حنظلہ عماد
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایران صغیر
سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
کہہ رہا ہے داستانِ بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقان پیر
بھارت اور اس کے ہم نوا جو دنیا کے کچھ حصوں بشمول پاکستان میں موجود ہیں
وہ ایک عرصہ تک یہ الزام تراشی کرتے رہے کہ کشمیری تو بھارت کے ساتھ
سمجھوتہ کرچکے ہیں لیکن یہ پاکستان ہے جو کشمیریوں کو سکون سے نہیں رہنے
دیتا۔ چنانچہ میڈیا پر ایمان رکھنے والے کچھ طبقات نے پاکستان کے ان گروہوں
کو طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا کہ جو کشمیر کی آزادی اور تحریک آزادی
کشمیر کی کھلم کھلا حمایت کرتے تھے لیکن وقت نے انصاف کا ترازو اٹھایا تو
پلڑا وہ جھکا کہ ساری دنیا نے دیکھا کہ جدوجہد خود کشمیری کررہے ہیں۔
کشمیری نوجوان تحریک میں نہ صرف شمولیت اختیار کررہے ہیں بلکہ یہ تعداد روز
بروز بڑھتی جارہی ہے۔اس کا ایک بڑا ثبوت کشمیر یونیورسٹی کے طلبا کی طرف سے
میراتھن ریس میں پاکستان کے حق میں مظاہرہ اور پاکستانی پرچم کا لہرایا
جانا ہے۔ بھارت کے لیفٹیننٹ جنرل سبھراتا سہا کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی
ایک بڑی تعداد اس وقت تحریک آزادی میں عملی شمولیت اختیار کررہی ہے۔ جبکہ
یہی واویلا اس سے قبل بھارت کے متداول ذرائع ابلاغ بھی کرچکے ہیں کہ کشمیر
میں اب باہر سے جہادی بہت کم آرہے ہیں جبکہ کشمیری خود اس مقصد کے لئے تیار
ہورہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیری نوجوان نسل میں
مقبول جہادی لیڈر برہان مظفر وانی ہے۔21سالہ یہ خوبرو نوجوان اس وقت بھارت
کی ناک میں دم کئے ہوئے ہے اور حزب المجاہدین کی قیادت اسی نوجوان کے پاس
سمجھی جاتی ہے۔ بھارت سرکار نے اس آزادی کے متوالے کے سر کی قیمت بھی دس
لاکھ مقرر کررکھی ہے۔ لیکن ایسے اقدامات سے مظفر وانی نوجوان نسل میں مزید
مقبول ہورہے ہیں۔ چنانچہ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اگست کے آخری جمعہ کے
روز اسی برہان مظفر وانی کے پوسٹر کشمیر کے مختلف علاقوں میں آویزاں کیے
گئے ۔ کشمیریوں کے مطابق یہ برہان مظفر وانی کے اس ویڈیو پیغام کا جواب ہے
کہ جس میں اس نے کشمیری نوجوان نسل کو تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے
کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوانوں نے اس اپیل پر لبیک کہتے ہوئے
برہان مظفر وانی سے اظہار یکجہتی کیا اور اس کے پوسٹر لہرائے۔ تحریک آزادی
کشمیر کی اس حالیہ تیزی پر بھارتی صحافتی برادری خوب پریشان ہے۔ انہیں اب
یہ لگتا ہے کہ شاید بھارت کو اب کشمیریوں کو آزادی دینی چاہیے۔
اگرچہ بی جے پی کی متعصب اور انتہا پسند ہندو حکومت کے باعث ایسی آوازیں
قدرے کم ہیں لیکن اس کے باوجود صف اول کے صحافی اس بات کا برملا اظہار کرتے
نظر آتے ہیں کہ اب کشمیریوں کو ان کا حق دینا ہوگا۔ یہاں تک کہ بی جے پی سے
تعلق رکھنے والے اشونی کمار چوپڑا کا موقف بھی کچھ یوں ہے کہ ہمیں اس حقیقت
کو تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیری عوام اب بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔
موصوف حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر ہی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے
ہیں۔ رکن پارلیمنٹ کے علاوہ چوپڑا نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک ہندی
اخبار کے مالک اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ اشونی کمار نے مزید کہا کہ وہ کشمیریوں
کے جذبہ حریت سے خوب واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ مفتی سعید ایک بہروپیا ہے۔
کشمیری عوام بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں اور ہمیں اس بارے میں سنجیدگی
سے سوچنا چاہیے۔
اشونی کمار پہلے شخص نہیں ہیں کہ جو تحریک آزادی کشمیر کے معترف ہیں بلکہ
اس سے قبل بھی متعدد نامی گرامی افراد اسی قسم کے ملتے جلتے جذبات کا اظہار
کرچکے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر سوامی بھی یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ
’’چھ دہائیوں کی کوششوں کے بعد بھی کشمیریوں کی ناراضگی پچھلے کسی بھی دور
سے زیادہ ہی دکھائی دیتی ہے اور اب مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ بھارت کشمیر
پر ایسے ہی حکمرانی کرنا چاہتا ہے کہ جیسے برطانیہ نے متحدہ ہندوستان پر کی
تھی۔‘‘ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق پر رائے دیتے ہوئے سوامی ناتھن
کہتے ہیں کہ ’’اگر زمینی حقائق بدل دیے جائیں تو ایسے معاہدے بے کار ہوجاتے
ہیں۔ ہندوستانی راجوں اور مہاراجوں نے بھی برطانوی راج کے ساتھ الحاق کے
معاہدے کئے تھے لیکن جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ان دستاویزات کی کوئی
اہمیت نہ رہی۔ ہم نے پہلے چھ دہائیاں قبل کشمیریوں سے ریفرنڈم کا وعدہ کیا
تھا ، اب ریفرنڈم کروانے کا وقت آگیا ہے اور اس ریفرنڈم کا فیصلہ کشمیری
عوام کو ہی کرنے دیا جائے۔‘‘
بھارت میں داخلی سطح پر کشمیر کے حوالے سے سوچ میں کس قدر تغیر برپا ہوا ہے
اس کی ایک مثال ارون دھتی رائے ہیں کہ جو سماجی حقوق کی کارکن بھی ہیں۔ ان
کا کہنا ہے کہ ’’کیا موجودہ حالات میں کشمیر کو ہندوستان اور ہندوستان کو
کشمیر سے آزادی حاصل نہیں کرلینی چاہیے؟‘‘ جبکہ بھارت کے مشہور انگریزی
اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر ویر سنگھ یوں رقمطراز ہیں کہ ’’اب یہ واضح
ہوگیا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے ہمیں جو بتایا جارہا تھا کہ حالات امن کی
طرف لوٹ رہے ہیں وہ سب غلط تھا۔ ہمیں امن کی ظاہری علامتیں تو نظر آتی ہیں
لیکن وہ ناراضگی اور غصہ نہیں جو کشمیریوں کے دلوں میں ہے۔ ہم کچھ بھی
کرلیں حالات بہتر نہیں ہوتے۔ اگر ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں تو ہم
ان لوگوں پر کیسے حکمرانی کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ ریاست
کشمیر میں ریفرنڈم کرانا چاہیے کہ اگر وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہیں تو ان کا
استقبال ہے۔ اگر نہیں تو انہیں زبردستی روکنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔
ہمیں اب اس حل کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ جس کے بارے میں پہلے سوچنا بھی
ممکن نہ تھا۔‘‘
مشہور بھارتی کالم نگار جگ سوریا بھی ملتے جلتے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
لکھتے ہیں ’’کشمیر سے علیحدگی کا وقت آگیا ہے، وادی کشمیر سے جو آواز اٹھ
رہی ہے وہ پاکستان کی نہیں خود کشمیریوں کی ہے اور پیغام بالکل واضح ہے کہ
بھارت کو اب کشمیر کو آزاد کردینا چاہیے۔ ضرورت پڑی تو بھارت کشمیر کے بغیر
بھی زندہ رہ سکتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اگرسید علی گیلانی اور ان کے
حامیوں نے عدم تعاون جیسے وہ ہتھیار اٹھالیے جو برطانیہ سے آزادی کے لئے
استعمال کئے گئے تو کیا ہوگا۔ کیا ہندوستان پرامن تحریک کے خلاف طاقت کا
استعمال کرپائے گا کہ جیسے برطانیہ نے مجاہدین آزادی کے خلاف کیا تھا۔‘‘
الغرض باوجود پابندیوں اور سختیوں کے بھارت کے اندر سے ایسی آوازوں کا بلند
ہونا یقینا کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کا ثبوت ہے۔ ان کی تحریک کے لئے
کاوشیں اب اس قدر مضبوط ہیں کہ دشمن بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔ |