤس کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کی واضع تردید کے بعد وفاقی وزیر
ماحولیات سینٹر مشاہد اﷲ خاں کو فوری طور پر اپنے عہدے سے علیحدگی اسختیار
کرلینی چاہئیے کیونکہ ان سے منسوب بیان معمولی نہیں غیر معمولی حالات میں
غیر معمولی بیان ہے۔ اور اسکے اثرات بھی دورس نتائج کے حامل ہوں گے۔ وفاقی
وزیر اخلاقی برتری کا ثبوت دیتے ہوئے خود وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان
کردیں تو زیادہ بہتر ہوگا ،مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس بیان کے توسط سے
متنازعہ ہونے کے باوجود وزارت کے منصب پر فائز رہ سکیں گے؟ برحال وزیر اعظم
نواز شریف نے خواہ رضاکارانہ طور پر ٰیا اندرونی دباؤ کے نتیجہ میں ہی سہی
اپنے اختیارات سے دست برداری اختیار کرتے ہوئے پاک فوج کے ساتھ حکومت کے
تعلقات بہتر ہونے کی جو فضا قائم کی ہے اب وہ خطرات سے دوچار ہو گئی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کو مشاہد اﷲ خان کے خلاف فوری ایکشن لینا ہوگا تاکہ
ایک بندے کی قربانی دیکر پوری حکومت اور جمہوری سسٹم کو قربانی کی بھینٹ
چڑھنے سے بچایا جا ئے۔ اس حوالے سے حکومت کو پاک فوج کی قیادت اور اپوزیشن
کو بھی جلد از جلد اعتماد میں لینا ہوگا ورنہ بات کہیں سے کہیں پہنچ جائے
گی۔ چودہ اگست یوم آزادی کے موقعہ پر پاک فوج کی موجودہ اور ریٹائرڈ قیادت
کے اتحاد کی فوٹو بہت کچھ بیان کر رہی ہے۔ ’’ہم سب ایک ہیں‘‘ جبکہ آرمی کی
رویت ہے کہ بحر انی کیفیت میں سابق چیفس سے راہنمائی حاصل کی جاتی ہے لیکن
سیاسی قیادت اس خصوصیت سے پاک ہے۔ میرے موکل اصرار کرتے ہیں کہ بات دور تک
جائیگی اور کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہونے والا
آپریشن اب آہستہ آہستہ اسلام آباد اور لاہور کی طرف گامزن ہونے والا ہے۔
فیصل آباد میں یوم آزادی کے موقعہ پر جو انکشافات ہوئے اور پنجاب کے وزیر
قانون رانا ثنا اﷲ کے بیس افراد کے قتل میں ملوث ہونے کے بیانات کے ساتھ
ساتھ مسلم لیگ نواز کے راہنماؤں کی جانب سے رانا ثنااﷲ کے خلاف کارروائی
اور فیصل آباد میں بھی کراچی طرز کا آپریشن کرنے کے جو مطالبات کیے گے ہیں
انہیں بھی شنوائی ملنے کی اطلاعات ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاون بھی مکمل زیر بحث ہے
اور علامہ طاہر القادری بھی ڈنٹ بیٹھکیں لگانے میں مصروف ہیں وہ کسی وقت
بھی اسلام آباد کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں، اس حوالے سے یہ کہنا بجا ہوگا
کہ آنے والے دن پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچانے والے ہیں۔ ایم کیو ایم کے
ارکان پارلیمنترین کے استعفی بھی رنگ جمائیں گے۔ ان ھالات میں حکومت کے صبر
اور تدبر کا امتحان ہوگا اگر تو اس نے زرادری کی طرح میمو گیٹ سکینڈل سمیت
سازش بہتر حکمت عملی سے ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کرلی تو شائد یہ
حکومت آئندہ تین سال اسلام ٓاباد پر اپنا قبضہ برقرار رکھ پائے ورنہ قدم
بڑھاو راحیل شریف قوم تمہارے ساتھ ہے کے نعرے لگانے والے اخبارات میں
نمایاں جگہ پا رہے ہیں۔پنجاب کے بڑے شہروں سے چھوٹے چھوٹے دیہات تک میں
جنرل راحیل شریف کے بڑے بڑے پوسٹرز اور فلیکسیں آویزاں کی جا رہی ہیں آج کے
اخبار میں بھی انہیں خوش آمدید کہا گیا ہے لہذا حکومت کے ناتواں کاندھوں پر
بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہو گئیں ہیں وہ ایسی صورت حال پیدا ہونے سے روکے
جس سے ملک میں انارکی فروغ پائے اور قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کا سبب
بنے۔حکومت کے ھق میں یہی بہتر ہوگا کہ وہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے
ارکان اسمبلی کے استعفوں اور مشاہد اﷲ خان کے کھولے ہوئے پنڈورا بکس کو جلد
سے جلد حل کرے، سنا ہے کہ مشاہد اﷲ خان نے اپنے عہدے سے استعفی دیدیا ہے
مگر متعلقہ حلقے محض استعفی پر راضی نہیں ان کی ڈیمانڈ اس سے زیادہ ہے
موجود ہ حکومت کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ
ہوگا کہ’’ اک مٹھ چک لے دوجی تیار‘‘ |