شام میں جاری خانہ جنگی کا چوتھا
سال ہے۔بشار الاسد اب تک اقتدار پر قابض ہے۔امریکہ کی خواہش تھی کہ اسے
اقتدار سے الگ کر دیا جائے مگر تقدیر اب تک اس کا ساتھ دے رہی ہے۔وہ اپنے
خلاف بغاوت کرنے والوں کے خلاف بھی ڈٹا ہوا ہے اور آئی ٰیس آئی ایس کے خلاف
بھی نبرد آزما ہے۔اس چار سالہ خانہ جنگی نے شام کے لوگوں کو پریشان کر کے
رکھ دیا ہے۔شام کی گرتی ہوئی اقتصادی حالت نے اس ملک کی زمین ان پر تنگ کر
دی ہے ۔موت کا سایہ ہر وقت شامیوں کے سر پر منڈلا رہا ہے۔فضائی حملے سب سے
زیادہ خطر ناک ہیں۔ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کے بارے میں فکر مند لوگ
وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اس وقت شام کی کل آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور
اس میں سے 40لاکھ سے زائد شامی ترکی،لبنان،اردن،اور عراق میں خیمہ زن
ہیں۔لبنان میں ہر چوتھا فرد پناہ گزین ہے۔شام میں خانہ جنگی کے پہلے سال سے
ہی پناہ گزین ان ملکوں میں آنا شروع ہو گئے تھے مگر ان اسلامی ممالک نے ان
پناہ گزینوں کے بارے میں کوئی شور نہیں مچایا تھا بلکہ اپنے وسائل کے مطابق
ان کی ہر ممکن مدد کی تھی اور یہ سلسلہ تاحال جاری بھی ہے۔
حالیہ دنوں میں اچانک 5لاکھ پناہ گزین یورپ کے دروازے پر جا پہنچے اور وہاں
پناہ حاصل کرنے کے لیے دستک دینے لگے۔ابتدا ئی دنوں میں یورپ نے ان پر پناہ
لینے کے دروازے بند رکھے ۔ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہونے لگی اقوام متحدہ
کا دباؤ سامنے آیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے شور مچایا کہ انسان کی قدر
کی جائے۔اس معاملے میں یورپ تقسیم ہوا۔ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم
اپنے ملک میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔برطانیہ
بھی انہیں پناہ دینے سے ہچکچا رہا تھا۔سویڈن اور ڈنمارک کے عوام میں بھی
تحفظات پائے جانے لگے۔اہل یورپ 5 لاکھ پناہ گزینوں کو دیکھ کر گھبرائے ضرور
ہیں۔ پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جرمنی ان پناہ گزینوں کا ہمدرد بن
کر سامنے آیا اور اس نے انہیں اپنے ہاں پناہ دینے کی اجازت دی۔اس کے بعد
جرمنی سے ایسا تاثر آنے لگا کہ مسلم امہ ناکام ہو چکی ہے مسلمان در بدر کی
ٹھوکریں کھا کر ہمارے ہاں ہی پناہ لینے پر مجبور ہیں۔جرمنی سے ایک بیان
سامنے آیا کہ مسلمان حجازِ مقدس قریب ہونے کے باوجود ادھر چلے آئے ہیں ۔جرمنی
اور یورپ کے دیگر ذرائع ابلاغ نے اسلام کی بے توقیری کی ایک مہم شروع کر دی
اور کالموں،اداریوں اور تبصروں میں یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ اسلام
کا نظریہ اخوت ناکام ہو چکا ہے۔
مگر صورتِ حال اس سے مختلف ہے شام میں خانہ جنگی کا ذمہ دار امریکہ ہے اور
یورپ اس کا اتحادی ہے۔اس خطے میں ان کے اپنے مفادات ہیں ۔9/11کے بعد سے
امریکہ کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان میں اپنے قدم جمائے اور فوجی اڈے قائم
کرے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔امریکہ روس اور چین پر اپنا دباؤ برقرار رکھنے کے
لیے اس خطے میں اپنی فوجی قوت قائم رکھنا چاہتا ہے۔اس نے شام میں اپنا تسلط
قائم کرنے کے لیے وہاں انتشار پھیلایا مگر تاحال بشارالاسد وہاں بر سرِ
اقتدار ہے۔امریکہ اپنے مقصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے۔وہ
مسلمانوں میں انتشار اور بے چینی پھیلا کر یہاں اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتا
ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں کے ارد گرد فضائی حملوں نے شامیوں کو مزید خوف
زدہ کر دیا اورانہیں ایک منصوبے کے تحت یورپ کی طرف ہجرت پر مجبور کیا گیا
تاکہ وہاں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
اس سال کے آغاز پر یورپی کمیشن نے عمر رسیدگی کے بارے میں ایک رپورٹ شائع
کی تھی اور جرمنی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ 2060میں وہاں عمر رسیدہ
افراد کی تعداد 59فیصد ہو جائے گی۔نوجوان بتدریج کم ہو رہے ہیں جرمنی کی
آبادی میں بھی کمی ہو رہی ہے ۔2060تک ملک کی 59فیصد آبادی کی پینشن ،علاج
معالجہ اور ان کی دیکھ بھال پر اخراجات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جائے گا
جبکہ کام کرنے والوں کی تعداد کم ہونے کی بدولت ٹیکس کی آمدن بھی کم ہو
جائے گی ۔برطانیہ کے سوا یورپ کے باقی ملکوں کو بھی کم و بیش ایسے ہی مسائل
کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ پناہ گزینوں کو اتنے بڑے پیمانے پر نہیں
لے رہا ہے۔ان پناہ گزینوں کی بدولت جرمنی میں کام کرنے والوں کی تعداد میں
اضافہ ہو گا اور اس کی معیشت کو استحکام ملے گا ۔یہ لوگ وہاں کے عمر رسیدہ
افراد کو بھی پالنے میں اہم کردار ادا کرے گے۔دوسری طرف 40لاکھ شامی بغیر
کسی مفاد کے اسلامی ملکوں میں ہی پناہ گزیں ہیں ۔اس سے قبل اتنے ہی افغان
پناہ گزیں پاکستان میں مقیم رہے ہیں۔جرمنی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ
مسلم امہ کا نظریہ اخوت کبھی بھی کمزور نہیں ہوا وہ آج بھی اسی جذبے ساتھ
برقرار ہے جس جذبے کے ساتھ 14سو سال قبل تھا۔جرمنی کو حقائق پوشیدہ رکھ کے
مسلمانوں کے خلاف مہم چلا نے سے گریز کرنا ہو گااور اس کے نظریہ اخوت پر
تنقید سے اجتناب کرنا ہو گا۔ |