موجودہ حالات سے اہالیان کراچی مطمئن ہی نہیں بلکہ بہت
خوش ہیں ،لیکن اس خوشی کے ساتھ وہ ایک انجانے خوف کا بھی شکار ہیں ۔پچھلے
30برسوں سے کراچی والے یہی تماشہ دیکھ رہے ہیں کہ انھیں جو خوشی نصیب ہوتی
ہے وہ عارضی ثابت ہوتی ہے ،تھوڑی دیر کے لیے سایہء ابر آتا ہے اس کے بعد
وہی جلتی دھوپ ،ایک درخت نظر آتا ہے جس کے نیچے ٹھنڈی چھاؤں میں فرحت بخش
ہواؤں کا لطف لیتے ہیں کہ کوئی آتا ہے اور وہ درخت کاٹ دیتا ہے اور پھر
تپتے صحرا اہل کراچی کا مقدر بن جاتے ہیں ۔کراچی والوں کے لیے بہار کا موسم
بس ذرا سی دیر کے لیے آتا ہے اس کے بعد خزاں ہی خزاں ۔حکومتوں پر سے
باشندگان کراچی کا اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے کہ امن و امان کے حوالے سے ان
کے بیانات ،دعوے اور وعدے کاغذی گھوڑے ثابت ہوتے ہیں ۔
اس وقت جو آپریشن چل رہا ہے اس سے اہل کراچی نہ صرف خوش ہیں بلکہ ہر گلی
اور محلوں کی محفلوں عام لوگوں کا موضوع گفتگو موجودہ آپریشن اور اس کے
اثرات کے بارے میں میں ہے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ
بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہو اور وہ بھی ایسی مچھلیاں جو برسراقتدار
گروہ کے تالاب کی ہوں ۔ابھی کل ہی ایک صاحب بتارہے تھے جو بظاہر تو بڑی
چھوٹی سی بات ہے لیکن یہی چھوٹی چھوٹی باتیں معاشرے پر بڑے اثرات مرتب کرتی
ہیں کہ وہ سپر ہائی وے کی منڈی گئے تو ایک جگہ پارکنگ کا انتظام تھا انھوں
نے گاڑی کھڑی کی ایک بندہ آیا اس نے انھیں پرچی دی وہ حسب روایت جیب میں
ہاتھ ڈالنے لگے کہ انھیں پارکنگ فیس دینا ہوگی ،لیکن اس نے کہا نہیں کوئی
فیس نہیں ہے۔پھر وہاں جگہ جگہ یہ لکھا ہوا ہے کہ کسی جگہ کسی فرد کو ئی
پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ورنہ اس سے قبل تو یہ صورتحال تھی کہ بائیک
کھڑی کرنے کے پیسے ،جہاں سے جانور کو ٹرک پر چڑھایا جاتا ہے وہاں کے پیسے
،جو سوزوکی یا ٹرک جانوروں کو لے کر مویشی منڈی سے باہر نکلے گا تو وہاں پر
موجود لڑکوں کو فی جانور کے حساب سے پیسے دینا پڑتا تھا اور یہ سب ایم کیو
ایم کا بنایا ہوا سٹ اپ ہوتا تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پبلک تو دور کی بات
ہے پولیس جیسے ادارے کو بھی یہ ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان سے پوچھ سکے آپ
لوگوں نے یہ لوٹ مار کس کے کہنے سے اور کیوں مچاکر رکھی ہوئی ہے ۔الاعظم
اسکوائر لیاقت آباد اور ریلوے لائن کی پٹری کے ساتھ عارضی مویشی منڈی بنتی
تھی اس دفعہ ہوگی یا نہیں لیکن پچھلے سال یہ صورت تھی کہ مین روڈ سے اندر
جانے کے بیس روپئے فی بائیک ،پھر اندر پارکنگ کے دوبارہ بیس روپئے وہاں
بیٹھے لڑکوں کو دینا ۔جولوگ وہاں پر اپنا مال بیچنے کے لیے ایک شامیانے کی
جگہ لیتے تو ان سے بھاری فیس لینے کے علاوہ اگر آپ اپنا کوئی پالتو جانور
بیچنے کے جاتے کہ اس کو بیچ کر کوئی گائے وغیرہ لے لیں گے تو آپ کو منڈی
میں داخل ہوتے وقت 150روپئے فی بکرا کے حساب سے وہاں بیٹھے مسلح لڑکوں کو
دینا پڑتااب آپ کا یہ جانور اس دن بکے یا نہ بکے اس سے انھیں کوئی سروکار
نہیں آپ دوسرے دن لے کر جائیں گے تو پھر آپ کو وہی رقم دینا ہوگی ۔کوئی
جانور خرید کر باہر جارہے ہوں تو گاڑی والے سے سو روپئے اور دو سو روپئے
بالترتیب چھوٹے اور بڑے جانوروں کے حساب سے وصول کیے جاتے جس کا بار خریدار
پر پڑتا اب اگر آپ کسی مرحلے پر بحث و مباحثہ کریں تو مسلح افراد آپ کے گرد
جمع ہو جائیں گے اس میں کوئی تڑی اور دھمکی سے بات کرے گا کوئی نرمی اور
ملائمیت سے سمجھانے کی کوشش کرے گا اس کے باوجود اگر کوئی بندہ ان کی جان
کو اٹک جائے تو اسی بھیڑ میں سے کچھ سنجیدہ ٹائپ کو لوگ نکل کر سامنے آئیں
گے جو مصالحت کنندہ کا کردار ادا کریں گے اور دونوں کو سمجھانے کی کوشش
کریں گے ان ہی میں سے کوئی صاحب سخی داتا بن کر انتظام کار لڑکوں سے کہیں
گے کہ یار چلو ان کے پیسے ہم دے دیتے ہیں چھوڑو لڑنا جھگڑنا اچھی بات نہیں
،وہ شخص کہے گا کیوں صاحب آپ کیوں دیں گے دینے کو تو میں بھی دے سکتا ہوں
لیکن مجھے بتایا جائے کہ کس اصول کے تحت یہ پیسے لیے جارہے ہیں،وہ مصالحت
کنندہ صاحب کہیں گے ارے صاحب چھوڑیے آپ جایے میں انھیں سمجھا دوں گا محلے
کے بچے ہیں آ پ لوگوں کی حفاظت کے لیے بیٹھے ہیں پھر پولیس والوں کو بھی
کچھ لینا دینا پڑتا ہے ۔وہاں پر ان کا مقصد لڑنا نہیں بلکہ رعب میں لے کر
دہشت زدہ کرنا ہوتا ہے ،اس طرح کی بحث کرنے والوں کے بارے میں وہ لڑکے اس
خوف کا بھی شکار ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس شخص کی نائن زیرو یا لندن سکرٹریٹ
تک اپروچ نہ ہو جب ہی تو اتنا اکڑرہا ہے ۔
یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ایسے تو سیکڑوں کھانچے ہیں اس کے لیے پوری
ایک کتاب بن سکتی ہے عید بقرعید کے مواقعوں پر ہر مارکیٹ اور شاپنگ سنٹروں
میں مقامی یونٹ اور سیکٹر ازخود پارکنگ کا سٹ اپ بنالیتے ہیں اور فیس کا
تعین بھی خود کرتے ہیں بائیک کھڑی کرنے کے بیس روپئے اور کار یا سوزوکی کے
پچاس روپئے ۔ریاست کے اندر ریاست کی ایک مثال پیش خدمت ہے ایک فیملی نے
عزیزآباد نمبر 2میں ایک مکان کرائے پر لیا جب گھر کے سامان سے لدا ٹرک
پہنچا تو یونٹ کے ایم کیو ایم کے لڑکے آگئے اور پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے
ہیں تو انھیں بتایا کہ شریف آباد سے آئیں ان لڑکوں نے کہا کہ آپ سامان نہیں
اتار سکتے جب تک آپ شریف آباد کے یونٹ سے این او سی لے کر نہ آجائیں اس
فیملی کا سامان دن کے دو بجے پہنچا تھا فیملی کو لوگ بہت پریشان ہوئے کوئی
جان پہچان نکال کر وہ شریف آباد کے یونٹ پہنچے تو معلوم ہوا کہ دفتر بند ہے
رات کو کھلے گا فیملی کی خواتین پڑوس کے گھر میں بیٹھ گئیں اور سامان کا
ٹرک رات تک کھڑا رہا پھر جب وہ شریف آباد کے یونٹ سے این او سی لکھوا کر
لائے اور اسے عزیز آباد کے یونٹ میں جمع کرایا تو تب کہیں جاکر انھیں سامان
اتارنے دیا گیا ۔
آج کل جو آپریشن چل رہا ہے اس سے لوگ خوش تو ہیں لیکن خوف زدہ اس لیے ہیں
کہ سابقہ ادوار میں بھی اس قسم کی خوشی عارضی خوشی ثابت ہوئی ۔لوگ یہ بات
جان رہے ہیں کہ یہ سب کچھ راحیل شریف صاحب کی ایمانی جرات کی وجہ سے ہورہا
ہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کو سال ڈیڑھ سال باقی ہیں لیکن اس سے قبل بھی انھیں
ہٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور نہ بھی ہٹے تو ایک سال بعد موجودہ نواز
شریف کی حکومت ان کی مدت ملازمت میں کسی بھی طرح توسیع نہیں کرے گی ،اور
اگر یہ چلے گئے تو یہ آپریشن ختم نہیں تو اس کی سختی میں کمی ضرور ہو جائے
گی ۔سیاست دانوں پر عام پبلک بالخصوص کراچی کے شہریوں کو اعتماد نہیں ہے
سچی بات تویہ ہے کہ نواز شریف صاحب کو کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ان کی
توجہ ساری پنجاب پر ہوتی ہے کہ جب وہاں سے کامیابی پر پورے ملک کا اقتدار
مل جاتا ہے تو کراچی کی کھکھیڑ پالنے کی کیا ضرورت ہے،اسی طرح آصف زرداری
صاحب کی سوچ یہ ہے کہ ساری توجہ سندھ پر مرکوز رکھی جائے تاکہ سندھ کارڈ کو
مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے کراچی میں تو جو، ان کے علاقے ہیں وہاں سے
نشست تو مل ہی جائے گی ۔عمران خان اور جماعت اسلامی سے کچھ توقعات وابستہ
ہے کہ جماعت اسلامی کا تجربہ تو اہل کراچی کو ہو چکا ہے دو مرتبہ اس شہر کو
جماعت کی طرف سے ایماندار قیادتیں ملی ہیں ۔
پچھلے دنوں ملک کے معروف صحافی اور دانشور جناب انصار عباسی صاحب نے ایک
کالم میں جناب راحیل شریف صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے خوش آمدیوں کی
ان باتوں میں نہ آئیں کہ آپ مکمل احتساب کے لیے ٹیک اوور کرلیں انھوں نے
اپنے کالم میں اچھی نصیحتیں کی ہیں ،اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جو
شخص ملک کے بڑے بڑے ڈاکوؤوں پر ہاتھ ڈال رہا ہے وہ خود کیسے اقتدار پر ڈاکا
مار سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجو د آپ پبلک کے دل کو کیسے مطمئن کریں گے جو
یہ سمجھتے ہیں کہ کہ اگر راحیل شریف نہ رہے تو اس آپریشن کی ساری کہانی
لپیٹ دی جائے گی اور سارا کیا کرایا غارت ہو جائے گا ۔یہی وہ خوف ہے جس نے
کراچی کے لوگوں کی آج کی خوشی کو اندیشوں میں گھیرا ہوا ہے۔ |