کس کس کی باری آنے والی ہے
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ صرف
ملک میں کر پشن ہورہی ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں کو کوئی
سزا نہیں ملتی جس کی وجہ سے کر پٹ لوگوں میں ہر سال اور ہر حکومت میں اضافہ
ہوتاہے جن لوگوں کو سزا دینا چاہیے اور عوام ان کو منتخب اسلئے کرتی ہے کہ
وہ ہمارے خون چوسنے والوں کا احتساب کریں لیکن بعد ازاں یہ لوگ خود کر پشن
کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔قارئین کو یا د دلاتا چلوں کہ پیپلز پارٹی کے ایک
وزیر جس کے نام کے آخر میں جتوئی آتاہے۔ پورا نام یاد نہیں انہوں نے کوئٹہ
میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہاتھا کہ کرپشن کرنا ہمارابھی حق ہے جس طرح
دوسری جمہوری اور فوجی حکومتوں میں کرپشن ہوتی ہے اسی طر ح ابھی ہمارا نمبر
ہے کہ ہم کھل کر کرپشن کریں ۔ وزیر صاحب کا یہ کہنا کوئی انوکھی بات نہیں
تھی بلکہ انہوں نے صرف میڈ یا کو خاموش کرانے کے لیے یہ کہا تھا کہ کرپشن
پر ہمارا بھی اتنا حق ہے جتنا کسی آور کا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کا یہ دور
جس کی سربراہی آصف علی زرداری کر رہے تھے نے اتنی کرپشن کی ہے جس کا حساب
جو صرف ریکارڈ پر ہے اربوں ڈالر بنتا ہے جو ریکارڈ پر نہیں ان کا تو کہی
ذکر ہی نہیں ہوتا۔زرداری صاحب کے بارے میں تو مشہور تھا کہ انہوں نے
وزراتوں کودو دو دفعہ بھیجا تھا ۔ زیادہ تر معاملات کیش پر ہی ہوا کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی میں بہتر ین وہ تھا جو زیادہ کرپشن کرتا تھا ۔ کرپشن کھلے عام
ہوا کرتی تھی ، نیچے سے اوپر تک کرپشن کا بازار گرم تھا ۔
مجھے یاد ہے قارئین کو بھی یاد ہوگا کہ پیپلز پارٹی اور اصف زرداری کی ان
کر پشن اور ملک کولوٹنے پر شہباز شریف نے کہا تھا کہ میں نے اگر اپ سے سارا
پیسہ نہ نکلا تو میرا نام شہباز شریف نہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میں اپ کو
لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت بنی۔ ابھی تک ان
ڈھائی سالوں میں پیپلز پارٹی کا ایک کیس بھی کرپشن کاوفاق حکومت نے اوپن
نہیں کیابلکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا ایک دوسرے کو بچانے کی سیاست
کررہی ہے ۔ میڈیا کا بھی زیادہ تر حصہ مسلم لیگ نون نے کنٹرول کیا ہے یا
خریدا ہے جس کی وجہ سے نا پیپلز پارٹی کی کر پشن پر بات ہوتی ہے کہ جب اس
وقت کر پشن کی داستا نیاں سنائی جاتی تھی ان سے آج مسلم لیگ کی حکومت کیوں
نہیں پو چھتیاور آج جو کرپشن ہو رہی ہے اس پر ہمارا میڈیا کیوں خاموش ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ زیادہ تر کرپشن تو بیورو کر یٹ اور
افسران کرتے ہیں ۔ سیاست دان تو خوامخواہ کے بدنام ہے۔عرض صرف یہ ہے کہ ان
افسران سے پو چھنا ہمارا نہیں بلکہ سیاست دانوں اور حکومت کاکام ہے کہ کرپٹ
افسران کا احتساب کریں۔اب جب قومی ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں بالعموم
اور کراچی میں بالخصوص کاررائیاں ہو رہی ہے ۔ان کرپٹ لوگوں کو پکڑنے کا
سلسلہ شروع ہوچکا ہے جن کا تعلق یا کرپشن کا پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہو
رہا تھا۔ اس کی شروعات ایم کیوایم سے ہوئی جو اب پیپلز پارٹی کی جانب بڑھی
۔ پی پی پی کااہم رہنمااور زرداری صاحب کے دست راس سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر
عاصم حسین کو پکڑا گیا جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم
کی عدالت سے گرفتاری کا حکم جاری ہوا ۔ اس پر زرداری صاحب کی پیپلز پارٹی
کافی سیخ پا ہوئی ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اس کو سندھ پر حملہ قرار دیا۔ جبکہ
ہمارے بعض دانشور اور کالم نگار اس کو رائٹ اور لفٹ کی لڑائی سمجھ رہے ہیں
اور بعض تو ان کارروائیوں کوسیکولر جماعتوں یعنی ایم کیوایم، پیپلزپارٹی
اور اے این پی کے خلاف مخصوص قوتوں کی جنگ سمجھا رہے ہیں کہ ملک سے سیکولر
جماعتوں کے خاتمے کے لیے یہ کاررائیاں ہورہی ہے۔ ان لو گوں کے لیے صرف اتنا
عرض ہے کہ یہ صرف اپ کی ذہنی سوچ ہے باقی کچھ نہیں پاکستان میں رائٹ اور
لفٹ کی جنگ ختم ہوچکی ہے۔ مذہبی اور سیکولر کی باتیں خود ان پارٹیوں میں
بھی نہیں رہی۔ خصوصاًنائن الیون کے بعد سے دنیا کا اور پاکستان کی سیاست
اور سوچ میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ خاص کر نئی نسل کو تو رائٹ اور لفٹ
کی لڑائی اور اختلافات کاپتہ بھی نہیں اور نا ہی نئی نسل کو اس میں دلچسپی
ہے۔نئی نسل کو اس بات سے غرض ہے کہ کر پشن کرنے والوں کا راستہ روکا جائے
اور جنہوں نے کر پشن کی ہے ان لوگوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ان کا تعلق
پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم یا اے این پی سے ہو ۔ کرپشن کرنا مسلم لیگ ، پی
ٹی آئی ،جماعت اسلامی اور جمعیت علمااسلام سمیت کسی کوبھی معاف نہیں بلکہ
جو لوگ بھی کر پٹ ہے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، ان کا پیسہ دہشت گردی
میں استعمال ہو یا نہ ہو،ان لوگوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ عوام کو
دووقت کی روٹی نہیں ملتی، طلبا ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھاکر دفتروں کے چکرلگا
رہے ہیں غربت کی وجہ سے خودکشیاں ہو رہی ہے جب کہ ہمارے حکمران اور سیاست
اربوں کی کرپشن کریں اورجب ریاستی ادارے ان کے خلاف کارروائی شروع کریں
توہم کو رائٹ اور لفٹ ، مذہبی اور سیکولر کی خلاف کارروائی سمجھے تو اس سے
بڑی بدقسمتی ہماری نہیں ہو سکتی۔
یہ حقیقت اب سب پر عیاں ہے ۔ رپورٹز بھی موجود ہے کہ کراچی کے امن کو تباہ
کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں ایم کیوایم سمیت پیپلز پارٹی ، سنی تحریک اور اے
این پی شامل ہے۔ اسی طرح کر پشن کی تمام حد یں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں
توڑی گئی تھی ۔ اب بھی وہ سلسلہ سندھ میں جاری ہے جب کہ باقی ملک کے حالات
بھی مختلف نہیں ۔ احتساب کے نام پر ادارے برائے نام ہے بلکہ اس میں بھی کر
پشن ہورہی ہے۔
ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کا جو سلسلہ قومی ایکشن پلان کے تحت کرئمنلز
گروپوں، ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے خلاف شروع ہے ان کا دائرہ بڑ ھنا
چاہیے صرف کرائمنلز کے خلاف نہیں بلکہ کرپٹ لو گوں کو بھی اس میں شامل کر
نا چاہیے اور ان سے ملک کا لوٹا ہوا پیسہ نکلنا چاہیے۔باخبر حلقوں کا کہنا
ہے کہ اب یہ سلسلہ روکنے والا نہیں بلکہ اب یہ باری دوسری سیاسی جماعتوں کے
خلاف بھی شروع ہونے والا ہے جس میں مذہبی جماعتیں اور حکمران بھی شامل ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے استادوں کو کب پکڑا جائے گااور نیب میں ایک سو
پچاس کیسز پر کارروائی کب شروع ہوگی۔
|
|