بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ ڈی)، شعبۂ قرآن وسنۃ،
کلیۂ معارفِ اِسلامیہ، جامعہ کراچی۔
اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے،
اپنے آخری رسول امامُ الانبیاء رَحْمةُ لِّلعالمین (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ
وسلّم) پر نازل کردہ وحی متلوّ، آخری الہامی کتابِِ ہدایت یعنی قرآن مجید
اور وحی غیرمتلوّ ، سنۃ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم)یعنی
اُسوۃُالْحسنۃ پر مبنی جو دین عطا فرمایا، اس کا نام "الاسلام"رکھا۔ اللہ
ربُّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کاپسندیدہ یہ دین پورے کا پورا مُنزَّل مِنَ
اللہ اور ہر لحاظ و اعتبار سے مکمل ہے۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ۰ۣ وَمَا اخْتَلَـفَ الَّذِيْنَ
اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا
بَيْنَھُمْ۰ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللہِ فَاِنَّ اللہَ سَرِيْعُ
الْحِسَابِ۱۹- (سورۃ آل عمران، آیۃ -19)
بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے، ف ۳ اور جن لوگوں کو کتاب دی
گئی انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس (حق اور حقیقت کے
بارے میں صیحح) علم پہنچ گیا، محض آپس کی ضد (اور حسد) کی بنا پر، اور جو
کوئی کفر کرے گا اللہ کی آیتوں کے ساتھ تو (وہ یقینا اپنا ہی نقصان کرے گا
کہ) بیشک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے،
٣ ف سو دین حق صرف اسلام ہے۔ اور نجات و سرخروئی اسی سے وابستہ ہے اس کے
سوا اور کوئی بھی دین اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور ایسے لوگ آخرت
میں یقینا اور قطعی طور پر محروم اور خسارے میں ہیں ۔ جیسا کہ دوسرے مقام
پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ
الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ
مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 003:085) پس جو لوگ لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے کہہ
دیا کرتے ہیں کہ سب دین ٹھیک ہیں سب نیکی کی دعوت دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ وہ
سراسر غلط، جھوٹ اور ناحق بات کہتے ہیں دین حق صرف اسلام ہے۔ اسکے بغیر
نجات کی کوئی صورت ممکن نہیں، اسلام ہی دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین
ہے، والحمدللہ جل وعلا
عناد و ہٹ دھرمی باعث محرومی : سو ضد اور حسد کی آفت اتنی بڑی اور اس قدر
ہولناک آفت ہے کہ انسان کو نورِحق وہدایت تک سے محروم کرکے اس کو اندھا
بہرا بنا دیتی ہے۔ والعیاذ باللہ - اسی حسد و عناد کے جرم کا ارتکاب سب سے
پہلے کیا گیا۔ اور اسی کی بنا پر اولاد ِآدم میں سب سے پہلے جرم قتل کا
ارتکاب کیا گیا۔ قابیل نے ہابیل کو مارا۔ اور اسی کی بنا پر ابلیس لعین نے
اولاد آدم سے دشمنی اور ان کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی تھی - والعیاذ باللہ
- جسکے نتیجے میں وہ ہمیشہ کیلئے مردود اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ سو عناد و
ہٹ دھرمی محرومی کا باعث ہے - وَالْعِیَاذُ باللّٰہ لْعَظِیْم - بہرحال
اللہ کا دین صرف دین اسلام ہے، اور یہ دین عدل و قسط کی میزان ہے ۔ اور یہی
دین آسمان و زمین کی اس پوری کائنات میں تکوینی نظام کے طور پر نافذ ہے
جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی
السَّمٰوٰت وَالْاَرضَ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّاِلَیْہ یُرْجَعُوْنَ} (اٰل
عمران : 83) اور اسی دین حنیف کی دعوت تمام انبیائے کرام اپنے اپنے ادوار
میں اپنی اپنی امتوں کو دی - علیہم الصلاۃ والسلام -
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ
اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى
وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ
كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ۰ۭ اَللہُ
يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ
يُّنِيْبُ۱۳- (سورۃ الشوریٰ، آیۃ -13 )
اسی نے مقرر فرمایا تمہارے لئے (سعادت دارین سے سرفرازی کے لئے) دین کا وہی
طریقہ جس کا حکم وہ (اس سے پہلے حضرت) نوح کو دے چکا ہے اور جس کی وحی اب
ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں اور جس کا حکم ہم (اس سے پہلے) ابراہیم موسیٰ اور
عیسیٰ کو دے چکے ہیں (اس تاکید کے ساتھ) کہ قائم کرو تم اس دین کو اور اس
میں پھوٹ نہیں ڈالنا ف ۲ بڑی بھاری ہے مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف آپ ان کو
بلا رہے ہیں اللہ چن لیتا اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور وہ راہ دیتا ہے اپنی
طرف اس کو جو رجوع کرتا ہے (اس وحدہ لاشریک کی طرف). سو اس سے اس دین کا
بھی ذکر و بیان فرما دیا گیا جس کی تعلیم وتلقین ان انبیاءِ کرام کو فرمائی
گئی تھی اور اس ہدایت کا بھی جو اس دین کے متعلق ان ابنیاءِ کرام کے پیروؤں
کو فرمائی گئی، پس دین سے مراد ہے اللہ کا دین اور اللہ تعالیٰ کا دین
ہمیشہ سے اسلام ہی رہا، جو کہ دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے اور
جو کہ شروع سے ایک ہی دین رہا ہے، اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول و
معتبر اور پسندیدہ دین ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (اِنَّ
الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ) 3۔ آل عمران:19) یعنی دین تو اللہ
تعالیٰ کے یہاں اسلام ہی ہے۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت
نوح بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت آدم کو دیا، اور یہی خاتم الانبیاء حضرت محمد
(صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیا گیا، اسکے مبادی اور اساسات شروع سے لے کر آخر
تک سب ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں ۔ اور اس کی اصل الاصول اور اہم بنیاد توحید
خداوندی ہے، فرق اگر ہوا ہے تو جزئیات اور فروع میں ہوا ہے جس کو قرآن حکیم
نے شرعۃ اور منہاج کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اس دین سے متعلق امتوں
کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ
برپا کرنا، اسی اصولی اور بنیادی ہدایت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان
فرمایا گیا ہے (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا
تَفَرَّقُوْا) 3۔ آل عمران:103) یعنی تم لوگ سب مل کر اللہ کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑنا، اور باہم متفرق نہ ہونا۔ اور قائم رکھنے سے مراد ہے کہ اس
کی تعلیمات کو سچائی سے مانا اور اپنایا جائے اور ان پر دیانتداری اور راست
بازی سے عمل کیا جائے۔ یہاں پر حضرات انبیاءِ کرام کا حوالہ اس طرح دیا گیا
کہ سب سے پہلے اس سلسلہ مطہرہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کا ذکر فرمایا گیا،
یعنی حضرت نوح اور خاتم الانبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، اور پھر
بیج کے انبیاءِ کرام میں سے تین جلیل القدر نبیوں کا ذکر فرمایا گیا، یعنی
حضرت ابراہیم، حضرت موسٰی، اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام، کیونکہ
ان تینوں کی پیروی کے دعویدار اس وقت بھی دنیا میں موجود تھے، اور آج بھی
ہیں، اس طرح حضرات انبیاءِ کرام کی پوری تاریخ کی طرف بھی ارشاد فرما دیا
گیا اور ان کی امتوں کی طرف بھی۔ والحمدللہ جل وعلا. اللہ ربّ العالمین
سبحانہ وتعالٰی نے عالم انسانیت کے لئے اپنی اس عظیم نعمت، الوھی ھدایت
یعنی دین "الاسلام" کی تکمیل کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم اعلان (خود
اپنی آخری الہامی کتاب ہدایت "قرآن مجید میں فرما دیا ہوا ہے، اَلْيَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ
وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ (سورۃ المائدہ آیۃ-3) ترجمہ "آج
میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا (ف ۱۵) اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (ف
۱٦) اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"۔
اللہ ربّ العالمین سبحانہ وتعالٰی کےآخری رسول ، امام الانبیاء، رحمةّ
لِّلعالمین حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے بھی اپنے خطبہء
حجة الوداع میں دین اسلام کے مکمل ھونے کا بالکل واضح، واشگاف اورغیر مبہم
اعلان فرمادیا۔
خُطْبَۃ اَلوَدَاع اصطلاحاً حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان ارشادات جو
کہا جاتا ھے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ۱۰ھ کے حج کے موقع پر
فرمائے- واضح رھے کہ سن ۱۰ھ میں جو حج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا،
یہ ہجرت کے بعد آپ کا واحد اور آخری حج تھا۔ کیونکہ ۱۱ھ میں حضور کا وصال
ہوگیا تھا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے حضور کا یہ حج ’حجۃ الوداع‘ کہلاتا ہے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ارشادات
فرمائے انہیں ’خطبۃ الوداع‘ یا پھر ’خطبۃ حجۃ الوداع‘ کہا جاتا ہے۔
خطبہ حجة الوداع حضور کی مختلف ہدایات کا مجموعہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی ہدایات فرمائیں جن میں دو بڑے خطبے بھی
شامل ہیں۔ ایک خطبہ حضور نے عرفات میں ارشاد فرمایا۔ یہی خطبہ سنت رسول کے
طور پر اب بھی ٩ ذی الحجہ کی دوپہر کو عرفات کے میدان میں پڑھا جاتا ہے۔
جبکہ دوسرا خطبہ وہ ہے جو حضور نے منٰی میں ارشاد فرمایا۔ اس کے علاوہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھے گئے، حضور نے ان کے
جوابات دیے۔ حضور نے حج کے مختلف مسائل کے بارے میں بھی ہدایات دیں۔ عرفات
اور منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا، صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے جو جو بات یاد رکھی اور وہ آگے منتقل کی، اس کو
محدثین کرام رحمہم اللہ نے محفوظ کیا۔ ان سب کا مجموعہ محدثین کی اصطلاح
میں حجة الوداع کا خطبہ کہلاتا ہے۔خطبۃ حجۃالوداع کواسلام میں بڑی اہمیت
حاصل ہے۔خطبۃ حجۃالوداع بلاشبہ انسانی حقوق کااوّلین اورمثالی منشوراعظم
ہے۔اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کاسب سے پہلامنشورانسانی حقوق
ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی،قومی
مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کاکوئی شائبہ نظرتک نہیں آیا۔یہ ابلاغ اسلام
کی بنیادپر’حجۃالاسلام‘،’حجۃ التمام‘اور’حجۃ البلاغ‘کے نام سے بھی موسوم ہے
اس حج کے موقع پرآقاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جوخطبہ ارشادفرمایااسے’’
حجۃ الوداع‘‘ کہتے ہیں۔آپ ﷺ کے حکم سے قصوء اونٹنی پرکجاواکساگیااورآپ ﷺ
قصواء اونٹنی پرسوارہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اسوقت اآپ ﷺکے گردایک
لاکھ چوبیس ہزاریاایک لاکھ چوالیس ہزارانسانوں (صحابہءکرام) کاسمندرٹھاٹھیں
ماررہاتھاآپ ﷺنے انکے سامنے ایک جامع خطبہ ارشادفرمایا۔اس خطبہ کی اہمیت کے
پیش نظر اس کا مکمل متن پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب مصطفی کریمﷺکے ان ارشادات
کا بنظرغائر مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی
ہے اور نوع انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق وفرائض کاجوتذکرہ کیاگیاہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اﷲ پاک کی حمدوثناء کرتے ہوئے خطبہ کی
ابتداء یوں فرمائی۔ "اے لوگو!بے شک تمھارا رب ایک ہے اور بیشک تمھارا
باپ(آدم علیہ السلام)ایک ہے۔سن لو،کسی عربی کوکسی عجمی پر،کسی سْر خ کوکسی
کالے پراور کسی کالے کوکسی سْرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔اس
طرح زمانہ جاہلیت کے خاندانی تفاخراور رنگ ونسل کی برتری اور قومیت میں
اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بْتوں کوپاش پاش کرتے ہوئے مساواتِ اسلام
کاعَلم بلند فرمایا۔فرمایا:اے لوگو!تمھاری جانیں اور تمھارے اموال تم پر
عزت وحرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرو،یہ اس طرح ہے جس
طرح تمھارا آج کا دن حرمت والاہے۔اور جس طرح تمھارا یہ شہر حرمت والاہے۔بے
شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے
گا۔سنو!اﷲ کاپیغام میں نے پہنچادیااورجس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہواس
پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے۔ سارا سود معاف ہے
لیکن تمھارے لئے اصل زر ہے،نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔
اﷲ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیاہے کہ کوئی سود نہیں۔سب سے پہلے جس
ربا(سود،بیاج)کو میں کالعدم کرتاہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کاسود ہے۔یہ سب
کاسب معاف ہے۔زمانہ جاہلیت کی ہر چیزکو میں کالعدم قرار دیتا ہوں اور تمام
خونوں میں سے جوخون میں معاف کررہاہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے
بیٹے ربیعہ کاخون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھااور ہذیل
قبیلہ نے اس کوقتل کردیا۔اے لوگو!شیطان اس بات سے مایوس ہوگیاہے کہ اس زمین
میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی،لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے
گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے
ہوشیاررہنا۔پھرفرمایاکہ جس روز اﷲ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کوپیدا
کیا،سال کوبارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی
قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور رجب)ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں۔
اے لوگو!اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہاکرو،میں تمھیں عورتوں (بیویوں)کے ساتھ بھلائی
کی وصیت کرتا ہوں،کیونکہ وہ تمھارے زیرِ دست ہیں،وہ اپنے بارے میں کسی
اختیار کی مالک نہیں اور یہ تمھارے پاس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور
اﷲ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمھارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اوران
کے تم پر بھی حقوق ہیں۔تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر کی حرمت کو
برقراررکھیں اور ان پریہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ
کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو،پھر اﷲ تعالیٰ نے تمھیں
اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا
تم مار پیٹ سکتے ہولیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم
پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردونوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔
اے لوگو!میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو،بے شک میں نے اﷲ کا پیغام
تم کو پہنچا دیاہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ اگر
تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔اﷲ تعالیٰ کی
کتاب(قرآن کریم)اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت۔
اے لوگو!میری بات غور سے سنواور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے
کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا
مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔جان لو کہ دل ان
تینوں باتوں پرحسد وعناد نہیں کرتے۔ہرکسی عمل کوصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے
لیے کرنا۔حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔مسلمانوں کی جماعت کے
ساتھ شامل رہنااور بے شک ان کی دعوت ان لوگوں کوبھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے
علاوہ ہیں۔جس کی نیت طلب دنیاہواﷲ تعالیٰ اس کے فقروافلاس کو اس کی آنکھوں
کے سامنے عیاں کردیتاہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں
حاصل ہوتااس کواس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اور جس کی
نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے
اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے اس حال
میں کہ وہ اپنی ناک گھسیٹ کرآتی ہے۔اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری
بات کو سنااور دوسروں تک پہنچایا۔بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا
جاننے والاہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتااور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو
بات پہنچاتاہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔تمھارے غلام،جو تم کھاتے ہوان
سے ان کو کھلاؤ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ،اگر ان سے کوئی ایسی
غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔اے اﷲ
کے بندو!ان کو سزا نہ دو۔میں پڑوسی کے بارے میں تمھیں نصیحت کرتاہوں(یہ
جملہ سرکار دوعالمﷺنے اتنی بار دہرایاکہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ
حضورﷺپڑوسی کو وارث نہ بنادیں)۔ اے لوگو!اﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا
حق دے دیا ہے،اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے
وصیت کرے۔بیٹا،بستر والے کا ہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکارکے لیے پتھر۔جو
شخص اپنے آپ کواپنے باپ کے بغیرکسی طرف منسوب کرتا ہے اس پر اﷲ
تعالیٰ،فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔نہ قبول کرے گا اﷲ تعالیٰ اس سے
کوئی بدلہ اور کوئی مال۔جو چیز کسی سے مانگ کرلواسے واپس کرو،عطیہ ضرور
واپس ہونا چاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرناچاہئے اور جو ضامن ہو
اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے۔(بخاری و مسلم وابوداؤد)۔
اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ ﷺنے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت
کیاجائے گا،تم کیا جواب دوگے؟انہوں نے کہاں ہم گواہی دیں گے کہ آٓپ ﷺ نے اﷲ
کا پیغام پہنچایا،اس کو ادا کیااور خلوص کی حد کر دی۔حضورﷺ نے اپنی انگشت
شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا،پھر لوگوں کی طرف موڑااور فرمایا:اے اﷲ!توبھی
گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا،اے اﷲ!توبھی گواہ رہنا‘‘۔(بحوالہ:ضیاء
النبی،ج۴،ص۳۵۷تا۸۵۷،سیرت مصطفی۹۹۳،سیرت رسول اکرم۷۷۲)
بخاری شریف کی روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رض سے ان کے
دور خلافت میں ایک یہودی عالم نے کہا: یا حضرت ! آپ کے قرآن میں ایک آیت
ایسی ہے` وہ آیت اگر ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم آیت کے نازل ہونے کے دن کو
عید بنا لیتے- ہم باقاعدہ ڈے مناتے اس پر کہ فلاں دن یہ آیت نازل ہوئی تھی-
حضرت عمر رض نے پوچھا` کون سی آیت؟ اس نے کہا: `الیوم اکملت لکم دینکم
واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا`- (المائدہ ٣:٥) اللہ تعالیٰ نے
فرمایا کہ میں نے دین مکمل کر دیا ہے` اپنی نعمت تمام کر دی ہے- تکمیل کا
مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے وحی کا نزول شروع ہوا تھا` اس کے
بعد مختلف پیغمبروں کے ذریعے ہدایات و احکام نازل ہوتے رہے` جناب نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی کا یہ سلسلہ چلتا رہا- احکام آتے بھی رہے` منسوخ
بھی ہوتے رہے` ان میں ترامیم بھی ہوتی رہیں- یہ ایک ارتقا کا اور تدریج کا
عمل تھا- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ تعالیٰ نے وحی کا کام مکمل کر
دیا- اب قیامت تک کوئی وحی نہیں ہوگی اور نہ احکام میں رد و بدل ہوگا اور
نہ ہی کوئی نیا حکم آئے گا- تو تکمیل کا معنی یہ ہے کہ وہ وحی جو آدم علیہ
السلام پر نازل ہونا شروع ہوئی تھی` وہ تدریج اور ارتقا کے مراحل طے کرتے
ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوئی ہے-
چنانچہ جب غلبۂ دین مکمل ہوا تو حجة الوداع اس کا سب سے بڑا مظہر تھا کہ
اتنی شان و شوکت اس سے پہلے مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہوئی- اللہ تعالیٰ
نے اس موقع پر اعلان فرمایا: الیوم اکملت لکم دینکم`- آج کے دن میں تمہارے
لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے- واتممت علیکم نعمتی`-اور اپنی نعمت تم پر
تمام کر دی ہے- ورضیت لکم الاسلام دینا`- اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین
ہونے پر راضی ہوں- آج کے بعد میں کسی انسان سے اسلام ہی کا دین قبول کروں
گا اور کوئی دین قبول نہیں کروں گا- تو اس یہودی عالم نے حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے کہا کہ یا امیر المؤمنین! یہ آیت اگر ہم پر تورات میں نازل
ہوئی ہوتی تو ہم آیت کے نزول والے دن کو عید بنا لیتے- حضرت عمر رض نے کہا
کہ اللہ کی قدرت ہے کہ ہم پر یہ آیت نازل ہی عید والے دن ہوئی ہے- تم تو
عید بنا لیتے` ہماری پہلے سے عید ہے- فرمایا یوم النحر کو منٰی میں یہ آیت
نازل ہوئی تھی اور میں اس موقع پر موجود تھا- یوم النحر یعنی عید الاضحی
اور قربانی کا دن- حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ہماری تو دو عیدیں تھیں- سالانہ
عید بھی تھی اور ہفتہ وار عید بھی تھی` یعنی وہ جمعة المبارک کا دن تھا
اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی نے خود ہی اپنے آخری رسول رحمة للعالمین
(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی نبوت و رسالت اوراپنی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ
مجید پر مبنی (دین "الاسلام") کو قبول کرنے، اس پرایمان لانے اور اسے اخلاص
قلب و صدق نیت کے ساتھ تسلیم کرنے والوں کا نام قرآن مجید میں "مسلمان" رکھ
دیا اورعالم انسانیت با لخصوص اہل ایمان (مسلمانوں)کو اپنے اس دین اسلام کا
مکلف قرار دے دیا ۔
قرآن و سنۃ پر مبنی اللہ رب العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ الوہی دین
"الاسلام" میں حجیّت (اتھارٹی)صرف قرآن وسنۃ ہی ہیں، ان دو کے ما سوا (کسی
بھی شخص یا اشخاص، جماعت یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء، مجتہد
یا مجتہدین، کسی بھی تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب سمیت) کوئی سے بھی
انسانی خیالات و بشری افکار کو دین اسلام میں حجیّت (اتھارٹی) کی حیثیت
حاصل نہیں ہے لہذا الوھی ھدایت پر مشتمل، قرآن و سنۃ پر مبنی، اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی کے پسندیدہ دین "الاسلام" میں کسی کمی و بیشی،
ردوبدل، ترمیم و تحریف کا کوئی امکان یا جواز باقی نہیں رھا۔ الله سبحانه و
تعالى ، انبياء و رسل عليهم الصلواة والسلام کے سوا کسی بھی عام انسان کو
براه راست اوربلا واسطه هدايت عطا نہیں كرتا بلکہ انبياء و رسل عليهم
الصلواة والسلام کے سوا باقی تمام انسانوں کو اپنے انبياء و رسل علیہم
الصلواة والسلام کے توسل و توسط سے ھی ھدایت دیتا ھے- لہذا اللہ رب
العالمین سبحانہ وتعالی جسے چاھتا ھے ، حیات رسول اللہ حضرت محمد مصطفی
(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) میں مکمل ھو جانے والے اپنے دین "الاسلام"
پرقائم رہنے کی توفیق عطا فرماتا ھے۔
اب جو کوئی بھی مسلمان ، فرد یاافراد، طبقہ یا گروہ، کتاب اللہ اورسنۃ رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کے سواء بھی کسی اور شخص یا اشخاص، جماعت
یا گروہ، اکابر یا اکابرین، فقیہ یا فقہاء ، مجتہد یا مجتہدین، کسی بھی
تصنیف یا تالیف شدہ کتاب یا کتب یا کوئی سےبھی انسانی خیالات و بشری
افکارکو منزل من اللہ الوھی دین "الاسلام" میں اتھارتی (حجیت) مانتا ھے، یا
قرآن وسنۃ پر اولیّت، ترجیح ، فوقیّت یا برابر کی حیثیّت دیتا ھے تو اسے
اپنے رویّے پر غور کرنا ضروری ھے۔ ھر ایک صاحبِ ایمان کے لئے لازم ھے کہ وہ
اپنے آپ کو دینی اعتبار سے محض"مسلمان" سمجھے اور کہلوائے مسلمان کے علاوہ
اپنی کوئی بھی دیگر دینی ومذھبی شناخت، پہچان یا نام (جیسے بریلوی،
دیوبندی، مماتی، حیاتی اھل حدیث، سلفی، جماعتی، تبلیغی، عطاری، طاھری
وغیرھم) سمجھنے، اپنانے، کہلوانے، اور اختیار کرنے سے گریز کرے، کیوں کہ یہ
عمل قرآ ن و سنۃ کے صریحاً خلاف ، ناجائز ، ناپسندیدہ اور دین اسلام سے ھٹ
کر گمراہہی میں مبتلا ھونے کی دلیل و علامت ہے۔
مسلم علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں
اورمسلم حکمرانوں کا کام (فرض منصبی) کا لازمی تقاضہ توصرف یہ ہے کہ وہ
اخلاص قلب اور صدق نیت کے ساتھ، قرآن وسنۃ کے مقصود اصلی، حقیقی پیغام و
تعلیمات، معارف و معانی، مطلوب مقاصد دین ، نظامہائے معیشت و معاشرت، عدل و
انصاف، تعلیم و تربیت، سیاست و مشاورت، حقوق اللہ و حقوق العباد، مساوات
انسانی سمیت اسوة الحسنۃ کو اس کے مقصود اصلی اور حقیقی روح کے عین مطابق
صحیح طور پر پہلے خودخوب اچھی طرح سمجھیں اور کامل اطاعت و اتباع
کریں،تقویٰ اختیار کریں اور اس کے بعدپھرنبوی منہاج کے عین مطابق اور کسی
بھی کمی و بیشی، تغیّر و تبدّل کے بغیر، خالصتاً قرآن و سنۃ کی انہی اصل
تعلیمات کو دوسرے عام مسلمانوں تک پہنچائیں۔
مسلم علماء کرام، مذھبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راھنماؤں
اورمسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ذاتی یا کوئی سے بھی انسانی
خیالات، بشری افکار و نظریات پر مبنی نظاموں کو بالائے طاق رکھ کر، فقط
قرآن وسنۃ کی بالا دستی قاےم کرنے، انہی کی تدریس وتعلیم، ترویج و تبلیغ ،
تنفیذسمیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مقدس فریضہ دیانتداری و ایمان
داری کے ساتھ سر انجام دیتے رھیں اور عام مسلمانوں کو حقوق اللہ اور حقوق
العباد کے متعلق شریعۃ اسلامیہ کے احکامات و تعلیمات سے پوری طرح آگاہ کریں
اور ان کی اہمیت کو اپنے خطبات، وعظ و نصیحت، تقاریر و گفتگو میں پھلی
ترجیح بنائیں خود بھی ان کا مکمل خیال رکھیں اور عام لوگوں کو بھی ان دونوں
قسم کے احکام و تعلیمات کی کامل پاسداری و پابندی کی تاکید کرتے رہیں۔ ۔
مسلم معاشرے کے افراد کو اجتماعی و انفرادی سطح پر قرآن وسنۃ کی اطاعت و
اتباع ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)کے اسوة الحسنۃ کی مکمل پیروی
کرنے پر مائل و آمادہ اور قائل و راغب کرنے، مسلم معاشرے کے افراد کی ہر
سطح پر اصلاح کرنے، ان کو ہر قسم کی گمراہی، بے راہ روی اورقرآن وسنۃ کے
احکامات کی نافرمانی اور انحراف سے روکنے، ممنوعات، فحشاء و منکرات میں
مبتلا ھونے سے باز رکھنے، عام مسلمانوں کو باعمل و صالح مسلمان اورمعاشرے
کا مفید فرد بنانے، قول و فعل کے تضادات، حرص وحوص، طمع و لالچ، بغض و
عناد، کینہ پروری و عداوت، علاقائی، لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ عصبیتوں اور
تعصبات سمیت ہر قسم کے انتشار و افتراق، باہمی فسادات، سود خوری و حرام
کاری، رشوت ستانی،فسق و فجور، بدعات، مذہبی منافرت، جھوٹ، بد عہدی، دھوکہ
دہی ،وعدہ خلافی، نا جائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، غیر اسلامی رسومات
روائج سمیت تمام رزائل اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچتے رہنے ، حقوق اللہ
و حقوق العباد کا پورا پورا خیال رکھنےکی وعظ و نصیحت،تلقین و تاکید کرتے
رہنا اور امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی، امن و استحکام ، خوش حالی اور فلاح
و ترقی کے لئے مخلصانہ، با مقصد اور نتیجہ خیز جدّو جہد کرتے رہنا بھی مسلم
علماء کرام، مذہبی پیشواؤں و دینی و سیاسی قائدین، قومی راہنماؤں اورمسلم
حکمرانوں کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔
انہی کی یہ بھی ایک اہم ذمہ داری ہےکہ امّۃِمسلمہ کے افراد کو دینی تعلیم و
تربیت کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز، نیچرل سائنسز ، ہیلتھ سائنسز، ڈیفنس
سائنسز، صنعت و حرفت، انجینئرنگ و جدیدٹیکنولوجیز سمیت عصری علوم و فنون کی
معیاری و اعلیٰ تعلیم و عملی تربیت کے حصول ، تحقیقات و ایجادات کیلئے
ضروری سہولیات و وسائل اور ترغیبات فراہم کریں تاکہ دیگر اقوام عالم کے
مقابلے میں ہر اعتبار سے،مسلم امّہ زیادہ مضبوط و مستحکم ، متحد و منظم ،
خوشحال و ترقّی یافتہ ہو اور دنیا میں اللہ سبحانہ و رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہ وسلم کے دین کو غالب و سربلند کر سکے۔
ہر ایک سطح پر قرآن وسنۃ کے علمی نفاذ اور دین اسلام کے غلبے و سربلندی کی
ہر ممکن کوشش کرنا، امتِ مسلمہ کو (جو کہ جسد واحد کی طرح، امتِ واحدہ ہے)
متحد، مربوط و منظم رکھنے اور ہر قسم کے تفرقے اور انتشار و افتراق، بد
امنی، مذہبی منافرت، عدم استحکام سے بچانے کی حتی المقدور اور مخلصانہ
جدّوجہد کرتے رہنا اور غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت ثابت کر کے احسن
طریقوں سے، نبوی منہاج کے مطابق ان کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا
بھی مسلم امراء و علماء کرام، مذہبی پیشواؤں، دینی قائدین و رہنماؤں
اورمسلم حکمرانوں کی اصل، اولین اور سب سے اہم ذمہ داری اور منصبی فریضہ
ہے۔
دین اسلام مسلمانوں کو باہم اخوتِ اسلامی اور امداد باہمی جبکہ غیر مسلموں
کے ساتھ بقائے باہمی کے زرّین اصولوں پر قائم رہنے اورامن و سلامتی ، عدل و
انصاف، مساوات وغیرہم سمیت فلاح انسانی کی دیگر تعلیمات سے روشناس کرواتا
ہے مگر حیرت و تعجب میں غرق ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ اکثر و بیشتر
افراد امت میں فرقہ واریت کا گندہ و غلیظ زہر اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ اب
مسلمان کو منزّل مِن اللہ دین اسلام یعنی قرآن مجید اور رسول اللہﷺ کی سنّۃ
اور اسوۃ الحسنہ (جو قرآن کی عملی تعبیر و تشریح اور مجسم تفسیر ہیں) کے
ساتھ کوئی بھی تعلق، واسطہ، وابستگی اور رغبت ہی نہیں ہے اور وہ اپنے فرقہ
پرست ملاؤں کی من گھڑت، خود ساختہ، گمراہ کن خلاف اسلام باتوں اور جاہلانہ
تعلیمات کے دفاع میں قرآن مجید اور سنّۃ رسول اللہ ﷺ یعنی اسوۃ الحسنہ کے
بالکل واضح احکامات و تعلیمات کا صاف انکار کر دیتے ہیں معاذ اللہ ایسا
محسوص کرتا ہوں جیسے ان لوگوں کو اس عقیدہ پرانتہائی پختہ اور راسخ کیا جا
چکا ہے اور ان کو مکمل اطمینان و یقین دلا دیا گیا ہےکہ جو ہم بتائیں بس
وہی حق اور سچ ہے اور اسی کو دین مانو تمہارا فرقہ ہی دین اسلام پر ہے قرآن
و سنہ اور اسوۃ الحسنہ کو پڑہنے سمجھنے کی کوشش مت کرنا ورنہ گمراہ ہو کر
جہنّمی ہو جاؤ گے کیوں کہ جنّت الفردوس ہمارے ہی نظریات و افکار پر منحصر
ہے( اس میں قرآن مجید و سنۃِ رسول اللہ (احادیث مبارکہ اور رسول اللہ ﷺ کے
اسوۃ الحسنہ ) کوئی عمل دخل نہیں ہے) جو ہم کہتے بس فقط اسی کو مانو باقی
سب چھوڑو ورنہ ایمان ختم ہو جائے گا۔ اب لوگ اب برملاکہتے ہیں کہ مجھے قرآن
و سنّت اور اسوۃ الحسنہ سے کوئی براہِ راست کوئی سروکار، تعلق واسطہ نہیں
ہے ۔ لگتا ہے کہ جیسے معاذ اللہ ہر فرقے کے پیروکاروں نے اپنے اپنے فرقہ کے
نام نہاد مذہبی پیشواؤں اور مسجد کے ملّا جی کو اللہ تعالٰی کے دین اسلام
میں پہلی ، آخری اور واحد اتھارٹی یعنی حجیت تسلیم کرلیا ہے اور رسول اللہ
ﷺ کو اور قرآن کو اس کواس کے بیچ نکال کر فارغ کر دیا ہے۔ لوگوں کو سکھلا
دیا گیا ہےکہ تم کہا کرو میرے فرقے کا ملّا جی جو کہتا ہے بس وہی حق ہے
باقی سب کفر و شرک اور ارتداد ہے میں قرآن و سنّۃ اور اسوۃ الحسنہ کے بارے
میں کچھ بھی سننا یا جاننا چاہتا ہی نہیں ہوں۔ یہ اسی برین واشنگ کا ہی
نتیجہ ہے کہ فرقوں نے اپنے اپنے گمراہ کئے ہوئے لوگوں میں سے بعض نوجوانوں
کو آتشین اسلحہ سے لیس کر کے مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملے کرنے پر لگا
دیا ہوا ہے ۔اصل دین اسلام جو کہ پورے کا پورا منزّل من اللہ ہے اور جس میں
انسانی و بشری افکار و نظریات کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہت اور جو فقط قرآن
مجید، رسول اللہ ﷺ کی سنۃ (احادیث مبارکہ و اسوۃ الحسنہ پر مشتمل اور الوہی
ہدایت پرمبنی ہے اور جو صراط مستقیم ہے اس میں فرقوں کی کوئی گنجائش ہے نہ
ہی مذہبی منافرت کی، مسلمانوں کت درمیان کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق کی
کوئی اجازت ہے نہ ہی مذہبی دہشت گردی اور خود کش حملوں کی۔ اللہ ہم سب
مسلمانوں کو صراطِ مستقیم اور رسول اللہ ﷺ کے اسوۃ الحسنہ پر چلنے اور اپنے
دین و ایمان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ربّ تعالٰی کا پیغام، رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا فرمان، دین
کا نام فقط " الاسلام"، ایمان والے سب صرف "مسلمان" ایک نبی ﷺکی امّۃ ہیں
سب ، نورِ ہدایت بس اک قرآن ! فرقوں کا باقی نہ رہے نام و نشان، اخوّۃِ
اسلامی و امّۃِ واحدہ کاتاکہ ہوسکے کچھ امکان!
(جاری ہے۔۔۔)
|