شاہ جی کی شخصیت کے چند پہلو
(M Jehan Yaqoob, Karachi)
سیدعطاء اللہ شاہ بخاری پٹنہ
صوبہ بہاربھارت میں حافظ ضیاء الدین کے گھرپیداہوئے، آپ کے داداکانام
سیّدنورالدین احمدتھا،آپ کاسلسلہ نسب چھتیسویں پشت میں شہیدکربلاحضرت حسین
سے جاملتاہے۔آپ کواپنے ناناسے جذبہ حق گوئی وبے باکی اورجوشِ خطابت وراثت
میں ملاتھا،جس کااندازہ حضرت شاہ جی کی زبانی اس واقعے سے کیاجاسکتاہے،اپنے
ابتدائی ایام کاتذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
'' ایک مرتبہ گھروالوں نے مجھے ایک روپیہ دے کربازارسے آٹالانے کو کہا،میں
بازارگیا،راستے میں ایک جگہ انگریزکے خلاف جلسہ ہورہاتھااورانگریزکے خلاف
خوب خوب بیانات ہورہے تھے ،مجھے بھی خوشی ہوئی، اسٹیج سیکرٹری سے وقت
مانگاتواس نے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ تم بچے ہو۔جب میں نے مسلسل
اصرارکیاتواس نے میری معصومانہ ضدوپیہم اصرار کودیکھتے ہوئے صرف پانچ منٹ
تقریرکرنے کی اجازت دی، چناں چہ میں نے انگریزکے خلاف خوب زوردارجذباتی
تقریرکی۔پانچ منٹ ختم ہونے پرجب میں اسٹیج سے اُترنے لگاتولوگوں نے
اصرارکیاکہ اس بچے کو مزیدموقع دیاجائے، چناں چہ پون گھنٹہ میری تقریرجاری
رہی ،اس تقریرکاانگریزسرکارپریہ اثرہواکہ اسٹیج سے اترتے ہی مجھے
گرفتارکیاگیا۔مجسٹریٹ بھی پولیس کے ساتھ تھا،اس نے ایک ماہ کی سزالکھ دی
اوریہ میری پہلی سزاتھی۔''
آپ نے ابتدائی اورحفظ ِقرآن مجیدکی تعلیم اپنے ناناسے حاصل کی اورقرأت کی
تعلیم عرب کے مشہورقاری سیّدعاصم عمر سے حاصل کی ،جب آپ پٹنہ سے پنجاب
منتقل ہوئے توراجووال میں قاضی عطاء محمدکے مدرسے میں کچھ عرصہ تک زیرتعلیم
رہے اور پھر١٩١٤ء کوامرتسرتشریف لے گئے اوروہاں ممتازعالم دین ومفسرقرآن
حضرت مولانانوراحمدامرتسری سے قرآن مجیدکی تفسیرپڑھی اورفقہ واصول فقہ کی
تعلیم دارالعلوم دیوبندکے چشم وچراغ حضرت مولاناغلام مصطفی قاسمی سے حاصل
کی، جبکہ حدیث کی تعلیم برصغیرکے مشہورعالم دین اورملک کی عظیم دینی درس
گاہ جامعہ اشرفیہ لاہورکے بانی حضرت مولانامفتی محمدحسن امرتسری سے حاصل
کی۔
دنیائے خطابت کے مہرمنیر،شہنشاہ خطابت ،امیرشریعت حضرت مولاناسیدعطاء اللہ
شاہ بخاری کاشماران علمائے حق اوراولوالعزم انسانوں میںہوتاہے جنھوں نے
ساری زندگی تحفظ ختم نبوت ،اسلام کی نشرواشاعت ،دعوت وتبلیغ،ردقادیانیت
،تردیدباطل ،احقاق حق اورانگریزواستعماری طاقتوںکے خلاف جدوجہدمیںگزاری ،آپ
برصغیرکے عظیم خطیب ،شعلہ بیان مقرر،تحریک تحفظ ختم نبوت کے عظیم
مجاہداوررہنماتھے۔آپ کی شخصیت کے کئی عنوان اوربے شمارگوشے ہیں،جن پراس
مختصرکالم میں بات نہیںکی جاسکتی ،البتہ ان کی حیات عاشقانہ کے چنداہم
گوشوں سے زیرمیںقارئین کرام کوروشناس کرنے کی ہم کوشش ضرورکریں گے۔
سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ایک بہترین خطیب تھے ،آپ نے خطابت کے وہ جوہردکھائے
کہ آج تک کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کرسکا،شاہ جی ایک عوامی خطیب تھے،ان
کاطرزخلافت علمی وادبی چاشنی سے بھرپورہونے کے باوجودعوام میں اس قدرمقبول
تھاکہ نمازِعشاکی ادائی کے بعدجومجمع شاہ جی کی تقریرکے سحرمیں
جوکھوجاتاتھا،تواذان ِفجرتک مجمع یوں ہمہ تن گوش رہتاتھاکہ کسی چہرے پرتھکن
کااحساس ہوتاتھااورنہ ہی کسی زبان پرکوئی شکوہ،بل کہ مجمع چاہتاتھاکہ شاہ
جی یوں ہی بولتے ،بل کہ موتی رولتے رہیںاوروہ ان سے یوں ہی عشق رسالت ۖوحب
ِصحابہ واہل ِبیت رضی اللہ عنھم کی دولت سے اپنادامن بھرتارہے۔غیرمنقسم
ہندوستان ا ورپاکستان کاشایدہی ایساکوئی شہریاقصبہ ہو،جہاں آپ نے اپنی
سحرآفرین خطاب ،شریں بیانی اورہنگامہ خیزانقلابی تقریروں سے لوگوں کے سوتے
ہوئے جذبات اورغافل دلوں کونہ گرمایاہو۔آپ نے ہندوستان وپاکستان کے کونے
کونے میں اسلام کاعلم بلندکیا،انگریزسامراج کے خلاف آپ کی زبان سے الفاظ
نہیںبلکہ آگ کے شعلے نکلتے تھے ،جس نے انگریزسامراج کی نیندیں حرام کررکھی
تھیں ،آپ کالہجہ اورمئوقف انگریز سامراج کے خلاف بہت ہی سخت تھااورآپ
کاہرہرجملہ انگریزسامراج کے محلات کی درودیوارکوصاعقہ آسمانی بن
کرلرزادیتاتھا۔آپ کااندازخطابت نہایت نرالااوردل نشین تھا،آپ کی زبان سے
نکلنے والے الفاظ لوگوں کے دلوں پراس قدراثراندازہوتے تھے کہ لاکھوں کامجمع
آپ کی ایک آوازپردینِ اسلام اورتحفظ ِختم نبوت کیلئے جان کی بازی لگانے تک
کے لیے تیارہوجاتاتھا۔جس کی ایک واضح مثال غازی علم دین نا می گاڑی بان
کاراج پال جیسے بااثرگستاخ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )کوواصل ِجہنم کرنابھی
ہے۔ان کی خطابت پربلامبالغہ''ازدل خیزدبردل ریزد''کامصداق ِاتم تھی ااوریہ
شعران کی خطابت پرمکمل صادق آتاتھا
دیکھناتقریرکی لذت،کہ جواس نے کہا
میں نے یہ سمجھاکہ گویایہ بھی میرے دل میں تھا
شاہ جی کی شخصیت کاایک حوالہ ان کی روحانی عظیم نسبت بھی تھی،وہ ایک سچے
عاشق ِرسول ۖ اورایک عالمِ ربانی توتھے ہی،ساتھ ہی وہ ایک عارفِربانی بھی
تھے،آپ حصول ِعلوم ِظاہری سے فارغ ہونے کے بعدتزکیہ باطن کی طرف متوجہ
ہوئے،چناں چہ سب سے پہلے ولی کامل حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی سے
اصلاحی تعلق قائم کیااورآپ کی خدمت اقدس میں تصوف وسلوک کی منازل طے کیں
۔حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی انتہائی نیک ،عابداورمتقی
وپرہیزگارانسان تھے،آپ جب حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی کے مرض
الوفات میں حاضرخدمت ہوئے اورعرض کی :
'' حضرت کوئی نصیحت فرمائیے۔''
اس وقت پیرکامل حضرت مولاناسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی عالم جذب میں تھے ،صرف
اتنافرمایا:
''اتباع شریعترکھیے'' ۔پیرومرشد کی اس نصیحت پراس قدرعمل کیاکہ خودآپ
کو''امیرشریعت ''کالقب دیاگیا،اورآج تک دنیاآپ کو''امیرشریعت''کے نام سے
جانتی اوریادکرتی ہے ۔حضرت مولاناپیرسیّدمہرعلی شاہ گولڑوی کی وفات کے
بعدآپ نے حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوری سے تجدیدِبیعت کی اورخلافت سے
سرفرازہوئے، پیرکامل حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائپوری آپ سے بہت ہی زیادہ
محبت کرتے تھے۔
آپ تقسیم ہندکے حق میں نہیں تھے ،جس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ان
کاکہناتھاجس انگریزکوثالث مقررکیاجارہاہے ،وہ قابل ِاعتمادنہیں،اس لیے وہ
ایسی ڈندی مارے گاکہ دونوںملک مسلسل لڑتے بھی رہیں اوراندرونی وبیرونی عدم
ِاستحکام کاشکارہوکرنتیجتاًاسی انگریزسامراج کے دست نگرہوجائیں۔ان کی اس
رائے سے اختلاف بھی کیاگیااورنتیجہ بھی اس کے خلاف نکلااوردوملک بن گئے
،لیکن اب جوں جوں ماہ وسال گزرتے جارہے ہیں مبصرین ان کی سیاسی بصیرت
کااعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی !شاہ جی سیاسی بصیرت میں اعلیٰ
درجے پرفائزتھے،چناں چہ اس وقت آپ نے جن جن خدشات کااظہارکیاتھا،قیام
پاکستان کے بعد وہ تمام خدشات ایک ایک کرکے درست ثابت ہوئے۔اس مردِقلندرنے
اس وقت فرمایاتھا: انگریزتمہارے درمیان فسادبرپاکرکے جائے گا۔آج ہم اگراپنے
اردگردنظرڈال کردیکھیں توہم باوجودایک آزادوخودمختاراورایٹمی طاقت کاحامل
ملک ہونے کے باوجودگورے انگریزکے محتاج ہیں،اس کی ڈکٹیشن ،قرض اورایڈہماری
ضرورت بن چکی ہے اورہمارابال بال قرضوں میں جکڑاہواہے،جس کی ایک نقدقیمت ہم
یہ بھی چکارہے ہیں کہ ہمارے فیصلے اب بھی ان کے اشارہ آبروپرہوتے ہیں
،دوسری طرف شاطرثالث نے تقسیم ہندکے وقت جومسئلہ اورمعاملہ مسئلہ کشمیرکی
صورت میں لاینحل چھوڑاہے وہ آج تک حل نہیں ہوسکا،یہ ایک خونی لکیرہے جس
کوعبورکرنے کی خاطرلاکھوں جانوں،عصمتوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں اورجانے
اس شب ِتاریک کی سحرہم سے اورکتنی قربانیاںمانگتی ہے۔
آپ کی شخصیت کاایک اورعنوان تبلیغی مساعی کابھی ہے،آپ کی مساعی جمیلہ سے
ہزاروں ہندو،بدھ مت کے پیروکار اورعیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔اس حوالے
سے ہم آپ کی زندگی کے صرف ایک واقعے کے ذکرپراکتفاکرتے ہیں،جس سے آپ
کواندازہ ہوگاکہ وہ حسنِ اخلاق اورعجزوانکساری کے کس اعلیٰ مقام پرفائزتھے:
یہ 1939 ء کاواقعہ ہے ، آپ مجلس ''احراراسلام ''لاہورکے دفترمیں تشریف
لائے، جب آپ نیچے سے اوپرجانے لگے تواس وقت بھنگی گندگی لے کراوپردفترسے
نیچے کی طرف آرہاتھا۔سیڑھیوں کے درمیان شاہ جی سے سامناہوا،سیڑھیاں تنگ
تھیں اس لیے بھنگی سمٹ کردیوارکے ساتھ لگ گیاتاکہ آپ آسانی سے گزرسکیں۔جب
اللہ کے ولی کی نظراس بھنگی پرپڑی تواس سے کہا: یہ ٹوکری نیچے رکھ
لواوراوپرآجائواورمیری ایک بات سن جائو۔
بھنگی ٹوکری نیچے رکھ کراُوپرچلاآیااورآپ سے کہاکہ میرے لیے کیاحکم ہے؟
آپ نے کہا: یہ صابن لواورمنہ ہاتھ دھوکرمیرے پاس آجائو،چناں چہ اس نے
ایساہی کیا،آپ نے اسے اپنے پاس بیٹھایا،کھانامنگوایااورایک لقمہ توڑکرسالن
میں ڈبویااوراس کے منہ میں ڈال دیا۔پھراس سے کہا:میاں ایک لقمہ توڑکرسالن
لگائواورمیرے منہ میں ڈالو۔بھنگی بڑی حیرانی سے آپ کی طرف دیکھنے لگا،آپ نے
اس سے کہا: بھائی انسان ہونے کے ناتے آپ میں اورمجھ میں کوئی فرق نہیں ،
گندگی اُٹھاناتمھاراکام ہے،سو تم اس مکان کی گندگی صاف کررہے ہو،جب کہ میں
پوری قوم کی گندگی صاف کررہاہوں۔یہ پیاربھرے جملے سنے تواس کی ہمت بڑھی
اوراس نے لقمہ اُٹھایااورآپ کے منہ میں ڈال دیااورآپ سے کہا: شاہ جی !یہیں
بیٹھے رہیں،میں تھوڑی دیربعدحاضرہوتاہوں۔
اس کے بعدوہ اپنے گھرگیااوربیوی بچوں کوساتھ لے کرشاہ جی کی خدمت ِاقدس میں
آیااورکہنے لگا: شاہ جی! اگریہی اسلام ہے توپھرہم سب کومسلمان کردو،چناں چہ
آپ نے ان کوکلمہ پڑھایااورمسلمان کیا،جب وہ مراتواس کاجنازہ بھی دفترسے
اُٹھایاگیا۔یہ تھے ہمارے اکابرجنھوں نے اپنے قول وفعل کے ذریعے نہ صرف
مسلمانوں کی رہنمائی کی بلکہ ان کے اعلیٰ اخلاق کودیکھ کرغیرمسلم
خودبخوددائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔
کیاتھے آباء وہ تمھارے اورتم کیاہو
افسوس ! اس جدیداورروشن خیال دورمیں، جب کہ اکابرکاسایہ ہم سے اُٹھ
چکاہے،ایسے واقعات تودرکناربلکہ ہمارے اقوال اوراخلاق وکردارکودیکھ کرہمارے
اپنے مسلمان ہی ہم سے نہ صرف بدظن ہورہے ہیں بلکہ وہ ہم سے روزبروزدورہوتے
جارہے ہیں۔بقول شاعرہماراتویہ عالم ہے
وضع میں تم ہونصاریٰ توتمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کرشرمائیں یہود
ہمیں چاہیے کہ ہم جن اکابرکواپناامام پیشوااورمقتداتسلیم کرتے ہیں، ان کے
نقش قدم پرچل کرنہ صرف مسلمانوں کی راہ نمائی کاحق اداکریں بلکہ اپنے اخلاق
وکردارکے ذریعے غیرمسلموں کوبھی متاثرکریں تاکہ وہ بھی آغوش اسلام میں داخل
ہوجائیں ،اخلاق حقیقتاً بڑاہتھیارہے، جس سے دلوں کوفتح کیاجاسکتاہے۔
آپ کی زندگی کاایک اوردرخشاں عنوان ردقادیانیت ومرزائیت اورتحفظ ختم نبوت
ہے،اس سلسلے میں حضرت شاہ جی کی خدمات محتاج بیان نہیں،اب تک دشمن شاہ جی
کی للکاراوران کی فکری یلغارسے لرزاںوترساں ہے،ہم ان کی خدمات کواس ایک
جملے میں سموناچاہتے ہیں:شاہ جی نے بلاشبہ قایانیت ومرزائیت کاناطقہ
بندکردیاتھا۔
آپ نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزاری اوربالآخرآپ 21اگست 1961ء
بمطابق 9ربیع الاول ١٣١٨ ھ کواس دارفانی سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے
اوریوں ہم دنیائے خطابت کے اس مہرمنیر،امت مسلمہ کے عظیم مجاہداورراہ
ِطریقت کے عظیم راہ نماسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے ۔
|
|