فرینک ہاکنگ اپنے چھوٹے سے گھر
میں اپنی بیوی آئسوبل ہاکنگ کے ساتھ برطانیہ میں شمالی لندن کے ایک ٹاؤن
ہائی لینڈ میں رہتا تھا جو سکاٹ لینڈ کی رہنے والی تھی۔ دونوں کو تعلیم
حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھااور اپنی خاندانی معاشی مجبوریوں کے
باوجود دونوں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔آئسوبل کو فلسفے
، سیاسیات اور معاشیات میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا جبکہ فرینک علمِ طب
میں گہرا شغف رکھتا تھا۔ دونوں کی ملاقات جنگ عظیم دوم شروع ہونے کے فوری
بعد طب کے ایک تحقیقاتی مرکز میں ہوئی جہاں فرینک طب کے موضوع پر تحقیقی
کام کر رہا تھا اور آیسوبل اس تحقیقی ادارے میں سیکرٹری کے فرائض انجام دے
رہی تھی۔ جنگ عظیم دوم میں جرمن کے جنگی جہازوں نے لندن پر فضائی حملے کرکے
لندن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب انکے بچے کی
پیدائش کا وقت قریب آیا تو اسکی بیوی نے محفوظ طور پر اپنے بچے کو جنم دینے
کیلئے آکسفورڈ کا انتخاب کیا کیونکہ یہ ایک محفوظ جگہ تھی اور جرمنی کے
جنگی جہازوں کے حملوں سے محفوظ تھی۔ یہ 8 جنوری 1942 ء کا وہ روشن دن تھاجب
آئسوبل نے آکسفورڈ میں دنیا کے عظیم سائینسدان گیلیلیو کی موت کے ٹھیک تین
سو سال بعد ایک ایسے عظیم سائینسدان کو جنم دیا جسکا نام سٹیفن ہاکنگ رکھا
گیا اوراسنے بیسویں صدی کا ایک بڑا سائینسدان ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
سٹیفن ہاکنگ اپنے تمام بہن بھائیوں سے مختلف تھا جو پڑھائی کی دھن میں لگا
رہتا تھا اور اپنے گھر کے باہر کم کم دکھائی دیتا تھا۔ سٹیفن کا والد اسے
ویسٹ منسٹر اسکول میں داخلہ دلواناچاہتا تھا مگر ہاکنگ جس کی عمر اسوقت 13
سال تھی اپنی بیماری کیوجہ سے سکالر شپ کے امتحان میں نہ بیٹھ سکا اسطرح
اسکے والدین اسکی تعلیم کے اخراجات بغیر سکالر شپ کے بردانشت کرنے سے قاصر
تھے اور13 سالہ ہاکنگ ایس ٹی البانا اسکول میں ہی زیر تعلیم رہا۔ اسکے لئے
سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ اپنے پرانے دوستوں کیساتھ اسی اسکول میں پڑھتا
رہا اور اسکے دوست اور وہ بورڈ گیمز سے کافی لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ان
گیمز میں سٹیفن ہوائی جہازوں کے ماڈلز، کشتیوں ، راکٹ اور اسی طرح آسمان پر
بلیک ہول ستاروں میں ہونے والی قوت کے رد عمل پر بحث میں کافی دلچسپی لیا
کرتا تھا ۔ اسے بچپن سے ہی اپنے دوستوں سے مل کر انسانی جبلت اور انسان میں
پائے جانے والے حواس اور ٓسمان پر پانے جانے والی کہکشاؤں اور شہاب ثاقب کے
بارے میں گفتگو کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔اسنے 1958 میں اپنے ایک
استاد ڈکران ٹاہٹا کی مدد سے دیواری گھڑی، پرانے ٹیلفون کے سوئچ بور ڈ اور
دوسرے بیکار پرزوں کی مدد سے ایک کمپیوٹر تیار کیاجسے اسکی کلاس میں بہت
سراہا گیا اور اسکول میں اسکو آئین سٹائن کے نام سے پکارا جانے لگا۔ ہاکنگ
نہ صرف اپنی پڑھائی میں انتہائی قابل تھا بلکہ اسے مختلف ایجادات کا بھی
بہت شوق تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسنے سائینس میں دلچسپی لینا شروع کر دی ۔
وہ اپنی کلاس کے دوسرے لڑکوں کی نسبت انتہائی قابل اور تیز ترین تھا جو
چیزوں کو انتہائی سرعت سے اچک لیا کرتا تھا۔ اسے میوزک سننے کا بہت شوق تھا
اور وہ تصوراتی اور خیالی کہانیوں میں بہت دلچسپ لیا کرتا تھا۔ وہ اکثر
کشتی رانی کرتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ انتہائی خطرناک کھیل
کھیلتے ہوئے کشتی کو خطر ناک راستوں پر لیجایا کرتا تھا۔ مہم جوئی اسکی
زندگی کا حصہ تھی۔ ہاکنگ نے اپنی آکسفورڈ کی تعلیم کے دوران ہزاروں گھنٹے
بیٹھ کر مطالعہ کیا اور وہ طبعیات کے سوالات کے جوابات کو وضع کردہ اصولوں
کیمطابق ہی دینا پسند کرتا تھانہ کہ انکے واقعاتی ادراک کے مطابق انکے
جوابات دیتا۔ وہ سائینس میں کائینات کے کھوج میں بہت دلچسپی لیتا تھا۔
کیمبرج یونیورسٹی میں کائنات کا علم حاصل کرنے کیلئے اعزازی طور پر پہلی
پوزیشن لینا لازمی تھا جو اسکے لئے ایک بہت بڑا چیلنج تھا ۔وہ اپنے امتحان
کے دوران کافی پریشان رہتا تھا اور ساری ساری رات جاگ کر پڑھتا رہتا تھا
اور انتہائی کم سویا کرتا تھاجس وجہ سے وہ کافی کمزور ہو چکا تھااور اسکے
سر پرصرف ایک دھن سوار تھی کہ اسنے کسی طرح بھی پہلی پوزیشن حاصل کرنی ہے۔
اسنے اپنی توقع سے بڑھ کر اعلیٰ گریڈ میں نمبر حاصل کرکے اپنے اساتذہ کو
دنگ کر دیا ۔ تعلیم کے دوران ہی اسے 21 سال کی عمر میں دماغ کا ایک ایسا
موذی مرض لاحق ہو گیا جس میں پٹھوں کے وہ بنیادی اعصابی خلئے جو کیمیائی
اور برقیاتی شکل میں ہوتے ہیں اور پورے جسم کے پٹھوں میں پیغام رسانی کا
کام سر انجام دیتے ہیں انمیں کمی واقع ہو جائے یا مکمل طور پر انکی افزائش
بند ہو جائے تو ایسے میں انسان کا جسم بے حس، لاغر اور مفلوج ہو جاتا ہے
ایسا انسان چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے، سانس لینے ، بولنے، منہ
کھولنے سے محروم ہوجاتا ہے اور اسکا جسم گوشت کے لوتھڑے کی مانند ایک ہی
جگہ پڑا رہتا ہے اور ایسا مریض دس سے بارہ ماہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ
دھو بیٹھتا ہے مگر سٹیفن ہاکنگ آج 74 سال کا ہو چکا ہے اسنے اپنی قوت ارادی
سے اس بیماری کو شکست دیکر سائینس کے میدان میں پوری دنیا کو اپنی سائینسی
تحقیق اورجستجو سے ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔پروفیسر ہاکنگ جو ما بعدالطبعیات
پر یقین نہیں رکھتے وہ تین بچوں کے دادا ہیں جنکا اوڑھنا بچھونا سائینسی
تحقیق پر منتج ہے وہ پوری دنیا میں ایک ایسے مقام پر فائز ہیں جو لوگوں کو
کم ہی نصیب ہوتا ہے ۔اس نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کیں اور وہ تین بچوں
کا با پ بھی ہے۔
آج بھی ڈاکٹر اسکی اس پر اسرار بیماری کے سلسلے میں پریشان ہیں کہ چھوٹی سی
عمر میں انتہائی خطرناک بیماری جس میں ایک انسان چند ماہ کا مہمان ہوتا وہ
باون سال سے اپنی جدو جہد میں مصروف ہے اور باون برس سے معذوروں کی کرسی پر
بیٹھ کر اپنے سائینسی تجربات، تخلیقات اور مقالات کو کتابوں کی شکل دیکر
لوگوں کو سائینسی میدان میں دنگ کر رہا ہے۔اسی دوران اسے 1985میں شدید
نمونیا ہو گیا اور اسکی سانس والی نالی بند ہو گئی جسکا آپریشن کیا گیا اس
ا ٓپریشن نے اسکی بولنے کی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور وہ اپنے
جذبات اور احساسات کا اظہار صرف اشاروں سے ہی کیا کرتا ہے۔ اسنے اپنی زندگی
سے ہار نہیں مانی۔وہ کہتا ہے کہ اسنے اپنی بیماری سے کبھی بھی ہار نہیں
مانی اور اس بیماری میں اسکا ساتھ دینے والی نرسیں، اسکی بیوی جینی اور
اسکے چند دوست اور وہ فلاحی تنظیمیں جنہوں نے اس بیماری میں اسکا ساتھ دیا
وہ انہیں کبھی بھی نہیں بھول سکتا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی اور نظریاتی
طبیعات کے پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کو نظریاتی فزکس میں آئین اسٹائین کے بعد سب
سے با صلاحیت سائینسدانوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے جس نے کائناتی علم
کے بارے میں نئے نئے دروازے کھولے۔ انہوں نے بارہ اعزازی ڈگریاں حاصل کیں
اور 2009ء میں امریکہ میں سب سے اعلیٰ سول اعزاز صدارتی میڈل بھی حاصل
کیا۔سٹیفن ہاکنگ نے فلسطینیوں کے سا تھ ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی
مظالم پر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اسرائیل کیطرف سے بلائی جانے والی عالمی
سائنسی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیاجو اسرائیل کے منہ پر ایک
طمانچہ تھا۔
سٹیفن ہاکنگ کو رائل سوسائیٹی آف آرٹسٹ کا تا حیات ممبر ہونے کا اعزاز بھی
حاصل ہے۔پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے ان بنیادی رازوں کو فاش کیا جن
کے تحت کائنات چل رہی ہے۔ سٹیفن ہاکنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سیاہ
شگاف(black holes) کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر محدود کثافت
کا حامل ہوتا ہے جبکہ اسکا حجم صفر ہو جاتا ہے ۔ اسی نقطے کو اکائیت سے
تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسنے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہماری کہکشاؤں میں ایک کروڑ
کے لگ بھگ سیاہ شگاف کا مکان موجود ہے جو عظیم الجثہ ستاروں کے عظیم
دھماکوں سے معرض وجود میں آتے ہیں۔اسنے کہا کہ پوری کائینات میں موجود
اجرام مساوی ہیں اور انمیں اعتدال و توازن اپنی سیاہ شگافوں کی بدولت ہیں۔
سٹیفن ہاکینگ نے کائنات کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات نہ صرف
متحرک ہے بلکہ یہ روز بروز پھیل بھی رہی ہے۔ اب تک اسکی 132طباعتیں منظر
عام پر آ چکی ہیں ۔ وہ اب تک سائینس کی 13کتب کا مصنف ہے۔اسنے تا حال
یونیوروٹیوں میں بے شمار لیکچر دئے جو آج بھی سائینس کے طلباء کیلئے مشعل
راہ ہیں۔سٹیفن ہاکنگ کی 1965-1975 کی تحقیق نے یہ بات ثابت کی کہ عمومی
نظریہ اضافیت کے مطابق سیاہ شگاف کے اندر لا محدود کمیت کی اکائی اور زمان
و مکان کے انخلاء کی موجودگی ضروری ہے۔ اسنے یہ بات ثابت کی کہ سیاہ شگاف
خاموش نہیں ہیں بلکہ وہ ہر وقت توانائی چھوڑتے رہتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ کہتا
ہے کہ ہمارے سورج میں ابھی اتنا ایندھن ہے کہ وہ مذید 5 ارب سال گزار
سکے۔اسنے امریکی صدارتی ایوارڈ بھی حاصل کیا اور اسے کیمبرج یونیورسٹی میں
ریاضی کا پروفیسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔سٹیفن ہاکنگ جیسے اعلیٰ دماغ
رکھنے والے سائینسدان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ آج بھی پوری دنیا میں
کائنات کے علم کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہے۔ |