مولانا سمیع الحق، ایک عہدساز شخصیت
(Amir Jan Haqqani, Gilgit, Diamar)
مولانا سمیع الحق سے میری صرف دو
ملاقاتیں ہوئی ہیں۔پہلی بار اس وقت جب مولانا پارلیمانی وفد کے ساتھ جرمنی
سے بیلجیئم جاتے ہوئے آئرپورٹ میں گرفتا کیے گئے تھے۔ میں ان دونوں
دارالعلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث مولانا مغفوراللہ(باباجی صاحب) کے بیٹے
برادرم منصوراللہ کے ساتھ جامعہ فاروقیہ سے ششماہی تعطیلات گزارنے کے لیے
دارالعلوم اکوڑہ خٹک آیا تھا اور باباجی کے چھوٹے سے گھر میں ٹھہراہوا تھا۔
ہم باباجی کے ساتھ ان کے کمرے بھی بیٹھے تھے کہ اچانک مولانا سمیع الحق
صاحب کا وُرود ہوا۔ چارپائی پر بیٹھ گئے اور باباجی سے باتیں شروع
کی۔بیلجیئم میں ہونے والی گرفتاری کا ماجراپشتو زبان میں سنارہے تھے تو میں
نے مداخلت کی کہ حضرت! اگر اردو میں بات کریں تو مہربانی ہوگی۔ مولانا سمیع
الحق صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے تو میں نے کہا کہ میرا نام امیرجان حقانی ہے۔
کہنے لگے کہ کیا آپ جامعہ حقانیہ کے فاضل ہیں۔ میں نے نفی میں جواب دیا۔
پوچھا تو کیا آپ ہماری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جواب نفی میں پاکر مولانا
صاحب نے پوچھا پھر آپ حقانی کیسے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ حضرت لاشعوری
سے حقانی ہوں اور اب آپ کی محبت بھی غالب آچکی ہے۔ جس پر کمرہ قہقہوں کی
گونج سے زردزعفران بن گیا۔
مولانا سمیع الحق کی ذات گرامی علمی،ادبی، سیاسی، مذہبی، جہادی، صحافتی اور
دینی حلقوں کے لیے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ پاک
وہند کی بنجرزمین کی سرسبزی وشادابی میں مولانا سمیع الحق کا حصہ سب پر
بھاری ہے۔مملکت عزیز کی دینی و قومی روایات کے تحفظ ، بدعات و خرافات میں
توحید و سنت کی شمعیں روشن کرنے،احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ،مجاہد، عالم،
محدث و مفسر، مناظر و متکلم، قاری و حافظ اور فقیہ و مفتی اور ادبی و
صحافتی شہسواروں کی فوج تیار کرنے میں مولانا کی شخصیت اور ان کا ادارہ
ستاروں میں چاند کی مانند ہے۔انشاء و نثرنگاری اور تصنیف وتالیف اور تحقیق
میں مولانا کا نام سرفہرست ہے۔اپنے دور کے ایک نامور خطیب ہیں، مولانا نثر
میں ایک خاص طرز اور اسلوب کے موجد ومالک ہیں، الفاظ اور تراکیب کے حسن اور
اندازِ بیان سے عبارت میں ایک مخصوص رنگ جھلکتا ہے،واقفانِ حال سمجھتے ہیں
کہ آپ کی تحریر میں ابوالکلام آزاد اور شورش کاشمیری کی مکمل جھلک نظرآتی
ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا سمیع الحق اردو زبان کے
ممتاز اورصاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ سحرالبیان مقرر و خطیب بھی ہیں۔مولانا
موقع محل کے مناسب ایسا انداز گفتگو کرتے ہیں کہ ہر مقام پر جدت و ندرت اور
شائستگی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جب مولانا نے قلم
اٹھایا تو علمی دنیا کے شہنشاہ ادب بن گئے۔ان کی کتابیں گواہ ہیں کہ وہ
صاحب تخلیق اور بے مثال انشاپرداز کی شکل میں نصف صدی سے زیادہ عرصے سے
اسلامی ادبی دنیا پر حکومت کررہے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مؤرخ نے ان کے
ساتھ درست انصاف نہیں کیا۔آج ہماری اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مولانا
کی ان اعلیٰ کارکردگیوں کو منظرعام پر لائیں جو سیاسی و علاقائی عصبیت کے
پردے میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔نسلِ نو کو ان جیسے جلیل القدر علماء سے صحیح
آشنا کروانے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالقیوم حقانی نے مولانا سمیع الحق حقانی کی سوانح عمری ضبطِ
تحریر میں لائی ہے۔ یہ کتاب دوجلدوں میں ہے جو آج (15-05-15) ہی مجھے موصول
ہوئی۔ انتہائی خوبصورت ٹائٹل اور کاغذ میں چھپی اس کتاب میں مولانا سمیع
الحق کی ذات کے ہزاروں پَرتو نظرآتے ہیں۔اس کتاب کے مطالعے سے یہ تاثرات
زائل ہوجاتا ہے کہ مولانا سمیع الحق کوئی پاکستانی نامور لیڈر ہے اور ایک
بڑے مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بلکہ مولانا ایک عالمی رہنماء کے طور
پر ابھرتے ہیں۔مولانا عبدالقیوم حقانی نے انتہائی عرق ریزی سے ''مولانا
سمیع الحق، حیات و خدمات'' کو مرتب کیا ہے۔ گو کہ اس کتاب میں مولانا کی
پوری زندگی کا احاطہ نہیں مگر اہم حصوں کا احاطہ ضرور ہے۔ مولانا نے
انٹرنیشنل پریس کو جتنے انٹریو دیے ہیں ان کے متعلق بھی معلومات ہیں۔
انٹرنیشنل پریس کو جو انٹرویو دیے ہیں ان کو ''صلیبی دہشت گردی اور عالم
اسلام'' کے نام سے الگ کتاب چھپی ہے۔ پڑھنے کی چیز ہے۔ عالمی حالات و
خیالات اور موجودہ کروسیڈ سے مکمل آگاہی حاصل ہوجاتی ہے۔ مولانا سمیع الحق
کی ایک کتاب ''مکاتیبِ مشاہیر'' ہے جو دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب ثابت
کرتی ہے کہ مولانا سمیع الحق ایک عالمی لیڈر ہے۔ اردو ،فارسی، عربی ، انگلش،
فرانسیسی اور جرمنی ،غرض کسی بھی زبان میں اتنی تعداد میں ہل علم، دانشو ر
واسکالر،اولیاء و صوفیائ، محققین ومحدثین ، سیاست دان و حکمران، صحافی و
ادیب بلکہ مختلف الجہت بااثر لوگوںخطوط جمع کیے گئے ہوں ممکن نہیں۔ میں نے
کئی دن انٹرنیٹ پر سرچ کیے مگر ناکامی ہوئی اور نہ ہی خطوط کی ایسی دستاویز
کا کہیں اشارہ ملا۔اس کتاب میں شیخ الاسلام تقی عثمانی صاحب کے غالباً
بیاسی خطوط ہیں۔
تحریک ختم نبوت کی کامیابی میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ان کی کتاب
''قادیانیت، ملت اسلامیہ کا موقف'' اور دوسری کتاب ''قومی اسمبلی میں اسلام
کا معرکہ'' اس پر دال ہے۔مولانا کی ایک کتاب انگلش میں ہے۔ یہ بھی انٹرنیشل
پریس کو دیے گئے انٹرویو ز پر مشتمل خلاصہ ہے۔برطانوی صحافی ایون ریڈلی
(مریم) نے اس پر تبصرہ لکھا ہے۔ جہاد افغان میں ان کی خدمات ایک مکمل روشن
باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے شریعت بل کی ایک طویل داستان ہے۔ان کی کتاب
''شریعت بل کا معرکہ'' لائق صد تحسین ہے۔مولانا کی زندگی کا سب سے حیران کن
باب''قومی اسمبلی میں شریعت بل، نفاذشریعت کی سیاسی و پارلیمانی جدوجہد اور
افغان جہاد اور افغان لیڈروں سے تعلق کا ہے۔مولانا کے اسمبلی کے مشترکہ
فورم سے جتنے بھی خطاب ہوئے ہیں پڑھنے اور سننے کے قابل ہیں۔سینٹ کے
چیئرمین جناب صدر اسحق خان صاحب کے سامنے ایون بالا(سینٹ) میں شریعت بل کا
مقدمہ کے عنوان سے کی گئی تقریربار بار پڑھنے کے قابل ہے۔سینٹ سیکرٹریٹ کے
ریکارڈ میں موجود ہے۔اسمبلیوں میں تحفظ اہل بیت و تحفظ صحابہ پر مولانا کی
تقاریرریفرنس کا کام دیتی ہیں۔
دنیا کے تمام بڑے لیڈروں، ریاستی سربراہوں، علمی و ادبی زعماؤں اور نامور
شخصیات نے مولانا کو تفصیلی خطوط لکھے ہیں۔ ایران کا صدر ہو یا سعودی عرب
کا بادشاہ، افغانستان کے حکمران و مجاہد رہنماء ہوں یا عراق و فلسطین کے
زعمائ، نئی دنیا کے کرتا دھرتاؤں سے لے کر تیسری دنیا تک کے بااثرلوگ و
حکمران طبقے کے ساتھ مولانا کسی نہ کسی صورت میں رابطے میں نظرا تے ہیں
۔دارالعلوم حقانیہ اور مولانا واحد انسان ہیں جن سے پاکستان کے کسی بھی
ادارے اور لیڈر سے زیادہ مغربی دنیا نے انٹرویو قلمبند کیے۔جدید دنیا کے ہر
معتبر میڈیافورم نے ان سے طویل طویل انٹرویوبار بار کیے۔
گزشتہ دنوں ایک فیس بکی دوست کی نشاندہی پر مولانا کی پچاس سال پہلے لکھی
کتاب ''اسلام اور عصر حاضر'' کا بالاستعیاب مطالعہ کیا۔اس کے بعداس نتیجے
پر پہنچا کہ مولانا کی تحریر میں رعنائی بھی ہے اور تازگی بھی۔بیان میں
سچائی اور شگفتگی کے ساتھ عصری تاثرات، خیالات ، نظریات و افکار کا مکمل
احاطہ بھی ہے اور سماجی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور ان کی دین اسلام
سے رہنمائی اور ترجمانی سے مولانا ایک مکمل صاحب طرز فنکار نظرآتے ہیں۔کیا
میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ عرض کرسکتا ہوں مولانا کی کتابوں میں سیاسی
شعور کی پختگی، مذہبی و سیاسی نظریوں اور رویوں میں استحکام بدرجہ اتم
موجود ہوتا ہے۔مولانا کے انداز نگارش نے انہیں بلند پایہ صحافیوں، قلم
کاروں اور انشاپردازوں میں لاکھڑا کردیا ہے۔ان کی کتاب '' اسلامی معاشرہ کے
لازمی خدوخال'' بہت پیاری کتاب ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں سوشل لائف کو
بیان کیا ہے۔
غالباً مولانا عدنان کاکاخیل کی کسی تحریرمیں پڑھا تھا کہ پختون علماء میں
سب سے اچھی اردو مولانا سمیع الحق صاحب لکھتے ہیں۔ اس پر مستزاد میں یہ
کہونگا کہ ادب و انشاء کی دنیا میںپختون علماء نہیں بلکہ پورے پاکستان کے
علماء وادباء میں مولانا کا مقام بہت عظیم ہے۔اور خصوصاً اردو زبان کی
بقائ، دلکشی و جاذبیت، شیرینی و چاشنی اور سحرانگیزی میں مولانا سمیع الحق
نے اردو کو ایک نئی جہت عطاء کی ہے۔اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کا
برمحل اور خوبصورت استعمال کوئی مولاناسے سیکھے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ
مولانا کے اس مقام کو علمی و ادبی حلقوں میں سامنے لایا جائے تاکہ ان کے
بیش بہا لعل و گوہر سے نوجوان نسل مستفید ہوجائیں۔
اپنی اس مختصر تحریر میں مولانا سمیع الحق کی شخصیت کے تمام پہلواجاگر نہیں
کرسکتا۔ بس اتنا ضرور کہونگا کہ برصغیر کے جید علماء میں یورپ کی آنکھوں کا
سب سے بڑا کانٹا مولانا سمیع الحق ہے۔یورپ کا پورا میڈیا اس بات پر اتفاق
کرتا ہے کہ مولانا سمیع الحق فادر آف طالبان ہے۔ بلکہ فادر آف طالبان
(افغان طالبان) کا لقب بھی مولانا کو یورپی میڈیا نے ہی دیا ہے۔امیر
المومنین ملا عمر سمیت کئی وزراء نے مولانا سمیع الحق سے تعلیم حاصل کی ہے
اور ان کی جامعہ دارالعلوم حقانیہ سے سندفراغت حاصل کی ہے۔یہ بات بھی
ریکارڈ پر ہے کہ جب بھی افغان مجاہدن میں اختلافات ہوئے تو مولانا سمیع
الحق نے ان اختلافات کو ختم کروایا ہے۔ ملاعمر اور اسامہ کے درمیان بھی کئی
بار مولانا سمیع الحق نے رفع دفع کروایا۔ ملی یکجہتی کونسل، ایم ایم اے،
متحدہ دینی محاذ،دفاع افغانستان کونسل، دفاع پاکستان کونسل کے بھی اصل بانی
و خالق مولانا سمیع الحق ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اوروں نے کڈنیپ کیا
۔تحریک ختم نبوت، 1973ء کے آئین کی تیاری،شریعت بل کی منظوری میںپاکستان کی
کسی بھی مذہبی جماعت کے لیڈر یا عالم دین سے سب سے زیادہ کوشش اور کردار
مولانا سمیع الحق کا ہے۔تحریری و تحریکی جدوجہد اوردینی وملی اغراض کے لیے
مولانا سمیع الحق ١٩٥٠ء سے تاحال مسلسل کوشاں ہیں۔نصف صدی تک جمیعت علماء
اسلام کے مرکزی رہنماء رہے۔ان کی تحریکی زندگی بلاشبہ قابل تقلید ہے۔مفتی
محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا عبداللہ درخواستی اور شیخ القرآن
غلام اللہ خان جیسے جلیل القدر علماء کے ساتھ طویل عرصہ تحریکی و سیاسی جد
وجہد کی۔ اب جمعیت علماء اسلام(س) کے تاحیات امیر ہے۔
میں اکیلے بیٹھ کر جب سوچتا ہوں تو مولانا سمیع الحق کی زندگی داستانِ
عزیمت لگتی ہے۔پون صدی پر مشتمل یہ داستان عزیمت ایک عہد کی مکمل تاریخ ہے۔
ایک ایسی داستا ن ہے جس میں لاکھوں اسباق پوشید ہ ہیں۔علم وقلم کی ہو یا
درس و تدریس کی، تحقیق و ادب کی ہو یا تاریخ و تاریخ سازی کی، اعلاء کلمة
اللہ کی ہو یا قومی وملی خدمات کی،قادیانیت کی ترید کی ہو یا فرق باطلہ کے
تعاقب کا، اُمت مسلمہ کی زبوں حالی کا درد کی ہو یا صلیبی دہشت گردی کی
تعاقب کا،نفاذشریعت کے قیام و جدوجہد کی بیتی پارلیمنٹ میں ہو یا میدان جنگ
و محاذ میں،افغان جہاد کی ہو یا امارت اسلامی افغانستان کی، تحریک دفاع
اسلام و افغانستان کی ہو یا دفاع پاکستان کونسل کی،دینی مدارس و جامعات کے
تحفظ کی ہو یا اسلامی کلچر و تہذیب کی دفاع کا، غرض ہر میدان میں یہ مرد
مجاہد صف اول میں نظرآتے ہیں۔اور اپنے نقوش چھوڑتے ہیں۔ میرے نزدیک مولانا
کی علمی شخصیت کا حوالہ و مرتبہ بہت بلند و ارفع ہے۔بلکہ تمام خدمات پر
فائق و اونچا ہے۔ وہ بیک وقت پندرہ سو علماء کو درس دے رہے ہیں۔دارالعلوم
حقانیہ میں انسانی تاریخ کاسب سے بڑے فاضل مجموعے کو سال بھر درس
(لیکچر)دیا جاتا ہے۔ یعنی سال بھر ایک کلاس''دورہ حدیث شریف '' میں پندرہ
سو طلبہ کو درس دیا جاتا ہے اور اس درس کا روح رواں مولانا سمیع الحق دامت
فیوضہم ہے۔اللہ اپنے حفظ و آمان میں رکھے۔
|
|