شیخ محمد ابراہیم ذوق
(وشمہ خان وشمہ, ملائیشیا)
ذوق (1789 - 1854) ایک اردو شاعر
تھے۔ ذوق ان کا تخلص تھا۔
ابتدائی زندگی ترميم
دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص
تھا۔ ایک غریب سپاہی محمد رمضان کے لڑکے تھے۔ 1789ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔
پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا
شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول
رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ
مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند
ہوگیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہوگئی۔ اور خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر
ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک
الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر
کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔ مسلسل عروس
سخن کے گیسو سنوارنے کے بعد 16 نومبر 1854ء میں دنیائے ادب کا یہ مہردرخشاں
ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ مرنے سے چند ساعت پہلے یہ شعر کہا تھا۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم ، طب، تعبیر خواب
وغیرہ پر کافی دسترس حاصل
تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہیں جب تک چلی چلے
نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے |
|