جنرل(ر) حمید گل۔ایک عظیم شخصیت
(Roshan Khattak, Peshawar)
جنرل (ر) حمید گل ایک ایسی
عظیم شخصیت اور مردِ قلندر تھے ،جسے فراموش کرنا ممکن ہی نہیں ، جس کی حب ا
لوطنی شک و شبہ سے بالا تر اور ہم سب کے لئے باعثِ تقلید ہے، جس کا مذہب سے
لگاوء اور امتِ مسلمہ کے لئے دردِ دل اظہر من ا لشمش ہے،اس عظیم شخص سے
میری ملاقات کچھ ہی عرصہ پہلے کی اس وقت ہو ئی جب مجھے تحریکِ نوجوانانِ
پاکستان کے صوبائی صدرخیبر پختونخوا کی طرف سے دعوت ملی کہ جنرل (ر) حمیدگل
صاحب پشاور پریس کلب تشریف لا رہے ہیں، ان کے صاحب زادے عبد اﷲ گل ،جو
تحریکِ نوجوانان پاکستان کے چئیرمین بھی ہیں ،ان کے ہمراہ ہو ں گے۔ان دونوں
سے آپ کی ملاقات ان کے لئے باعثِ مسرت ہو گی۔میرے لئے یہ دعوتِ کلام کسی
نوید سے کم نہ تھی کیو نکہ جنرل (ر) حمید گل صاحب کو میں نے ٹیلی ویژن
چینلز پر بارہا سنا تھا اور میں ان کے گفتگو سے اتنا متا ثر ہو چکا تھا کہ
انسے ملاقات اور تبادلہ خیال کرنا اپنے لئیایک بڑی سعادت سمجھتا تھابوجہ
اسے اپنی خوش بختی سمجھ کر وقتِ مقررہ پر پشاور پریس کلب پہنچا،تھو ڑی دیر
میں وہ اپنے فرزندِ ارجمند کے ساتھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جلوہ افروز ہو
ئے۔پریس کلب صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔جنرل صاحب کے مختصر گفتگو کے بعد سوال
جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ صحافیوں نے بڑے تیز و تند سوالات پو چھے مگر سچی
بات یہ ہے کہ جنرل صاحب کے قادرالکلامی نے تمام صحافیوں کو پسپائی پر مجبور
کر دیا۔پریس کانفرنس ختم ہو ئی تو ہمیں جنرل صاحب سے ملکی حالات پر گفتگو
کرنے کا مو قعہ ملا۔افغانستان ، عالمی حالات اور پھر ملکی حالات پر ان کی
گفتگو سن کر مجھے یوں محسوس ہوا ،جیسے میں ان کے سامنے بالکل ان پڑھ ، لا
علم اور چھوٹا ساشخص ہوں۔ہر مو ضوع پر وہ اتنی وسیع معلومات رکھتے تھے کہ
سن کر حیرانگی ہو تی تھی۔ عالمی تاریخ خصوصا مسلمانوں کے تاریخ کے تو وہ
انسائیکلو پیڈیا تھے۔ ان کی گفتگو سے ان کی حب الو طنی اچھل اچھل کر ،
جھلملا جھلملا کر آفتاب و مہتاب کی طرح منور و مترشح تھی۔وہ وطنِ عزیز کے
لئے بہت فکر مند تھے اور موجودہ جمہو ریت کو ایک ناکام سسٹم سمجھتے تھے۔۔۔۔
جنرل (ر) حمید گل مرحوم ایک نڈر، دلیر، راستباز اور خداداد فہم و فراست کے
مالک تھے۔20نومبر 1936 کو شاہینوں کے شہر سر گو دھا میں پید ا ہو ئے،
ابتدائی تعلیم اپنے گاوٗں ہی میں حاصل کی میٹرک بعد گو رنمنٹ کالج لاہور
میں داخلہ لیا۔عمر اٹھارہ سال ہو ئی تو پاک آرمی میں کمیشن حاصل کی اور پی
ایم کاکول میں دو سال فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد لفٹیننٹ بنا دئیے گئے۔۔
1965کی پاک بھارت جنگ میں بہادری کے جو ہر دکھاتے ہو ئے ستارہٗ جرات حاصل
کیا۔1968میں سٹاف کالج کو ئٹہ سے کمانڈ اینڈ سٹاف کا کورس کیا۔1972 سے
1976تک ایک آرمڈ بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر رہے ۔ترقی کا زینہ چڑھتے
چڑھتے1980میں جنرل بنے۔1987 سے1989 دنیا کی سب سے بہترین خفیہ ایجنسی آئی
ایس آئی کے سربراہ بنے ۔یہ وہ دور تھا جب دنیا کے سپر پاور روس نے
افغانستان پر قبضہ جما لیا تھا اور بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ روس کو
افغانستان سے نکالنا آسان ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے مگر جنرل حمید گل (مرحوم)
کی پیشہ ورانہ مہارت اور ذہانتِ اعلیٰ نے اسے آسان بنا دیا اور روس جیسے
ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔
جنرل صاحب کی خواہش تھی کہ کشمیری مجا ہدین کو بھی افغان مجا ہدین کی طرز
پر منظم کر کے کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کی غلامی سے آزاد کرا دیا جائے
مگر حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا ۔1992 میں پاک آرمی سے سبکدوش ہو ئے مگر
ایک دفاعی تجزیہ کار کے طور پر ہمیشہ پاکستانی عوام کے نظروں میں سموئے
رہے۔ان کا فلسفہ سیاست سب سے جدا تھا، وہ پاکستان کے مو جودہ سیاستدانوں سے
مایوس ہو چکے تھے مگر انہیں پاکستانی قوم پر فخر اور ناز تھا ۔مذہب سے
لگاوء، وطن سے والہانہ محبت ان کا جزوِ ایمان تھا۔ وہ ایک ایسے مجاہد تھے
جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا ۔15اگست کی رات وہ ہم سب کو داغِ مفارقت
دیتے ہو ئے ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئے۔ جنرل حمید گل جیسے لوگ دنیا میں
کم ہی پیدا ہو تے ہیں۔اﷲ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے۔
․․․ بچھڑا کچھ اس انداز سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔۔۔۔ایک شخص سارے شہر کو ویراں
کر گیا۔۔۔۔۔۔ |
|