شاہین اختر
پاک فضائیہ کے لڑاکا ونگز کے علاوہ جنگی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ C-130
کے پاکستانی پائلٹوں نے انجام دیا اور دشمن پر قہر بن کر برستے رہے۔ جب
انہیں پاک فوج کی نقل و حرکت کو حمایت و مدد پہنچانے کے احکامات کی درخواست
پر کہ فضائی بمباری کے لئے نفری فراہم کرتے ہوئے محو حرکت رہنے کی ہدایت کی
گئی تو اس ذمہ داری کے لئے 35ٹرانسپورٹ ونگ کو کہا گیا۔ ونگ کمانڈر زاہد بٹ
جو اس ونگ کی کمان کررہے تھے، نیوی گیٹر فلائٹ لیفٹیننٹ رضوان چوہدری کے
ہمراہ رضا کارانہ طور پر پہلی پرواز کے مشن پر روانہ ہوئے۔ کمانڈر ان چیف
کے ساتھ پرجوش عملے نے 23اگست 1965ء کی سہ پہر 2بجے چکلالہ سے اڑان بھری۔
جنگی طیارہ ہرکولیس 2000lbs کی گنوں، راشن، بارود اور دیگر اشیاء سے بھر
دیا گیا۔ فضائی عملے کی درخواست پر ایلنٹ بی57- بمبار کو بھی ہرکولیس کی
پرواز سے قبل 4000فٹ کی بلندی پر جاکر بھارتی ریڈاروں کی نگرانی کا منصوبہ
بنایا گیا۔ رضوان نے ریڈار کا پتہ چلانے کے لئے وولر جھیل کا رخ کیا اور
بمباری کرنے والے ابتدائی نقطے مشرق کی سمت 8میل کی مسافت پر واقع باندی
پورہ میں خفیہ نام ’’قاسم‘‘ سے بم گرانے کا علاقہ تشکیل دیا۔ وہ سری نگر کے
اطراف میں واقع بلند چوٹیوں سے اپنے طیارے کو انتہائی خوبی سے پرواز کرکے
پار لے گئے۔ بم پھینکنے والے مقام کی حتمی پرواز چیلنجنگ تھی۔ انہوں نے
کیپٹن کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے رفتار، سمت اور بلندی کو درست انداز میں
صحیح کیا اور بم گرانے کے لئے حتمی الٹی گنتی شروع کردی۔ عملے نے کمانڈر ان
چیف سے منظوری پا کر ایک اور کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ رضوان نے بم پھینکنے
کی جگہ واضح نہ ہونے کے باوجود بمباری کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیا۔ انہوں
نے ٹائمنگز پر مبنی بم پھینکنے کے لئے سگنل گرین لائٹ دی۔ دوسری بار عملہ
خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا۔ ہر چند کہ وہ بادلوں کے
درمیان گھرے ہوئے تھے، جیسے ہی رضوان نے بمباری کرنے کے لئے حتمی الٹی گنتی
شروع کی تو کچھ لمحے کے لئے بادل چھٹ گئے اور نور خان اور ان کے ساتھی
پائلٹ نے خطرناک زون کا اشارہ دیتے ہوئے جھلملاتی روشنیوں کے تین گولے دشمن
کے ٹھکانے پر جاتے دیکھے جو طیارے کی نچلی سمت کی جانب رواں تھے جس کا مطلب
یہ تھا کہ اندھا دھند چلائے جانے والے گولے نشان کے درست مقام عین طیارے کے
سر کے اوپر، نیچے اپنے ہدف کی طرف گر رہے تھے۔ پاک فضائیہ کی جانب سے پہلا
بم گرانے کا متحرک مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا اور یہ عظیم کامیابی تھی۔ بعد
ازاں پاک فوج نے توثیق کی کہ ہدف کی درستگی قریباً نصف میل کے فاصلے سے
حاصل کرلی گئی۔ یہ شاندار اندھا دھند فائرنگ تھی جو ٹھیک نشانے پر لگی۔ پاک
فضائیہ کی طرف سے اس بروقت مدد نے بھارتی افواج کے ساتھ جھڑپ میں مصروف
مجاہد فورس اور پاک آرمی افسروں میں تازہ روح پھونک دی اور وہ پورے جوش و
خروش سے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جمرود کے پہاڑی سلسلے پر بمباری کے دوسرے مرحلے
کے دوران وہ اپنے افسر کمانڈنگ زاہد بٹ کے ہمراہ تھے جہاں انہوں نے ہرکولیس
کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بنیادی اور اہم کردار ادا کیا۔
18بموں 1000lbs سے آراستہ C-130نے 12ستمبر کے ابتدائی گھنٹوں میں اڑان بھرے۔
جب عملہ ہدف کے قریب پہنچا تو انہوں نے طیارے کی نیوی گیشن لائٹس کو دیکھا
جو دائیں سمت سے تیزی سے قریب آ رہی تھی۔ فوری عملے نے جانا کہ یہ بھارتی
فضائیہ کا مداخلت کار جنگی طیارہ انٹر سسپٹر تھا۔ جب ہرکولیس بم پھینکنے کے
مقام سے صرف 40سیکنڈ کی دوری پر تھا تو رضوان نے کیپٹن کو مشورہ دیا کہ کچھ
نہ کریں بس بمباری جاری رکھیں۔ یوں جتنے بم لادے ہوئے تھے وہ سارے پھینک
دیئے گئے کیپٹن نے بھارتی جنگی طیارے کے نشانے سے بچنے کے لئے فوری حرکت کی
اور رفتار کم کردی تاکہ بھارتی جنگی مداخلت کار کا نشانہ طیارے کے سر سے
چوک جائے۔ یہی ہوا دشمن جنگی طیارے نے نشانہ باندھا تو وہ طیارے کے اوپر سے
گزر گیا۔ رضوان نے فوراً طیارے کا رخ موڑ کر عین اس وقت پاکستان کی سرحد کی
جانب کرلیا جب وہ پٹھان کوٹ ایئر فیلڈ کے قریب ہی تھے۔ مڈبھیڑ سے بچنے کے
لئے طیارے کو برق رفتاری سے موڑا اور بھارتی طیاروں کی دو بدو گولہ باری کی
پروا کئے بغیر طیارے کو بچاتے ہوئے پُرسکون انداز میں پاکستان کی محفوظ
سرحدوں تک پہنچنے کا عزم باندھا اور وہ بھارتی طیاروں کی گولہ باری سے بچ
کر اپنے اڈے پر اترے۔ بعد ازاں جب عملے نے طیارے کی جانچ پڑتال کی تو انہیں
ایک ایک ACK-ACK کا خول نظر آیا جس نے طیارے کے بائیں پر کو 5 انچ گہرائی
تک نشانہ بنایا تھا۔ جرأت مند طیارہ پائلٹ ونگ کمانڈر زاہد بٹ اور ان کے
مشاق نیوی گیٹر رضوان نے نہ صرف پاک فضائیہ کے قیمتی طیارے کو بچایا بلکہ
انتہائی درستگی و باریکی سے مشن کو بھی کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔
اشفاق بھی اس بانی ٹیم کے مستقل رکن تھے جن پر اس بہت اہم اور خطرناک مشن
میں شامل کرنے کا بھروسہ کیا گیا۔ C-130طیارے پر پہلے بمبار مشن کا آغاز
کرنے کے لئے 12ستمبر کا دن مقرر کیا گیا۔ ٹارگٹ لاہور، قصور سیکٹر تھا جہاں
بھارتی افواج مسلسل پاک فوج کے لئے بڑا خطرہ بنی ہوئی تھی۔ مشن خطرناک تھا
اس لئے کہ غیر مسلح C-130دشمن کے ایک ایک ACK ACK فائر کے مقابلے میں خاموش
بطخ کی مانند تھا۔ رات کو اشفاق نے اپنے جرأت مند عملے کے ہمراہ ونگ کمانڈر
زاہد بٹ کی قیادت میں کوہاٹ سے اڑان بھری۔ طیارہ 25000lbs بموں سے لیس تھا۔
اسی دن قبل ازیں اشفاق نے انتہائی احتیاط سے 50بموں پر مشتمل بموں کے اسٹیک
لادے۔ ہولناک ہتھیاروں کے سامان پر مشتمل ہرکولیس نے اپنے ہدف کی جانب اڑان
لی اور فضائیہ میں تاریخ رقم کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ جب ہدف کے قریب
پہنچے تو فلائٹ لیفٹیننٹ رضوان (نیوی گیٹر) نے لدے ہوئے بموں کو گرانے کے
لئے گرین سگنل دیا۔ کیپٹن نے بٹن دبایا اور تین سیکنڈز کے اندر بم گھپ
اندھیرے میں لپٹی رات کو نیچے گرنے لگے۔ اشفاق جو اسٹریپ باندھے ہوئے تھے
اور اپنی سیٹ سے ہل بھی نہیں سکتے تھے، لغوی معنوں میں سیٹ سے اچھل کر اپنے
عقبی دروازے سے نیچے جانے والے بموں کے اثرات دیکھنے لگے۔ جلد ہی پورا
علاقہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ تباہی انتہائی تھی۔ آل انڈیا ریڈیو
نے پہلے ہی تباہی کی خبر نشر کردی تھی جس کی وجہ بھاری بمباری بتائی گئی۔ |