صاحبو! ایک زمانہ تھا کہ خیبر پختون خواہ خصوصاْ ہزارہ
میں مسلم لیگ کا طوطی بولتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن صرف
ہزارہ تک سکڑ کر رہ گئی جہاں روائتی سیاست دانوں پر انحصار اس کا وطیرہ رہا
جو اپنا حلقہ انتخاب رکھتے ہیں اس لئے جب چاہا اڑ کر کسی اور درخت پر جا
بیٹھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن عوام میں جڑ یں مضبوط کرنے میں ناکام رہی
اور شخصیات قدآور ہوتی گئیں ضلع ہری پور میں ایک عرصہ تک راجگان فیملی اور
ترین خاندان کا اثرو رسوخ قائم رہا سو سیاسی پارٹیاں ان ہی کے گرد گومتی
رہیں جن کی سربرائی بلتر تیب راجہ سکندر زمان اور گوہر ایوب خان کے پاس رہی
لیکن 1993 کے عام انتخابات میں سردار مشتاق نے مسلسل محنت اور گجر برادری
کے اتحاد سے اپ سیٹ کرتے ہوئے پہلی بار راجہ سکندر زمان کے فرزند راجہ عامر
زمان کو شکست دے کر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے تھے اور مسلم لیگ ن
میں شمولیت اختیار کر لی 1997 میں بھی اپنی حثیت برقرار رکھی اسی طرح 2002
کے عام انتخابات میں ایک اور اپ سیٹ ہوا جب سکندرپور کی قاضی فیملی کے قاضی
محمد اسد نے ترین فیملی کے یوسف ایوب خان کوہرا کر صوبائی اسمبلی کی رکنیت
حاصل کر لی جب کہ انھوں نے بھی 2008 کے الیکشن میں اپنی حثیت برقرار رکھی
اور جیت کے بعداے این پی میں شامل ہو گئے تھے تاہم 2013 میں وہ مسلم لیگ ن
کے امیدوار تھے لیکن یو سف ایوب خان سے ہار گئے جو تحریک انصاف کے امید وار
تھے جس نے پہلی بار صوبہ خیبر پختون خواہ میں اکثریتی پارٹی ہونے کی وجہ سے
جماعت اسلامی اور عوامی اتحاد کے تعاون سے حکومت بنائی لیکن یوسف ایوب خان
عدالتی فیصلے کے تحت جعلی ڈگری کے حوالے سے نا اہل قرار پائے تو ان کے
بھائی اکبر ایوب خان تحریک انصا ف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے جن کے مقابلے
میں مسلم لیگ ن کے قاضی اسد ایک بار پھر میدان میں تھے جبکہ تیسرے امید وار
کے طور پر با بر نوازفرزند اختر نواز خان مرحوم بھی پہلی بار اپنے آبائی
حلقہ کے بجائے پی کے پچاس سے مقابلے میں تھے یہ ضمنی الیکشن اکبر ایوب خان
جیت گئے اور بابر نواز خان نے دوسرے نمبر پر آکر سیاسی مبصرین کو ورطہ حیرت
میں ڈال دیا جبکہ قاضی اسد تیسرے نمبر پر رہے بابر نواز کی اس پزیرائی کے
بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کے لئے میدان میں آسکتے ہیں
کیونکہ کہ ان کے والد اختر نواز خان مرحوم کی آبائی سیٹ پی کے 51پر ان کے
چچا گو ہر نواز رکن صوبائی اسمبلی چلے آرہے ہیں سو حالیہ قومی اسمبلی کے
ضمنی الیکشن نے انھیں یہ موقع فراہم کر دیا جس میں وہ پوری تیاری کے ساتھ
مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اترے اورہری پور میں این اے 19کے ضمنی الیکشن میں
مسلم لیگ ن نے میدان مار لیا پی ٹی آئی کو ریحام خان اور عمران خان کے
سیاسی جلسے بھی نہ بچا سکے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حتمی نتائج کے مطابق
مسلم لیگ ن کے امید واربابر نواز نے ایک لاکھ37 ہزار 219جبکہ ان کے مد
مقابل تحریک انصا ف کے راجہ عامر زمان نے 90 ہزار 698ووٹ حاصل کئے اس طرح
بابر نواز کو راجہ عامر پر 46521 ووٹوں کی برتری حاصل ہے یہ حلقہ 577480
رجسٹرڈووٹرز پر مشتمل ہے جس میں 513 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے اور کل
نو امید واروں نے حصہ لیا جب کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اس الیکشن
میں 30 پولینگ اسٹیشنوں پر بائیو میٹرک سسٹم آزمایا گیا جس میں 36 ہزار
ووٹروں نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 41 فیصد رہا دیگر امیدواروں
میں کوئی بھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہ کر سکا -
واضح ہو کہ 2013کے عام انتخابات میں اس سیٹ سے تحریک انصاف کے راجہ عامر
زمان نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن ہارنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار عمر
ایوب کی درخواست پر الیکشن ٹربیونل نے سات پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ
کرانے کا حکم دیا تو عمر ایوب خان ان پولنگ پرجیت گئے لیکن راجہ عامر زمان
نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پورے
حلقہ میں سولہ اگست کو دوبارہ الیکشن کرادیا ،عمر ایوب والدہ کی بیماری کے
بحث الیکشن سے دستبردار ہوگئے تو مسلم لیگ ن نے وقت کی نذاکت اور موقع کا
بہتر استعمال کرتے ہوئے آزاد امید وار بابر نواز کو اپنا امید وار بنا لیا
جو علاقہ میں اپنے والد مرحوم اخترنواز خان سابق صوبائی وزیر کے پی کے کی
سیاسی ساکھ کا ایڈوانٹج پہلے ہی رکھتے تھے مرحوم اختر نواز نے اپنے سیاسی
کیریئر کا آغاز لوکل سیاست سے کیا تھا اور انتہائی کم عمری میں ٹاؤن کمیٹی
کھلابٹ کے چہرمین منتخب ہوئے تھے ان ہی دنوں راقم کی ان سے پہلی ملاقات
ہوئی تھی ان کی عوامی خدمت کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے میری ان سے دوستی ہو گئی
میں نے اس وقت ایک مقامی اخبار میں’’ اتھرا چہرمین ‘‘ کے عنوان سے اپنے ایک
کالم میں پیشن گوئی کی تھی کہ اختر نوازخان مستقبل میں ہری پور کی سیاست
میں اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں سو 1993 کے عام انتخابات میں وہ
پیر صابر شاہ کے مقابلہ میں صوبائی امیدوار کے طور پر متاثرین تربیلہ ڈیم
کے نمائندہ بن کر سامنے آئے تو مجھے اپنی پیشن گوئی سچ ہوتی دکھائی دی لیکن
شومئی قسمت اختر نواز خان صرف دو ہزار ووٹوں کی کمی سے اپنی منزل نہ پاسکے
ایک نو وارد ہونے کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ متاثرین تربیلہ کی بستیوں
کھلابٹ ٹاؤں شپ ،کانگڑا کالونی اور غازی ہملٹ کے عوام کی بھر پور حمایت سے
اختر نواز اس حلقہ سے قبل ازیں تین بار ایم پی اے منتخب ہونے والے مسلم لیگ
ن کے امیدوار پیر صابر شاہ کو چاروں شانے چت کر دیں گے جس کا اظہار میں نے
اس وقت ایک قومی اخبار میں لکھے گئے کالموں میں کرنا شروع کیا تو پیر صاحب
جن سے میرے اچھے تعلقات تھے ناراض ہو گئے ان کے بھتیجے حامد شاہ نے مجھے
ایک مقامی ہوٹل میں میرے ایک دوست مرحوم آفتاب احمد جو ٹیلیفون ایکسچینج
میں کام کرتے تھے کے ذریعے پریس کانفرنس کے بہانے بلوایا جب میں ہوٹل پہنچا
تو ایک مقامی صحافی مرحوم فصیح الدین فصیح کے ہمراہ حامد شاہ بھی آگئے پہلے
تو میرے کالموں پر پیر صاحب کی ناراضگی کا اظہار کیا اورکہا کہ وہ خود
حویلیاں کے ایک انتخابی جلسہ میں ہیں کچھ دیر میں آ جائیں گے پھرپیر صابر
شاہ کے حق میں تجزیے لکھوانے کے لئے سودا بازی کرنے کی کوشش کرنے لگے اس
سارے منظر کو اسی ہوٹل میں موجود قاری مطیع الرحمان قاسمی اور قاری محمد
بشیر مرحوم پردے کے پیچھے بیٹھے دیکھ رہے تھے لیکن میں نے قلم بیچنے سے
انکار کر دیا اور ناراض ہو کر محفل سے اٹھ آیا صبح اختر نواز خان کا فون
آیا گزشتہ رات کے اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سچائی پر ڈٹے رہنے پرمیرے
کردار کو سراہا میں نے کہا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں دوستی اپنی جگہ
لیکن یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ متاثرین اتحاد کی وجہ سے آپ کی پوزیشن مضبوط
ہے دوسری صورت میں میرا قلم آپ کے خلاف بھی اٹھ سکتا ہے عین الیکشن کے دن
چھپنے والے میرے ایک کالم کی سینکڑوں فوٹو کاپیاں اختر نواز خان نے حلقہ کے
تمام پولنگ اسٹیشنوں پر تقسیم کیں لیکن پیر صابر شاہ پرانے کھلاڑی تھے سو
دوہزار ووٹ سے جیت گئے اور وزیر اعلیٰ کے پی کے بن گئے ہری پور پہلے دورے
پر تشریف لائے تو میں ان سے دور دور رہا لیکن سیٹھ نسیم مرحوم کے گھر کھانے
کی میز پر ربنواز خان سابق ڈی ای او ایجو کیشن مجھے زبردستی پکڑ کر وزیر
اعلیٰ کے پاس لے گئے ملاقات میں پیر صاحب نے دھیمے لہجے میں شکوہ کرتے ہوئے
کہا میں دس ہزار کی لیڈ سے جیت رہا تھا لیکن آپ کے کالم میرے آٹھ ہزار ووٹ
ہڑپ کر گئے جس کے جواب میں ہنستے ہوئے میں نے کہا سر مجھے فخر ہے کہ میرے
کالموں کی سچائی میں اتنی طاقت تھی کہ آپکے آٹھ ہزار ووٹ کھا گئے لیکن مجھے
آج یہ بھی فخر ہے کہ آپ ہزارہ کے دوسرے وزیراعلیٰ بن گئے ہیں -
صاحبو ! بات ہورہی تھی ا ختر نواز خان کے عوامی خدمت اور سیاسی سفر کی تو
1997 میں بھی پیر صابر شاہ کے مقابلہ میں آئے لیکن کامیاب نہ ہوسکے جنرل
پرویز مشر ف نے بلدیاتی نظام کا ڈول ڈالا تو اختر نواز خان اس کاحصہ بن گئے
لیکن کم ہی عرصہ میں الیکشن 2002 کا اعلان ہو گیا تو اختر نواز خان نے ممبر
ضلع کونسل کی سیٹ چھوڑ کر ایک بار پھر صوبائی اسمبلی کے لئے قسمت آزمائی کا
فیصلہ کر لیا نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے اب کی بار ان کا مقا بلہ مسلم لیگ
ن کے سردار مشتاق سے تھا جو پہلے بھی راجہ عامر زمان کو ہرا کر رکن اسمبلی
کے طور پر سیاسی ساکھ بناچکے تھے لیکن یہاں اختر نواز خان کی قسمت نے یاوری
کی اور وہ نہ صر ف سردار مشتاق کو ہرا کر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے
بلکہ حکومتی جماعت جمیعت علماء اسلام میں شامل ہو کر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ
بن گئے اوردل کھول کر عوام کی خدمت کی اقتدار کے ان پانچ سالوں میں خوب
شہرت پائی اور ضلع ہری پور کی ایک موئثر سیاسی قوت کے طور پر ابھرے تواﷲ
تعالیٰ نے میری دس سال قبل کی گئی پیشن گوئی سچ ثابت کرد کھائی اختر نواز
خان سے دوستی اور بھائی بندی کا رشتہ اور مضبوط ہو گیا مرحوم اکثر سیاسی
محفلوں میں بڑے فخر سے کہتے تھے میں یو نس بھائی کی سیاسی پیشن گوئی کا
نتیجہ ہوں شائد یہی وجہ ہے کہ مرحوم بہت عزت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے
تھے اپنی سیاسی ساکھ کے باعث اختر نواز خان ایک بار پھر 2008 کے الیکشن میں
بھاری اکثریت سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے لیکن زندگی نے زیادہ دیر
وفا نہ کی اور وہ کھلابٹ ہی میں ایک جنازہ میں شرکت کے دوران دس اکتوبر کو
شہید کر د ئیے گئے درینہ دشمنی کے اس سانحہ نے عوامی خدمت سے سرشار دلیر
لیڈر ضلع ہری پور کی عوام سے چھین لیا ان کی وفات کے بعدان کے بھائی گوہر
نوازپہلی بار ضمنی الیکشن میں اترے اختر نوازخان کی عوامی خدمت کے صلہ میں
بھاری اکثریت سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو شکست فاش دینے کے بعد رکن صوبائی
اسمبلی پی کے 51منتخب ہو گئے نہ صر ف اپنے بھائی مرحوم اختر نواز کے مشن کو
جاری رکھا بلکہ عوامی سیاست کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے عوام سے رابطوں کے
ساتھ ساتھ نمایاں ترقیاتی کام بھی کروائے اور 2013 کے الیکشن میں دوبارہ
بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکرآفتاب شیرپاؤ کی جمہوری وطن پارٹی میں شامل ہو
گئے سو گوہر نوازکی اس سیاسی ساکھ نے بھی ان کے بھتیجے بابر نواز کی اس
کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اس لئے سیاسی مبصرین اس کامیابی کو صرف مسلم
لیگ ن کی کامیابی قرار دینا قرین انصاف نہیں سمجھتے وہ آزاد حثیت سے بھی
الیکشن لڑتے تو ان کے کامیابی کے امکانات موجودتھے قبل ازیں مسلم لیگ ن
قومی اسمبلی سمیت تین صوبائی اسمبلیوں سے 2013 کے جنرل الیکشن میں تحریک
انصاف سے شکست کھا چکی ہے ماسوائے ایک سیٹ پی ایف 49 کے جہاں سے راجہ فیصل
زمان جیتے تھے جو راجہ سکندر زمان مرحوم کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے
امیدوار ڈاکٹر راجہ عامر زمان کے بھائی ہیں اور2002 میں آزاد حثیت سے جیت
کر جمعیت علماء اسلام میں شامل ہو گئے تھے جبکہ 2008 میں بھی راجہ فیصل
زمان اسی آبائی حلقہ سے جیتے تھے ا س لئے ان کی جیت میں بھی مسلم لیگ ن کا
کوئی لینا دینا نہیں تھا اب کی بار بھی مسلم لیگ ن اگر روائتی سیاست دانوں
میں سے کسی کو ٹکٹ دیتی تو اس کی جیت مشکل تھی یہی وجہ ہے پرانے سیاست
دانوں میں کسی نے بھی حامی نہیں بھری اور بابر نواز کو ہی امیدواربنانے میں
عافیت سمجھی، رہی بات حالیہ الیکشن میں تحریک انصا ف کے ہارنے کی تو تحریک
انصاف نہیں ہاری بلکہ راجہ عامر زمان ناکام ہوئے ہیں اپنی سستی اور عوام سے
عدم رابطوں کی وجہ سے کیونکہ ان کے والد کے دھڑے جنبے کے لوگ جو ہمیشہ ان
کا ووٹ بینک رہے ہیں اب کی بار نالاں تھے جبکہ تحریک انصاف نے بلدیاتی
الیکشن میں ضلع و تحصیل دونوں حثیتوں میں کلین سویپ کیاجس کا سہرا یوسف
ایوب خان کے سر جاتا ہے اور مسلم لیگ ن کا کوئی قابل ذکر امیدوار کامیاب نہ
ہو سکا جبکہ گوہر نواز خان کے حمایت یافتہ امید وار بھی ہار گئے تحریک
انصاف ہی کی بدولت راجہ عامر زمان حالیہ الیکشن میں مقابلہ کی پوزیشن میں
رہے اور مجموعی طور پر نوے ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے
ورنہ دوسری صورت میں معاملہ اور بھی سنگین ہوتاکیونکہ وہ اپنے آبائی حلقے
پی کے 49 سے بھی وہ ووٹ حاصل نہ کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی وہاں بھی
راجہ عامر زمان ہل اسٹیشنوں نجف پور، ہلی، جبری اور دیگر یونین کونسلوں سے
ہار گئے جہاں سردار مشتاق کا طوطی بولتا ہے جو 2013 میں الیکشن سے قبل بوجہ
مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی پی میں شامل ہو گئے تھے لیکن واپس مسلم لیگ ن میں
شامل ہو چکے ہیں جس کا بھرپور فائدہ بابر نواز کو پہنچا راجہ عامرزمان صرف
پنج کٹھہ اور خانپور کے علاقوں سے کامیابی حاصل کر سکے جبکہ پی کے 52سے
تحریک انصاف کے فیصل زمان جہازوں والے اپنے امیدوار راجہ عامر زمان کو
اکثریت دلانے کی بھر پور کوشش میں رہے اور پیر صابر شاہ کو ٹف ٹائم دیا
جبکہ پی کے 50,51 میں بھی راجہ عامر زمان کو سخت حا لات کا سامنا رہا تاہم
بابر نواز مسلم لیگ ن پلس والد اختر نواز مرحوم کی سیاسی ساکھ کے نتیجہ میں
ایک لاکھ 37ہزار سے زیادہ ووٹ لے کر بھاری حثیت سے کامیاب ہوگئے ہیں اب یہ
بابر نواز خان کا امتحان ہے کہ وہ خود کو اپنے والد کاسیاسی جانشین ثابت
کرکے عوامی خدمت کو بلاتفریق شعار بناتے ہیں یا پھر روائتی سیاست کا شکار
ہو جاتے ہیں نوخیز ہونے کی وجہ سے ابھی ان کا من میلا نہیں ہوا خدا کرے وہ
اس اجلے پن کو سنبھال رکھیں بعض مبصرین کا خیال ہے یو سف ایوب خان اور قاضی
اسدکے لئے اس ضمنی الیکشن نے مشکلات بڑھا دی ہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ
بابر نواز اگلے الیکشن میں پی کے پچاس سے اپنے بھائی یا کزن سمیع اﷲ خان کو
میدان میں اتار سکتے ہیں ؟جو حال ہی میں ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ |