مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیرکی۱۷۰۷ء میں وفات کے
بعد ہی ایسٹ انڈیاکمپنی اس ملک کے در و بست پر قابض ہوگئی تھی۔ملک بادشاہ
سلامت کا تھا، مگرہر طرف کمپنی بہادر کا ہی حکم چلتا تھا۔یوں تووطن عزیز
ہندستان کے تخت و تاج پر برطانوی سامراج کے غلبہ و تسلط سے بلا تفریق سارے
ہندستانی سخت نالاں تھے، مگر مسلم قوم اور علمائے دین خاص طور پر شعلہ
بداماں رہا کرتے تھے، انھیں انگریزی راج اور انگریزدونوں سے خدا واسطے کا
بیر تھا،انگریزوں سے دشمنی اور جذبۂ نفرت ان کے دروں میں ہمیشہ سلگتا رہتا
تھااور وہ ان سے دو بدو جنگ کے لیے پیچ و تاب کھاتے رہتے تھے۔انگریزوں سے
ان کی اس درجہ عداوت و مخاصمت اور دشمنی فطری تھی،کیوں کہ تن کے گورے اور
من کے کالے انگریزوں نے اپنی عیاری اور مکاری سے وطن انھی کے آباء و
اجدادمسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں سے چھینا تھا۔دوسرے مذاہب کے لوگ جنگ آزادی
کو صرف ایک قومی اور وطنی فریضہ جانتے تھے، مگر مسلمان،علماء و صلحاء اور
بزرگان دین برطانوی سامراج کے خلاف جدو جہد آزادی کو ایک مشترک قومی
اوروطنی فریضہ ہی نہیں، بلکہ دلائل و شواہد کی بنیاد پر اس کو ایک عظیم
مذہبی فریضہ بھی باور کرتے تھے۔
۱۷۵۷ء میں نواب سراج الدولہ کی جنگ ہو یا ۱۸۵۷ء کی عظیم اور ہمہ گیر جنگ
آزادی(جسے کمال چالاکی سے غدر کا عنوان دے دیا گیا ہے) ہر محاذ پر مسلمان
اور علماء ہی جنگ آزادی کے قافلہ سالار تھے۔ اس کفن بردوش قافلے میں بہت سے
اہل وطن بھی شامل تھے، ہندو بھی تھے اور سکھ بھی، مگر ہراول دستہ یہی
مسلمان اور علمائے دین تھے ، وہ ہر حالت میں اور ہر قیمت پر وطن عزیز کو
انگریزوں کے ناپاک سایے سے پاک کرنا چاہتے تھے، کیوں کہ ہندستان کی جاہ و
حشمت اور دولت و ثروت ہر چیز انگریزوں نے بہ تدبیر چھین لی تھی۔ساتھ ہی
ہندستانی علماء اورمسلم مجاہدین آزادی کو اس کا بھی شدید احساس تھا کہ اگر
انگریزوں کو ملک بدر نہیں کیا گیا تواس کے ہندستانی معاشرے اور سماج پر
خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ نہ صرف یہ کہ موجودہ نسل اپنی متاع دین وایمان
سے محروم ہوکر عیسائیت کے چنگل میں گرفتار ہوجائے گی، بلکہ آئندہ نسلیں بھی
عیسائیت کے ہم رنگ زمیں دام میں پھنس کر سرمایۂ دین سے محروم ہوجائیں گی
اور ہندستان میں، جو ہمارے بابا آدم کا وطن اولیں ہے،اور جس کی چمن بندی
ہمارے اسلاف نے اپنے خون جگر سے کی ہے، اسلام اور خدا کے نام لیواؤوں کا
وجود عنقا ہوجائے گا۔ آخرش ان کی دو سو سالہ مشترکہ طویل جدو جہد کام لائی
اور ملک کے افق پر ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء میں آزادی کا سورج طلوع ہوا،مگر وہ خون
آلود اورتقسیم کے زخموں سے چور تھا، لیلائے آزادی ہمارے قیمتی لہو سے
شرابورتھی،ملک آزدا نہیں ہوا تھا، بلکہ تخت و تاج کا خواب اپنی آنکھوں میں
سجانے والے فرقہ پرست افراد نے ملک کو دو لخت کردیا تھا، اس تقسیم کی وجہ
سے ملک کے طول و عرض میں فرقہ واریت کے شعلے فضا میں بلند ہو رہے تھے،
دونوں فرقوں کے جنونی آگ اور خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف تھے، ہندو جنونی
کچھ زیادہ ہی فرقہ پرستی کا رقص کر رہے تھے کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے
والوں سے اس ملک کو پاک کردینا چاہتے تھے۔
ملک میں آزادی کی صبح اس وقت نمودار ہوئی ، جب ہمارے مجاہدین آزادی نے وطن
کی قربان گاہ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اپنے عزیزوں، رشتے داروں کی
جان گنوائی، مال و دولت اور مکان و جائیداد سے ہاتھ دھویا، مگر آزادی کے
بعد ملک کی تعمیر و ترقی کا جو نقشہ ترتیب دیا گیا، اس سے منظم سازش کے تحت
ایک فرقہ کے لوگوں کو یکسر دور رکھا گیا، انھیں مین اسٹریم میں کیا جگہ
ملتی، انھیں پچھلی صف میں بھی رہنے کی جگہ نہیں دی گئی۔ بقول شاعر
کوئی جن سے رسم نہ راہ تھی، جنھیں ذوق تھا نہ نگاہ تھی
انھیں انجمن میں بلا لیا ، ہمیں انجمن سے اٹھا دیا
اور یہ کہ
طرفہ تماشہ یہ کہ تقسیم وطن کا سارا الزام انھی لوگوں اور انھی مسلم
مجاہدین آزادی کے سر ڈال دیا گیا، جنھوں نے ہمیشہ دو قومی نظریہ کی مخالفت
کی تھی اور ہمیشہ قومیت و وطنیت اور ملکی اتحادو سالمیت کا ترانہ اپنے
ہونٹوں پر سجایا تھا۔ ملک کی مابعد آزادی جو تاریخ مرتب کی گئی، اس میں ان
علماء اور صلحاء کو یکسر نظر انداز کردیا گیا، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف
جہاد کا فتوی دیا تھا اور برادران وطن کو انگریز سامراج کے خلاف جنگ کا بگل
بجانے کا جوش اور ولولہ عطا کیا تھا۔ ان علماء کے ہاتھوں میں محرومی کا
کاسہ ڈال دیا گیا جنھوں نے لال قلعے سے لے کر چاندنی چوک تک ہر درخت پر
اپنی لٹکتی ہوئی بے گور و کفن لاشوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ ان علماء کو
ہندستان کی آزادی کی تاریخ و تحریک میں کوئی جگہ نہیں دی گئی، جنھوں نے
ہنستے ہوئے تختۂ دار کو چوما تھا۔ہمارے تعصب پسند مؤرخین نے ان علماء کو
بھی نہیں بخشا ، جنھوں نے مالٹا کے سرد ترین قید خانے میں سخت اذیت بھری
زندگی گزاری تھی۔ حد تو یہ ہے کہ اس نقشہ میں انھیں بھی جگہ نہیں ملی جنھوں
نے جزیرۂ انڈمان میں مشہور زمانہ کالاپانی کی سزا پائی تھی۔ مولوی تبارک
علی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحیی علی، مولوی امیر الدین، مولانا
ریاض الحق، مولوی علاؤ الدین وغیرہ وہ قدسی نفوس ہیں، جنھیں جزیرۂ انڈمان
میں کالا پانی کی سزا کے درد انگیز مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔جب کہ حقیقت یہ
ہے کہ ۱۸۵۷ء کے بعدملک میں انگریزوں کے خلاف جنگ کی جو فضا بنائی گئی
تھی،اس میں پیش پیش علمائے کرام ہی تھے اور اس کا سارا ٹھیکر انگریزوں نے
علماء کے سر ہی پھوڑا تھا، وہ ان باریش اور جبہ وقبہ والے عمامہ بردار
علماء اور بزرگان دین کو اپنی بقا کے لیے موت کا سامان تصور کرتے تھے اور
ان کے سایے سے بھی سخت نفرت کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق دہلی کے چاندنی
چوک پر جن ۵۰؍ ہزار مسلمانوں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا، ان میں صرف علماء
کی تعداد ۵۰۰ تھی۔اور ایک اندازے کے مطابق ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے دوران
انگریزوں نے ۲۷؍ہزار علماء کو پھانسی پر لٹکایا تھا۔
ہماری خاک سے جنم لینے والے جن علماء نے جنگ آزادی میں قولا وعملا شرکت کی،
ان کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کے ناموں اور کارناموں سے تاریخ کی کتابیں
پر ہیں، ان کے کارنامے جہاد حریت و آزادی کا روشن باب ہیں۔مگر ان میں بھی
چند مجاہدین علماء کا نام نہ لینا، ان کی روح کو اذیت دینے کے مترادف ہوگا۔
سید احمد شہید، مولانا اسماعیل شہید، حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی، مولانا محمد
قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا احمد اﷲ مدراسی، مولانا
عنایت علی صادق پوری، مولانا ولایت علی صادق پوری، مولانا محمد جعفر
تھانیسری، مولانا ابو المحاسن سجاد بہاری، شیخ الہند مولانا محمود حسن
دیوبندی، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عبید اﷲ سندھی، مولانا
عطاء اﷲ شاہ بخاری، مفتی کفایت اﷲ دہلوی، مولانا عبد الوہاب آروی،مولانا
ابو الکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہ
ایسے نمایاں نام ہیں، جن کے تذکرے کے بغیرہندستان کی جہاد و حریت کی مختصر
ترین تاریخ بھی ناقابل اعتبار ٹھہرے گی۔
آج ہماری نصابی کتابیں ان مجاہدین آزادی کی بے لوث اور تاریخ ساز قربانیوں
کے تذکرے سے خالی ہیں، ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھنے والا
حکمراں طبقہ یہاں کی پوری تاریخ کو بھگوا رنگ میں رنگنے کا منصوبہ ترتیب دے
رہا ہے، اسکول کی نصابی کتابیں ان لوگوں کے ہاتھوں لکھوانے پر آمادہ ہے،
جنھیں اس ملک کی مشترکہ تہذیبی روایات اور یہاں کی بقائے باہم پر مبنی
تاریخ کا علم نہیں،وہ کثرت میں وحدت سے عبارت ہماری گنگا جمنی تہذیبی نقوش
سے نابلد ہیں۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسی دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والے
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی کون تھے، جواس ملک پر انگریزوں کے قبضہ و اقتدار سے
سخت نالاں رہاکرتے تھے۔ انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے فرزندوں نے یہاں
کی سرزمین کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں اپنے جسم و جاں کو کتنی
اذیتوں کے پل صراط سے گزارا ہے۔ان کے لڑکے شاہ عبد العزیز دہلوی وہ پہلے
عالم دین ہیں، جنھوں نے علی الاعلان انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا
تھا۔ ان کے داماد نے بھی مجاہدین آزادی کی رگوں میں جوش و جذبہ کے خون تازہ
کی ترسیل کی تھی، جب انھوں نے ان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے یہ کہا
تھا:’’دہلی سے کلکتہ تک انگریز کے خلاف جنگ کرنا خدائی فیصلہ ہے۔‘‘جنگ
آزادی کی تاریخ لکھنے والے تو یہ بھی بھول گئے کہ حافظ ضامن شہید کون تھے،
جن کے سینے کو انگریز فوجی کی گولی نے چھلنی کردیا تھا، ہماری بھگوا تاریخ
لکھنے والوں کو شاملی کا وہ میدان بھی نظر نہیں آیا، جہاں بانی دار العلوم
دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریز افواج سے رو بہ رو جنگ کی تھی
اور اپنے جسموں پرتیر و تفنگ کے زخم کھائے تھے۔ ہماری آزادی کی تاریخ میں
سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کا بھی ذکر نہیں جنھوں نے ۱۸۵۷ء سے بہت
پہلے انگریزوں کی سازشوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا اور دہلی کی
اکبرابادی مسجد میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کا منصوبہ تیار کیا تھا، مگر
یہ تحریک بالاکوٹ میں ان کی شہادت پر دم توڑ گئی تھی۔
جنگ آزادی کے دوران انگریزوں کی تعذیب و تذلیل اور حرص و ہوس سے مجبور ہوکر
بہت سے لوگوں نے اپنا قبلہ تک تبدیل کرلیا تھا۔ وہ طوق و سلاسل کے سلسلوں
اور تختۂ دار کی کرب ناکیوں سے گزرنے کا دم خم نہیں رکھتے تھے، مگر یہ وہی
بوریہ نشیں علماء اور سرخاک لوٹنے والے صلحاء اور بزرگان دین تھے، جنھوں نے
انگریزوں کی داد و دہش تو کیا، ان کی تعذیب و تذلیل، ان کی دار و گیر اور
ان کی سخت ترین اذیتوں کے سامنے بھی سپر نہیں ڈالا۔ انھوں نے تکلیف اور
مصیبت کے ہر سمندر کو بخوشی عبور کرلیا کہ جنگ آزادی اور وطن عزیز کی آزادی
کا نشہ اس طرح ان کے دماغ میں سمایا ہوا تھا کہ وہ ہر مصیبت اور ہر اذیت کے
گھونٹ کو حلق سے نیچے اتار لیتے تھے۔ مولانا یحیی، مولانا جعفر تھانیسری
اور مولانا محمد شفیع لاہوری کو یہ درد انگیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی
خبر سنائی گئی کہ کل تمھیں پھانسی دے دی جائے گی اور تمھاری ساری جائیداد
بھی بحق سرکار صبط کرلی جائے گی اور تمھارے وارثین کو تمھاری لادوں سے
محروم کردیا جائے گا، مگر انگریز عدالت کی اس سزا کے سامنے ان کے پائے
استقامت میں ذرا لغزش نہ آئی، انگریز جج سوچ رہا تھا کہ یہ خبر ان پر بجلی
بن کر گرے گی،وہ انگریزی سرکار کے خلاف اپنے جذبۂ جہاد سے توبہ کرلیں گے،
مگر وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس خبر نے ان کے جدبۂ جہاد و حریت کو مزید
دو آتشہ کردیا ہے ،یہ خبر سن کر تبسم ان کے لبوں پر کھیلنے لگی اور انھوں
نے برجستہ یہ کہا کہ تمھیں شہادت کی لذت کی کیا خبر، تم مجھے سولی پر
چڑھادوگے، اور ہم اس دنیا سے ضرور سدھار جائیں گے، مگریاد رکھو! حوریں ہماے
استقبال میں فرش راہ رہیں گی۔
ہماری زعفرانی تاریخ میں شیخ الہند اور شیخ الاسلام کا نام بھی نہیں ملتا۔
حالاں کہ یہ وہی شیخ الہند تھے جنھوں نے عالمی پیمانے پر انگریزوں کے خلاف
یلغار کا تانا بانا تیار کیا تھا۔اور انگریزوں کو مشرق و مغرب ہر جگہ سے
کھدیڑنے کے لیے عالمی تحریک، ریشمی رومال تحریک کا آغاز کیا تھا۔ یہ وہی
شیخ الہند تھے انگریز دشمنی میں جن کی بوٹی بوٹی پھڑکتی تھی۔کئی بار انگریز
افسران نے ان کے جسم و جاں پر سخت قسم کی قیامتیں گزاریں، آگ کے دہکتے
انگاروں پر لٹا کر ان کے ایمان و یقین کا امتحان لیا، رفقاء نے بھی کئی بار
اصرار کیا کہ حیلے حوالے سے کام لے کر انگریزوں کی ایدا رسانی کے سلسلے کو
کم کیا جائے، مگر یہ نحیف و نزار کمزور اور لاچاراﷲ کا بندہ انگریزوں کا
اتنا شدید مخالف اور حب وطن کا ایسا شیدائی تھا کہ ہزار جتن کے باوجود
انگریزوں کے لیے کسی نرمی کا اظہار کرنا گوارہ نہ کرتا تھا۔ رفیق مالٹا شیخ
الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نے اس اذیت ناک اور درد انگیز واقعہ کا
تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انگریزوں نے ان کے جسم ناتواں کو تختۂ مشق بنا
رکھا تھا۔ زخموں سے بدن چور ہے اور جیل کے فرنگی حکام کا بس ایک ہی مطالبہ
ہے کہ محمود! صرف اتنا کہہ دو میں فرنگیوں کا مخالف نہیں ہوں، ہم تم کو
چھوڑ دیں گے۔ حضرت فرماتے، نہیں نہیں!! میں یہ الفاظ ہر گز نہیں کہہ سکتا،
میں اﷲ کے دفتر سے نام کٹوا کر تمھارے دفتر میں نام لکھوانا نہیں چاہتا۔‘‘
تاریخ تو یہ بھی فراموش کربیٹھی کہ تحریک خلافت کیا تھی اور اس سے وابستہ
مجاہدین نے اس ملک کی آزادی میں کتنا خون جگر صرف کیاہے۔ تاریخ کو تو بی
اماں کے دو بیٹوں مولانا محمد شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کا بھی
نام شاید یاد نہیں۔ یہ وہی مولانا محمد علی جوہر ہیں، جنھوں نے گول میز
کانفرنس میں شرکت کے بعد برطانیہ کے پایۂ تخت میں لندن میں جاکر انگریزوں
سے یہ کہا تھا ،میں غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا، یا تو تم ہمیں آزادی
کا پروانہ دو ، یا پھر مجھے دفن کرنے کے لیے تمھیں دو گز زمین دینی پڑے گی۔
ہم آج بھی ۱۵؍اگست اور ۲۶؍ جنوری کے موقع پر اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد
کرتے ہیں اور انقلاب زندہ باد اور جے ہند کا نعرہ بڑے زور سے بلند کرتے
ہیں، مگر ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ نعرے کن ذہنوں کی
ایجاد ہیں۔تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ
ایک مسلمان نے ہی بلند کیا تھا اور جے ہند کا نعرہ بھی سبھاش چندر بوس کی
آزاد ہند فوج میں شامل ایک مسلمان نے ہی سب سے پہلے لگایا تھا۔ ہم نے کبھی
اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا۔
ان علماء نے صرف ملک کی تحریک آزادی میں ہی حصہ نہیں لیا۔ بلکہ مذہبی جنون
اور فرقہ پرستی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مسلم لیگیوں کو ملک دشمن قرار
دیا۔ وہ قومی یک جہتی اور پر امن بقائے باہم کے علم بردار تھے۔ وہ یہاں کی
مشترکہ تہذیبی قدروں پر یقین رکھتے تھے اور ایک عظیم اور متحدہ ہندستان کی
تشکیل کرنا چاہتے تھے، جس میں ہندو مسلم دونوں پیار اور محبت کے ساتھ اپنے
اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزدا اور خود مختار رہیں اور مشترکہ قومی فرائض
میں ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں۔ متحدہ قومیت اور اتحاد و سالمیت کے
تصور کو فروغ دینے میں علماء اور مدارس کا خاص رول رہا ہے۔ اس حوالے سے شیخ
الاسلام مولانا حسین احمد کا نام لینا ضروری ہے، جنھوں نے اقوام کو اوطان
سے جوڑ کر ایک نئی وطنی اور قومی بحث کی حمایت کی تھی، جس نے اس ہندستان کو
فرقہ وارانہ خطوط پر چلنے سے بچا لیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا:
’’ہم باشندگان ہندوستان بحیثیت قوم ہونے کے ، ایک اشتراک رکھتے ہیں جو کہ
اختلاف مذاہب اور اختلاف تہذیب کے ساتھ ہر حال میں باقی رہتا ہے، جس طرح
صورتوں کے اختلاف ، ذاتوں اور صفتوں کے تباین، رنگوں اور قامتوں کے
افتراقات سے ہماری مشترک انسانیت میں فرق نہیں آتا، اسی طرح ہمارے مدہبی
اور تہذیبی اختلافات، ہمارے وطنی اشتراک میں خلل انداز نہیں، ہم سب وطنی
حیثیت سے ہندوستانی ہیں، اور وطنی منافع کے حصول اور مضرات کے ازالہ کی فکر
اور اس کے لیے جدوجہد مسلمانوں کا بھی اسی طرح فریضہ ہے جس طرح دیگر ملتوں
اور غیر مسلم قوموں کا، ․․․․․ اگر آگ لگنے کے وقت تمام گاؤں کے باشندے آگ
نہ بجھائیں گے ، سیلاب آنے کے وقت تمام گاؤں کے بسنے والے بند نہ باندھیں
گے، تو گاؤں برباد ہوجائے گا اور سب ہی کے لیے زندگی وبال ہوجائے گی۔‘‘
علمائے دین نے صرف جدو جہد آزادی میں ہی قومی اور عملی طور پر شرکت نہیں
کی، بلکہ متحدہ قومیت کے تصور کی تشکیل میں بنیادی رول ادا کیا ہے۔ مگر یہ
اس ملک کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب اس ملک میں آزادی کی چھاؤں سے
فائدہ اٹھانے کا وقت آیا تو سارے مجاہدین فراموش کردیے گئے۔ جو لوگ ساحل سے
موجوں کا نظارہ کر رہے تھے وہ آزادی کا پھل دونوں ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں
اور جن لوگوں نے دار ورسن کو چوما تھا ، ان کے اخلاف دووقت کی روٹی کو ترس
رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے جنگیں لڑیں اور اپنا سب کچھ
قربان کردیا، انھیں یہاں کی مٹی نے صلہ کے نام پر صرف گالیاں دیں۔ اس ملک
کی آزادی کے سارے حقیقی کردار فراموش کردیے گئے، انھیں بھلادیا گیا جنھوں
نے وطن کی حرمت پر اپنی گردنیں کٹوائی تھیں اور ان لوگوں کو اعزاز و اکرام
سے نوازا گیا ، جنھوں نے اپنی انگلی بھی نہیں کٹوائی تھی۔ ہمارے مجاہدین
آزادی کی فہرست میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سبھاش چندر بوس، سردار
پٹیل، بھگت سنگھ اور خودی رام بوس کا نام بار بار آتا ہے، مگر کسی شیخ
الہند، شیخ الاسلام، کسی آزاد، کسی نانوتوی ، کسی محمد علی جوہر کا نام
نہیں آتا، جنھوں نے اپنے سرخ لہو سے اس چمن ہندستان کی آبیاری کی ہے۔ یہ
ہماری تاریخ کا المیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ ان مجاہدین آزادی کو ۶۹؍ سال
بعد بھی انصاف نہیں ملا ہے۔ ویر عبد الحمیدجیسے جاں باز کی بیوہ کو ایک عدد
پینشن کے لیے در در کی خاک چھاننی پڑتی ہے اور اس کے پوتے پر فوج کے دروازے
بند ہوتے دیکھا گیا ہے اور اس آزاد ملک کی آنکھوں نے بہادر شاہ ظفر کے
پسماندگان کو کلکتہ کی سڑکھوں پربھیک مانگتے بھی دیکھا ہے،وہی بہادر شاہ
ظفر جو معلیہ سلطنت کا آخری تاج دار تھا اور جس کے سامنے انگریزوں نے لال
قلعے میں ان کے بیٹوں کا سرکاٹ کر طشت میں پیش کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ
تیمور کی اولاد اس طرح سرخ رو ہوکر اپنے آباؤ و اجداد کے پاس آتی ہے۔
مسلم مجاہدین اور علماء کرام کے ساتھ نانصافی اور ظلم کی ایک لمبی داستان
ہے۔ صرف انھیں ہی اس ملک کی تاریخی اور تحریکی منظرنامے سے دور نہیں رکھا
گیا ہے، بلکہ ان کی صلبی اور روحانی اولاد و اخلاف پر بھی عرصۂ حیات تنگ
کیا جار ہا ہے۔ انھیں دیش دروہی، غدار اور ملک دشمن بارو کرانے میں یہاں کا
پورا سیاسی نظام دن رات ایک کیے ہوا ہے۔ علماء اور مدارس کو شک و شبہ کی
نظر سے دیکھا جاتا ہے، انھیں اس ملک کی سلامتی اور اتحاد کے لیے ایٹم بم سے
زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ ہماری درس گاہوں اور عبات گاہوں کو دہشت کی
علامت قررا دیا جارہا ہے۔مدارس و مساجد سے تعلق رکھنے والوں کو راہ چلتے
پریشان کیا جارہا ہے، ان کی جامہ تلاشی کی جاتی ہے، ان پر فقرے کسے جاتے
ہیں۔ مدارس کو دہشت گردی کی آماج گاہ ثابت کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ ان علماء
مجاہدین نے انھی مدارس میں بیٹھ کر انگریزوں کے خلاف جنگ اور جدو جہد آزادی
کے نقشے میں رنگ بھرا تھا۔ دیر ضرور ہوچکی ہے، مگر اب بھی وقت باقی ہے کہ
ہم ان علماء مجاہدین کے نام اور کام کو تاریخ کے اوراق میں جگہ دیں، ان کی
یادگار کو باقی رکھنے کی کوشش کریں، ان کے نام سے علمی اور تعلیمی اور
تحقیقی درس گاہیں قائم کریں، تاکہ نسل نو ان مجاہدین آزادی کے کارناموں سے
روشنی اکتساب کرے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کرے اور
کیا اکثریت اور کیا اقلیت سبھی اس چمنستان میں مسرت اور خوشی کے ترانے
گائیں۔ ہمیں چاہیے کہ رام اور رحیم کی تفریق کو ختم کرکے ملک کے سبھی طبقات
اور مذاہب کے پیروکاروں پر ترقی کے دروازے کھولیں اور ان کے ساتھ کسی تعصب
اور تشدد سے کام نہ لیں۔ اسی میں ہندستان کی ترقی اور خوش حالی کا راز
پوشیدہ ہے۔ |