اپیکس کمیٹی کا متوقع اجلاس

وزیر اعظم نواز شریف نے 10ستمبر کو ایپکس کمیٹی کااہم اجلاس طلب کیا ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ،افواج پاکستان کے تینوں سربراہان ،وزیر داخلہ اور رینجرز کے ذمہ داران شریک ہو ں گے ۔یہ بہت اہم اجلاس ہے جس میں بیشتر خارجی اور داخلی امور زیر بحث آئیں گے ۔اس وقت سب سے اہم مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خدشات ہیں ۔بھارت کی طرف سے جو سرحدی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں یہ کسی کی شے پر ہی ہورہی ہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری سے اصل تکلیف امریکا ،بھارت اور اسرائیل کو ہے اور ویسے بھی امریکا کی طرف سے بار بار یہ کہنا کہ پاکستان اور ہندوستان اپنے معاملات مذاکرات سے حل کریں جب کہ بھارت کی طرف سے جو مسلسل سرحد ی خلاف ورزیاں ہو رہی ہے اس پر امریکا کی طرف سے مشکوک خاموشی ماحول میں ابہام پید کررہی ہے ایسے میں امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس کا دورہ ہوا جس میں صدر ابامہ کی طرف سے نواز شریف صاحب کے دورے کا دعوت نامہ دیا گیا ، لیکن بیشتر تجزیہ نگار کی رائے ہے کہ اس دعوت نامے کے بین السطور اور بہت سی باتیں تھیں جو پاکستان کے لیے امید افزاء پیغام نہیں ہے اسی لیے پاک بھارت جنگ کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔اس مسئلے پر ضرور اس اہم اجلاس میں کوئی لائحہ عمل شکیل دیا جائے گا۔

خارجہ امور کے حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ پاک افغان تعلقات ہیں سرتاج عزیز صاحب جو افغانستان کے دورے پر ہیں وہاں انھوں نے افغان قیادت سے ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے اور افغان میڈیا میں جاری پاکستان مخالف مہم ختم کرنے پر بات چیت کی ہے ،سفارتی عملے کو سیکوریٹی دینے کا مطالبہ کیا ہے ہوسکتا ہے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں سرتاج عزیز صاحب بھی اپنے دورے کی رپورٹ رکھیں ۔تیسرا مسئلہ شاید اس پر غور ہوعرب ممالک سے تعلقات میں سردمہری جو بڑھتی جارہی ہے اور بھارت کے وزیر اعظم کا ابو ظہبی کے دور ے میں جو معاملات طے ہوئے ہیں ہیں اس میں پاکستان کے لیے کوئی خوش کن خبر نہیں ہے ۔

ابھی حال ہی میں وزیر داخلہ جناب چودھری نثار صاحب نے برطانیہ کا طویل دورہ کیا اس کی رپورٹ بھی دلچسپ ہو گی اس لیے کچھ عرصے پہلے تک یہ بات سننے میں آرہی تھی برطانیہ سے تحویل ملزمان کا کوئی معاہدہ ہونے والا ہے جس میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے برطانیہ جن ملزمان کو مانگ رہا ہے اس کے جواب میں پاکستان نے برطانیہ سے ان لوگوں کو مانگا تھا جن کا تعلق بلوچستان سے تھا اور وہ آزاد بلوچستان کی مہم چلارہے تھے لیکن پچھلے چند ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں ہے بلوچستا ن کے باغی حضرات ہتھیار ڈال کر پاکستان سے وفاداری کا اظہار کررہے ہیں ۔اسی طرح لندن میں بہت سے بلوچی رہنماؤں نے حکومت پاکستان کے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا کچھ لوگوں نے چودھری نثار صاحب سے بھی ملاقات کی۔اس لیے ابھی دودن قبل اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے محسن علی سید سے جو تفتیش کی ہے اس میں تحقیقاتی ٹیم کو بہت حوصلہ افزا کامیابی حاصل ہوئی ہے جس میں سات افراد کے نام لیے گئے ہیں جن میں سے پانچ تو اس وقت لندن میں موجود ہیں اور دو باہر ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محسن علی نے کس کے کہنے سے یہ سب کچھ کیا ۔دوسری طرف اسحاق ڈار صاحب اس بات پر حیرانگی کا اظہار کررہے تھے رات تک ایم کیو ایم کے وفد سے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے تما معاملات طے ہو چکے تھے لیکن اچانک صبح پانچ بجے فاروق ستار صاحب کی پریس کانفرنس میں تین مطالبات کی شرط رکھ کر مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا ۔اسحاق ڈار صاحب نے کہاکہ ا یم کیو ایم کے یہ تینوں مطالبات کے انھیں فلاحی کاموں کی آزادی دی جائے سیاسی سرگرمیوں کی آزادی دی جائے اور یہ کہ الطاف صاحب کی تقریروں کے نشر ہونے کے سلسلے میں جو پابندی لگائی گئی ہے اسے ختم کیا جائے پر یہ بات طے ہو چکی تھی مجوزہ کمیٹی کی تشکیل کے بعد اس میں یہ مطالبات رکھے جا سکتے ہیں ۔اور اس پر ایم کیو ایم کے وفد نے بات مان لی تھی انھوں نے یہ بھی کہا کہ تقریروں پر پابندی تو ہائی کورٹ نے لگائی ہے ۔بعض خبریں اخبارات میں اشارۃَ ایسی شائع ہوئی ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسکاٹ لینڈیارڈ کی ٹیم نے محسن علی سید سے جو تفتیش کی ہے اس نے شاید لندن میں پریشانیوں کو بہت بڑھا دیا ہے اور وہیں سے اچانک کوئی ایسا حکم آیا ہے جس میں حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اچانک مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔

اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس پہلو پر بھی غور و خوض ہو سکتا ہے کہ برطانیہ تحویل ملزمان کا معاہدہ کیا جائے یا نہیں ،اس لیے کے برطانیہ نے عمران فاروق قتل کیس میں تیزی سے پیشرفت کے لیے محسن علی سید کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے لیے وہ دونوں ملکوں ک درمیان تحویل ملزمان کے معاہدہ کرنا چاہتا ہے جب کہ ہمارے حکمران شاید کسی خطرے کے پیش نظر اس پر تیار نظر نہیں آتے یہ وہ اہم مسئلہ ہوگا جس پر اہم فیصلے کیے جائیں گے ۔

آج کے اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ حکومت الطاف حسین سے براہ راست مذاکرات پر غور کررہی ہے اور مولانا فضل الرحمن کو یہ ٹاسک دے دیا گیا ہے اور یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ایم کیو ایم کی واپسی کسی بڑے پیکج کے ساتھ ہوگی اور وزیر اعظم خود مطالبات پر عمل کرائیں گے اس طرح کی خبروں سے کراچی کے شہری تھوڑا سا پریشان ہو جاتے ہیں کہ کہ اگر کراچی میں دہشت گردی کے خلاف جو مہم چل رہی ہے اس میں ذرا سی بھی ڈھیل دی گئی تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہو جانے کا ندیشہ ہے ایم کیو ایم کی کوشش اور خواہش یہ ہے کہ انھیں عید الاضحیٰ میں کھالیں جمع کرنے کا موقع دیا جائے جب کہ رینجرز کا کہنا یہ ہے کہ ہم کسی کو کھالوں پر ڈاکا مارنے نہیں دیں گے ۔اس طرح کے ماحول میں عام لوگ تو خوش ہیں کہ انھیں اس دفعہ اپنی مرضی سے کھالیں دینے کی آزادی ہو گی ۔اسی طرح سیاسی آزادی کا مطلب بیشتر تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخاب میں ایم کیو ایم کو سابقہ انتخابات کی طرح فری ہینڈ دیا جائے ،تیسرا مسئلہ الطاف صاحب کی تقریروں کا ہے ۔لیکن کچھ سیاسی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے تیزی سے ہونے والی پیشرفت پر جو سراسیمگی کراچی سے لندن تک چھائی ہوئی ہے اس میں ایم کیو ایم حکومت پاکستان سے آس لگائے بیٹھی ہے ۔

ہمیں امید ہے ان تمام اہم اور حساس اشوز پر ہماری سیاسی اور فوجی قیادتیں ایک صفحہ پر ہوں گی ،ان شاء اﷲ
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.