شانگلہ ،اوریجنل کلر ، ککوڑی اور لفٹ کا سفر

پہاڑی چشموں سے نکل کر آنیوالے ٹھنڈے پانی میں نہانا کتنا مشکل ہوتا ہے اس کا اندازہ وہ لوگ زیادہ کرسکتے ہیں جو گھر میں غسل خانوں میں نہاتے ہوں - خوازہ خیلہ میں میرے ساتھی صحافی دوست عثمان نے صبح سویرے مجھے اس بات پر قائل کیا کہ نہانا وہ بھی چشموں کے پانی سے بہت زبردست ہے ، - ساتھی کی بات تو میں نہیں مان رہا تھا لیکن جس وقت احساس ہوا کہ ان کے گھروں میں پانی پینے کیلئے بھی مشکل سے آتا ہے ایسے میں نہانا بہت بڑی عیاشی ہے- خوازہ خیلہ کے بیشتر رہائشیوں نے بڑے بڑے پائپ چشموں سے نکلنے والے پانی میں رکھے ہیں اور جب انہیں ضرورت ہوتی ہیں تو وہ مشین لگا کر ان پائپ کے ذریعے گھروں تک پانی پہنچاتے ہیں جسے بعد میں استعمال میں لایا جاتا ہے- میں غسل خانے میں نہانے والا بندہ ہوں اور کھلے عام نہانا کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن صحافی دوست عثمان کی بات پر مجبورا ہاں کرتے ہوئے خوازہ خیلہ سے گزرنے والے پہاڑی چشموں کے نالے کا رخ کیا- صبح سویرے چشموں کے پانی سے نہانا - اللہ اکبر.... لیکن میں نے بھی بہت ہوشیاری کی پہلے ٹھنڈے پانی میں پائوں رکھ دئیے ، پھر آہستہ سے جسم پر پانی ڈالا اور جب جسم سردی سہنے کے قابل ہوا تو یکدم پانی میں ڈبکی لگائی - جس سے سردی کا احساس بھی کم ہوا ااور پھر اتنا مزہ آیا کہ صحافی دوست مجھے منتیں کرتا رہا کہ چلو کتنا نہائو گے لیکن پھر نکلنے کو دل نہیں کررہا تھا-

گھر میں واپس جا کر میں نے جینز پہن لی جبکہ ساتھی دوست کو جینز پہنی لیکن بعد میں تبدیل کردیا جب میں نے وجہ پوچھی تو بتادیا کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ یہاں کے لوگ جینز اور شرٹ کے استعمال کو معیوب سمجھتے ہیں خصوصی طور پر ایسے لوگوں کیلئے جو یہاں کے مقامی ہوں ، صحافی دوست کے بقول اس کا دل تو بہت کررہا ہے کہ جینز پہنے لیکن لوگوں کی وجہ سے نہیں پہن رہا- میں دوست کو چھیڑنے کیلئے اسے کہتا کہ تم نظریاتی طور پر جماعت اسلامی کے ہو لیکن تمھاری حرکات اور کپڑوں کا سٹائل پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرح ایڈوانس ہے-

ناشتہ کرنے کے بعد پشاور سے آنیوالے دو ساتھیوں نے فون کیا کہ وہ گاڑی میں صبح سویرے روانہ ہوئے ہیں اور دس بجے تک وہ بھی خوازہ خیلہ پہنچ جائینگے- یہ دوست بھی صحافی تھے جب ان سے فون پر بات کی کہ جلدی پہنچ جائو کیونکہ ناشتے پر انتظار ہورہا ہے تو آفتاب احمد جس کے بال زیادہ عقلمندی کی وجہ سے گر گئے ہیں نے اپنے مخصوص سٹائل میں کہہ دیا کہ صبح سویرے پانچ بجے سے سفر شروع کیا اورپہلی مرتبہ اتنی اچھی باتیں سننے کو مل رہی ہیں یعنی ناشتہ تیار رکھو ہم ڈٹ کر ناشتہ کرینگے اور واقع پہنچ کر ان دوستوں میں صرف آفتاب احمد نے ڈٹ کر ناشتہ کیا- یعنی دوسرے صحافی دوست کے حصے میں آنیوالا ناشتے کا انڈہ بھی ڈکار لیا-سوات کے رہائشیوں کی عجیب سی بات ہے کہ یہ لوگ چینی کا ااستعمال بہت زیادہ کرتے ہیں ، لسی پینی ہو گھر پر یا بازارھ میں ، چائے پینی ہو گھر پر یا کسی ہوٹل میں ، چینی اتنے ڈالتے ہیں کہ ہونٹ آپس میں چپک جاتے ہیں- خیر شائد یہ ان کی آب و ہوا کا اثر ہو ، اتنی چینی تو ہم پشاور میں استعمال کریں تو پھر اللہ ہی ہمارے صحت پر رحم کرے-

صحافی دوست عثمان کے کزن اعجاز خان جو کہ مقامی طور پر اپنا کاروبار کرتے ہیں- سے ہم نے پہلے بات کی تھی کہ پشاور سے آنیوالے صحافی دوست آفتاب احمد کو یہ کہنا ہے کہ میری سرخ و سفید رنگت کا راز چشموں میں نہانے پر ہیں اگر تم ایک مرتبہ نہالو تو تمھاری کالی رنگت سفید ہو جائیگی - ہم چار دوستوں نے آفتاب کیلئے پلان بنایا تھا لیکن وہ ایسا ڈھیٹ نکلا کہ یہ کہتے ہوئے چل پڑا کہ میری اوریجنل کلر ہے اس کیساتھ میں زیادتی نہیں کرسکتا-

خوازہ خیلہ بازار کی سیر کرتے ہوئے لکڑی پر خوبصورت ڈیزائن بنانے والے کاریگر سے ملاقات ہوئی جو مقامی طور پر بننے والی چوکی ) بیٹھنے کیلئے استعمال ہونیوالاکرسی ( پر خوبصورت نقش و و نگار بنا رہا تھا اس نے بتایا کہ وہ گذشتہ پینتیس سال سے اسی کاروبار سے وابستہ ہے ، اور یہ اس کا آبائی پیشہ ہے بقول اس کے بچوں نے بھی یہ فن سیکھا ہے لیکن وہ اسے نہیں کررہے کیونکہ یہ بہت محنت طلب کام ہے اور روزانہ وہ تین چوکیاں بناتا ہے جس کی بنائی بکری کے چمڑ ے سے کی جاتی ہیں اور اس کیلئے بھی مخصوص ماہر کاریگر آتے ہیں خوبصورت ڈیزائن اور کلر میں دستیاب ان کرسیوں کو مقامی طور پر لوگ جہیز میں دیتے ہیں اور یہ ایک طرح سے روایت ہے یہاں بننے والے اس کرسی میں بیشتر جنگلات کی لکڑی استعمال ہوتی ہیں اور یہ ڈھائی ہزار سے تین ہزار روپے میں ملتی ہیںاور یہ یہاں پر بننے والی کرسی مخصوص ڈیزائن کی وجہ سے ہر جگہ پر پسند کی جاتی ہیں خصوصا سیاحت کیلئے مختلف علاقوں سے آنیوالے افراد اسے اپنے لئے خریدتے ہیں-

مہمانوں کے سیر کے دوران عثمان اور اس کے کزن اعجاز نے شانگلہ کیلئے تیاری کرلی تھی اورکھانے پینے کا سامان او چکن بھی خرید لیا تھا- شانگلہ کا علاقہ خوازہ خیلہ سے تقریبا چالیس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے- گاڑی میں سفر شروع ہوا تواحساس ہو ا کہ سی این جی کا استعمال صرف شہر میں کیا جاسکتا ہے کیونکہ سی این جی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ پہاڑی موڑ اور چڑھائی پر گاڑی دوڑے-اسی باعث پٹرول کا استعمال صحافی دوست عمران نے شروع کیا- لیکن کچھ دیر بعد پٹرول گرنے کا احساس ہوا- گاڑی جلدی سے سڑک کنارے روک دی تو پتہ چلا کہ انجن تک آنیوالی پٹرول کی پائپ لیک ہوئی ہیں اور پٹرول مسلسل ضائع ہورہا ہے-جلدی سے ایک سائیڈ پر گاڑی کھڑ ی کی- بہت کوشش کی کہ پائپ ٹھیک ہو لیکن شکر ہے کہ ایک دکان پربیٹھے شخص جو کہ مستری تھا نے جلدی آکر پٹرول کی پائپ میں ایلفی اور کھانے میں استعمال ہونیوالا سوڈا اور سلوشن ٹیپ کا ایسا استعمال کردیا کہ گاڑی سے پٹرول کی لیکج بھی بند ہوگئی اور ہمیں شانگلہ سے لیکر واپسی پشاور تک پہنچنے میں کسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا-مستری نے جب یہ جانا کہ ہم مہمان ہیں تو اس نے پیسے لینے سے بھی معذرت کی لیکن ہمارے کنجوس دوست آفتاب نے بڑی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس روپے اس کو تھما دئیے-

خوازہ خیلہ سے شانگلہ کا بیشتر سفر چڑھائی کا تھا اور ہماری چھوٹی سے مہران گاڑی پانچ بندوں کا بوجھ اٹھائے جارہی تھی راستے میں مختلف پہا ڑ دیکھے جو کبھی اتنے سرسبز تھے کہ جنگلات اس پر دکھائی دیتے تھے لیکن اب جنگلات کی کٹائی کے باعث بہت کم درخت دیکھنے کو ملتے لمبے درخت اور ہوا میں انوکھی خوشبو ، دل کو بھلا لگنے والا یہ منظر انسان کی ساری تھکان دور کردیتا ہے اور جب ساتھ میںدوست بھی صحافی ہوں توبہت مزا آتا ہے- میں توآفتاب کو چھیڑنے کیلئے کہتا کہ دیکھ لو کتنی زبردست خوشبو ہے ، موسم کتنا پیار ا ہے اور میں نہایا بھی چشمے کے پانی سے ہو ںاس لئے لگتا ہے کہ میری عمر تیس ہوگئی اور ایک مرتبہ پھر نوجوان بن گیا ہو- جس پر آفتاب غصے میں آکر کہتا کہ " پریگدہ مڑہ" تم تو بیوی سے بھاگ کر آئے ہو- نوجوان ہوگئے ہو تو دوبارہ شادی تو نہیں کرسکتے اور اسی گپ شپ میں شانگلہ کے علاقے ٹوپسین پہنچے جہاں پر آرمی چیک پوسٹ پر تعینات پولیس اور آرمی اہلکاروں نے ہماری شناخت دریافت کی اور پھر جانے دیا ٹوپسین سے اترائی کا منظر بہت دلفریب ہوتا ہے- بعض مقامات پر سیاحوں کو دیکھا جو اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء لیکر آئے تھے اور وہ اس کو پکانے میں مصروف عمل تھے - ایک جگہ رک کر پہاڑی چشموں سے آنیوالا پانی پیا جسے مقامی دکاندار نے ایک حوض میں بند کرکے اس میں کولڈ ڈرنکس کی بوتل، آم اور دوسرے فروٹ رکھ دئیے تھے اور اتنے ٹھنڈے ہوگئے تھے کہ کولڈ ڈرنکس کو پینا اور فروٹ کھانا جو کہ انتہائی سرد تھا ابڑے دل گردے کا کام تھا-

یخ تنگی کے مقام پر ایک جگہ ٹنگ ٹکور)میوزک(کا پروگرام نظر آیاہم تمام ساتھی وہاں گئے تو پتہ چلا کہ رباب منگی کا پروگرام ہے جسے دیکھنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جس میں زیادہ تر سیاح تھے اور موسیقی اور گانے والے بھی سیاح تھے- جو یہاں آکر اپنے فنکارانہ صلاحیت کا مظاہرہ کررہے تھے- پشتو زبان میں شاعری اور پھر رباب کیساتھ موسیقی نے اپنا ہی مزہ کیا- بعض من چلے جو کہ دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے تھے نے تیز موسیقی بھی لگا دی تھی- چونکہ اس سے پہلے ہم نے مقامی طور پر لوگوں سے سوالات کئے تھے جس سے انہیں اندازہ ہوا تھا کہ ہم صحافی ہیں اس لئے وہ لوگ بہت عزت دے رہے تھے ایسے میں تیز موسیقی سن کر ہماری بھی ایسی حالت ہوگئی تھی کہ جس طرح پرویز خٹک نے نشتر ہال میں میوزک پر ڈانس کرنے والے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ" یہ ہمارے رواج ہیں اور خٹک تو موسیقی کے سامنے مشکل سے ٹھہرتے ہیں"اور پھر ہم نے دل پر بہت جبر کیا کہ آخر" لوگ کیا کہیں گے" -اور یوں ہم نے اپنی معصوم سی خواہش کا گلہ گھونٹ دیا-

یخ تنگی کے مقامی لوگوں کے مطابق اس علاقے میں چار سے چھ ماہ تک مکمل طور پر برف پڑی رہتی ہیں جبکہ اس علاقے میں کوئی سکول نہیں اور یہاں کے بچے چار کلومیٹر دور سکول کیلئے روزانہ جاتے ہیں- روزگار کے کوئی مواقع نہیں بیشتر لوگ کراچی اور اسلام آباد میں کام کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں-یہاں پر "ککوڑی" بھی کھائی - بسکٹ کو مقامی طور پر لوگ "ککوڑی "بھی بولتے ہیں- کہیں کہیں پر دکانیں ہیں- بی ایچ یو نام کی کوئی چیز نہیں- بیمار ہونے کی صورت میں مقامی لوگ اپنے بیمار کو چارپائی پر ڈال کر خوازہ خیلہ یا شانگلہ کی طرف لے جاتے ہیں- جلانے کیلئے لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہ ے- بیشتر بچیاں ہاتھوں میں دنداسہ لئے سیاحوں کو بیچنے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ دنداسہ یہاں مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں خواتین اسے دانتوں کی صفائی کیلئے استعمال کرتی ہیں- ایک مقامی شخص نے علاقے میں سکول نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہاکہ اگر اس علاقے کے بڑے امیر مقام یا اس کے بھائی عباد اللہ جو اسی علاقے سے منتخب ہوئے ہیں اگر کوئی اقدام اٹھائیں تو وہ اپنی زمین سکول کو دینے کیلئے تیار ہیں لیکن..............

ہمارے گپ شپ کے دوران آفتاب اور اعجاز نے چکن کی ترکاری بنانے کا آغاز کیا اور صحافی دوست کے ہاتھ کی پکائی ہوئی چکن کا اپنا مزہ تھا- پتہ نہیں کس ترکیب سے بنایا تھا لیکن میرے سامنے تو اس نے چکن مصالحہ ، ٹماٹر ، پیاز ، ہلدی ، لہسن ، گھی ، مصالحہ سب کچھ مکس کر کے ڈال دیا تھا جو تقریبا چار بجے تک تیار ہوا مقامی طور پر بننے والی روٹیاں ہم نے خرید لی تھی دکاندار ایک روٹی کی قیمت پندرہ روپے وصول کرتے ہیں چونکہ یہاں پر روٹی بنانے والے تندور وں کی دکانیں کم ہیں اس لئے زیادہ رش یہاں پر ہوتا ہے- کیونکہ یہاں آکر زیادہ تر لوگ کھانا کھانے کو ترجیح دیتے ہیں بعض لوگ اپنے ساتھ فروٹ لیکر آتے ہیں جسے ٹھنڈے چشموں کے پانی میںٹھنڈا کرکے کھاتے ہیں-

کھانا کھانے کے بعد واپسی کا آغاز کردیا- مانڑی کے مقام پر ایک لفٹ دیکھی جس پر دو پہاڑوں کے مابین بسنے والے افراد اپنے رابطے کیلئے استعمال کرتے ہیں- 2003 ء میں بننے والے اس لفٹ کے ذریعے مقامی لوگوںکو بہت سہولت ہوگئی ہیں اور وہ چار ہزار اونچائی پر پینتیس سو فٹ کا راستہ دس منٹ میں اسی لفٹ کے ذریعے طے کرتے ہیں- مقامی لوگوں کے ساتھ سیاحت کیلئے آنیوالے افراد بھی اسی پر سفر کرتے ہیں- میں تو خود ڈر رہا تھا کیونکہ ایک شخص نے کہا کہ ایک دفعہ کتا گرگیا تھا تو اس کی ہڈیاں تک نہیں ملی تھی- جب لفٹ آپریٹر سے پوچھا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ تیرہ سال میں کوئی حادثہ نہیں ہوا البتہ آج کچھ ہو جائے تو آپ کی قسمت ہے- اورپھر ہم چار دوست یہ کہتے ہوئے ایک دوست کو پیچھے چھوڑ گئے کہ اگر کچھ ہوجائے تو بریکنگ تو تم دیدو گے- لفٹ میں بیٹھ کر ایک پہاڑی سے دوسرے پہاڑی تک جانے کا انوکھا مزہ ہوتا ہے جس کیساتھ ڈر بھی ہو-ساتھی آفتاب احمد نے جلدی سے موبائل فون سے اپنی سیلفیاں بھی بنوائیں- دوسرے پہاڑی پر واقعے کوٹکے تک پہنچے جہاں پر رہائش پذیر لوگوں نے مسلم لیگ ن کے امیر مقام اوراس کے بھائی عباداللہ جو اس علاقے سے منتخب ہوئے ہیں کے حق میں "دعائے خیر"کی کہ ان کے ہوتے ہوئے بھی بیس ہزار آبادی پر مشتمل اس علاقے کے لوگوں کیلئے نہ کوئی سڑک ہے اور نہ ہی کوئی راستہ ہے اور وہ روزانہ چالیس روپے آنے جانے کیلئے لفٹ آپریٹر کو دینے کیلئے دیتے ہیں- ان کے بقول روزگار ہے نہیں اور ایسے میں اگر پیدل جائے تو چارگھنٹے لگتے ہیں ساتھی دوستوں نے تصاویر بھی بنوا لیاور پھر واپسی کا آغاز کیا-واپس خوازہ خیلہ تک آتے آتے عمران ایاز اور آفتاب احمد نے مجھے قائل کیا کہ بس بہت ہوگیا گھر جائو-کونسے تمھاری نانی کا گھر یہاں پر ہیں - عمران ایاز کا بھی کچھ کام تھا اور میں اپنے لمبی چھٹی کی قربانی دیتے ہوئے شات سات بجے خوازہ خیلہ سے روانہ ہوئے اور رات ایک بجے واپس پشاور پہنچا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498071 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More