اَب کیا واقعی امریکا کی باری ہے....؟ یقین نہیں آ رہا ہے

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو اور اِس کی قوتِ ارادی کمزور ہو تو وہ اتفاقات کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن جاتا ہے،(جیسے پاکستان امریکا کے ہاتھوں آج چابی سے چلنے والا کھلونا بن چکا ہے اور امریکا اِس میں اپنی مرضی کے مطابق چابی بھر کر نہ صرف خود اسے استعمال کر رہا ہے بلکہ اِس کے حواری بھی اِس میں چابی بھر کر لُطف اندوز ہورہے ہیں) اور حالات کے تھپیڑے اُسے کٹھ پتلی بنا کر نچانے لگتے ہیں (بلکل ایسے ہی جیسے آج امریکا پاکستان کو نچا رہا ہے) اور اِس کے ساتھ ساتھ ہوا کا ہر جھونکا بھی اُسے اِدھر اُدھر اڑائے لیے پھرتا ہے اور وہ یوں ہی زمانوں کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے مگر جب اِس میں اپنی قوت ِ ارادی کو مضبوط کرنے کا عزم بیدار ہو جاتا ہے اور وہ زمانے کے ہاتھوں اپنی بے قدری کا بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے تو اِس کی قوتِ ارادی بھی آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی جاتی ہے اور جب اِس کی قوتِ ارادی پوری طرح سے بیدار ہوکر مضبوط ہوجاتی ہے تو ہوا کا ہر جھونکا اور زمانے کے حالات بھی اِس سے پناہ مانگنے لگتا ہے ایک دفعہ کسی نے ڈیل کارنیگی سے ایک سوال پوچھا کہ سر! کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ زندگی کا زہر کیا ہے ....؟اور زندگی کا امرت کس چیز کا نام ہے.....؟تو اِس پر ڈیل کارنیگی نے یہ مختصر مگر بڑا جامع جواب دیتے ہوئے کہا کہ”زندگی کا زہر ڈر، مایوسی اور وہم ہے۔ اور زندگی کا امرت حوصلہ، قوت اور خود اعتمادی “یوں ڈیل کارنیگی کے اِس مختصر سے جواب نے بنی نوع انسان کو وہ درس دے دیا ہے کہ اِس پر عمل کر کے دنیا کے کروڑوں انسان اپنے بہت سے مسائل خود ہی حل کر کے رہتی دنیا تک امر ہوسکتے ہیں تو وہیں مجھے اور مجھ جیسے کروڑوں ایسے بھی پاکستانی ہوں گے جنہوں نے آج جب یہ خبر ملکی اخبارات میں پڑھی اور مختلف ٹی وی چینلز سے سنی ہوگی تو یقیناً اِنہیں بھی میری طرح زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت خوشی ضرور ہوئی ہوگی اور ساتھ ہی اِن میں یہ حوصلہ بھی پیدا ضرور ہوگیا ہوگا کہ ہم بھی اُب امریکیوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکتے ہیں اور اِس کے سامنے اپنا اُصولی مؤقف بلاخوف خطر کہہ سُن سکتے ہیں۔

خبر یہ ہے کہ ایوانِ صدر میں صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت 24مارچ سے شروع ہونے والے پاک امریکا اسٹریٹجک مذاکرات کے حوالے سے فوجی و سول قیادت کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت اور دیگر اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے بھی شرکت کی جس میں واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کے لئے مشاورت سے حکمت عملی تیار کی گئی اور اِس اپنی نوعیت کے اہم ترین اجلاس کی جو سب سے زیادہ خاص بات رہی وہ یہ تھی کہ اِس اجلاس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے خصوصی طور پر قومی مؤقف پر کسی لچک کا مظاہرہ کرنے اور نہ ہی کسی سمجھوتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اِس عزم و ہمت کا بھی اعادہ کیا کہ دہشتگردوں کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی اور امریکا سے مذاکرات کے دوران اِس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جائے گا کہ ملک کے بنیادی اور قومی نوعیت کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور اِس اجلاس میں اِس نقطے کو بھی حتمی شکل دی گئی کہ ملک میں دہشتگردی سے ہونے والے35ارب یا اِس سے بھی زائد ڈالر کے نقصان کے ازالے کے لیے بھی امریکا سے کہا جائے گا اور اِس کے علاوہ امریکا پر یہ بھی واضح کیا جائے گا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے والے اپنے دوست پاکستان سے امداد سے متعلق کئے گئے اپنے وعدے بھی پورے کرے اور امریکا پاکستان کو افغانستان کے زاویے سے نہ دیکھے اور جبکہ ہم (پاکستان) نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب کچھ لٹا کر داؤ پر لگا دیا ہے اور اَب امریکا کی باری ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرے جیسا ہم اَب تک کرچکے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی اِس موقع پر امریکا میں پاکستانیوں کی اسکریننگ کو امتیازی قرار دیتے ہوئے پاکستانیوں کے ساتھ امریکیوں کے اِس شرم ناک رویے پر سخت ترین تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اِس عمل سے فوری طور پر پاکستانیوں کو مستثنیٰ قرار دینے پر بھی زور دیا گیا اور اِس نقطہ کو 24مارچ سے پاک امریکا شروع ہونے والے مذاکرات میں خاصی اہمیت دیتے ہوئے ٹاپ ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے اِس موقع پر میرا خیال تو یہ ہے کہ ہماری حکومت نے پاک امریکا مذاکرات کے حوالے سے جو تیاری کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ پاکستان نے امریکی اشاروں پر اَب تک جو کچھ بھی کیا اَب حکومت پاکستان بھی بار بار امریکی ڈکٹیشنز سے اُکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار کر رہی ہے اور اِس اجلاس میں حکومت نے اپنے اِس رویے سے امریکا کو اشاروں ہی اشاروں میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا بہت نقصان کرچکا ہے اور اَب امریکا کی باری ہے۔ اور اِس کے ساتھ ہی پاکستان کھل کر امریکا کو یہ عندیہ بھی دے رہا ہے کہ اَب پاکستان ایسا ....؟ویسا....؟اور کیسا.....کچھ نہیں کرے گا۔ جو امریکا چاہے گا اور اگر اَب بھی امریکا نے پاکستان سے کئے گئے وعدے پورے نہ کئے تو اَب ہم سے کوئی توقع نہ رکھے کہ ہم امریکا کے لئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے بلکہ اَب تو امریکا کی باری ہے کہ وہ ہمارے لئے کچھ کرے کیوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جتنا نقصان کرچکا ہے شائد اِس جنگ میں امریکا کا ایک فیصد بھی نقصان نہ ہوا ہو۔

اگرچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں یہ امر قابل تحسین ضرور ہے کہ پاکستان نے امریکا پر یہ بات پوری طرح سے عیاں کردی ہے کہ پاکستان امریکی رویوں سے بہت مایوس ہوچکا ہے اور ہر بار امریکی حکم ماننے کے بعد بھی امریکیوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ روا رکھے گئے روکھے پھیکے رویے نے اَب نہ صرف عوام میں امریکیوں کے لئے نفرت کا لاوا مزید پک رہا ہے بلکہ اَب تو حکمران بھی امریکی رویے سے بیزار آچکے ہیں اور اَب شائد پاکستانی حکمران بھی امریکی چنگل سے نکلنے کے لئے پر تول رہے ہیں اور آج پوری پاکستانی قوم کو یہ احساس بھی ہوگیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں امریکا سے بات کرنے کی قوتِ ارادی پیدا ہوگئی جو اَب تک اِس سے محروم تھے تو امریکا اِنہیں اپنے لئے استعمال کرتا رہا اور زمانے کے ہاتھوں اِنہیں کھلونا بناکر اِن کی بقدری نہ صرف خود کرتا رہا بلکہ سب سے کرواتا بھی رہا اور اَب یہ بہت اچھا ہوا کہ ہمارے حکمرانوں میں قوتِ ارادی پیدا ہوگئی ہے جس کے بدولت اَب یہ امریکا کو بھی ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی قوم کو یہ اُمید بھی رکھنی چاہئے کہ پاک امریکا مذاکرات میں امریکا کو ہماری ضروتوں کا خیال رکھتے ہوئے ہمارے مطالبات ماننے پڑیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889884 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.