یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے

سید شہزاد حسین نقوی

جنگ 65ء کے غازی میجر جنرل(ر) ارشد چوہدری ہلال امتیاز ملٹری بتا رہے تھے کہ وہ جنگ 65ء میں 17 پنجاب کے ساتھ برکی سیکٹر میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی یونٹ میں تھا اور میں بطور لیفٹیننٹ بی آر بی پر ہونے والے معرکے میں الحمداﷲ شریک تھے۔ جہاں اﷲ کے فضل و کرم سے قوت ایمانی کی طاقت نے بھارتی فوج کا غرور خاک میں ملا دیاتھا ہوا یوں کہ بھارتی پیدل فوج کے دو ڈویژن بھاری گولہ باری کی آڑ میں بی آر بی نہر کے کنارے تک پہنچ گئے۔

بھارت نے چھ ستمبر کو اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وسط میں لاہور پر حملہ کے ساتھ شمال میں جسٹر کے مقام پر اور جنوب میں قصور کے مقام پر محاذ کھول دئیے جائیں۔ میجر جنرل نرنجن پرشاد کی قیادت میں پچیسواں ڈویژن ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس محاذ پر پاک فوج کے زیر کمان قوت صرف سات بٹالینوں پر مشتمل تھی اور محاذ 5 میل لمبا تھا۔ لاہور میں داخل ہونے کے لئے باٹا پورکے پل پر قبضہ ضروری تھا ۔ چنانچہ ایک پورے بھارتی بریگیڈ اور ایک ٹینک رجمنٹ نے دوسرا حملہ کیا۔ لاہور کو بھارتی یلغار سے بچانے کے لئے نہر بی آر بی کا پل تباہ کرنا بہت ضروری تھا۔ دن کو یہ کام نا ممکن تھا۔ دشمن نے پل کے دائیں بائیں گولوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ پل تک دھماکہ خیز بارود لے جانے کی کوشش میں ایک جوان شہید ہو گیا۔ اس کے بعد چند رضاکاروں نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود ایک گڑھے میں اتارا۔ اس پر ریت رکھ کر آگ لگانے والی تاروں کو جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس آ گئے۔ ان کا واپس آنا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔

پنجاب رجمنٹ کے ان ایک سو جوانوں نے دشمن کی تقریبا تین ہزار فوج کے جو مسلسل 9 گھنٹے دانت کھٹے کئے اور اسے بے بس کیا وہ جنگی تاریخ میں ایک یادگار معرکہ ہے۔ لڑائی کے آغاز میں ہی بازو پر گولی لگ جانے کی بنا پر میجر شفقت بلوچ زخمی ہو چکے تھے۔ خون تیزی سے بہہ رہا تھا تاہم انہوں نے جلدی سے زخم پر رومال باندھا اور اپنے ساتھیوں کی ہمت بڑھاتے ہوئے ہڈیارہ نالے کے کنارے کھڑے ہو کر اپنے توپ خانے کے فائر کی رہنمائی کرنے لگے۔ نشانے ٹھیک ٹھیک اپنے ہدف پر بیٹھے اور دشمن کی صفوں میں ہلچل مچ گئی۔ گھمسان کی جنگ میں وہ ایک طرف اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دیتے کہ ملک کی سالمیت بقااور اس کا وقار اس وقت دا پر لگا ہے اور انہیں آخری گولی اور آخری سپاہی تک لڑنا ہے جبکہ دوسری جانب وہ بلند آواز سے توپوں کے فائر کو گائیڈ کرتے کہ دشمن آگے نہ بڑھ پائے۔ اسی اثنامیں ان کے جوانوں نے یکے بعد دیگرے دشمن کے تین ٹینک تباہ کر ڈالے جس سے دشمن کے حوصلے مزید پست ہوئے اور اس کا غرور خاک میں مل گیا۔ دشمن کے حملے کا زور ٹوٹ گیا اور جنگ کا پانسا پلٹتا نظر آیا پھر کسی بھی محاذ پر دشمن کی فوجیں پاک فوج کے آگے ٹھہر نہ سکیں۔ سیالکوٹ قصور سلیمانکی حتی کہ کشمیر میں بھی دشمن کو پسپا ہونا پڑا اور بہت سارا علاقہ چھوڑ کر وہ پسپائی پر مجبور ہوا۔1965 کی پاک بھارت جنگ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ایسے نمایاں مقام بنا گئی کہ یہ نہ صرف بیسوی صدی بلکہ آنے والے زمانے میں شجاعت جوش ولولہ اور قومی یکجہتی کی قوت کا دشمن کی انفرادی برتری پر فتح کی مثال کے طور پر یاد کی جائے گی۔ قرآنِ کریم میں غزو بدر کا ذکر آیا ہے جب آنحضرت محمدؐ کے زیرِ قیادت مسلمانِ فوج کی قلیل تعداد 313 افراد نے اپنے سے تین گنا زیادہ 1000کافروں پر مشتمل فوج کو شکست دی تھی۔ جوش و جذبہ کے علاوہ اﷲ کی طرف سے جنگ بدر میں مسلمانوں کی امداد کیلئے تین ہزار فرشتے بھی بھیجے گئے تھے ۔ کم تعداد فوج کا اپنے سے تین گنا بڑ ی فوج پر برتری حاصل کرنا نہ صرف ساتویں صدی میں ممکن ہو سکا مسلمانوں کا اسی قسم کا مظاہرہ بیسویں صدی میں یعنی 1965 پاک ہند جنگ میں بھی ہو گیا۔ 1965 کی جنگ میں بھارت عسکری قوت میں پاکستان کے مقابلے تین گنا زیادہ تھا۔ تاہم خدا نے فتح مسلمانوں کو نصیب کی۔ جب اﷲ کی رضا شامل ہو اور ظلم کے خلاف مسلمان لڑ ے تو دنیا کی ہر قسم کی سپر پاور نیست و نابود ہو سکتی ہے ۔

قوم سو رہی تھی لیکن پاک سرحد کی نگہبان آنکھیں جاگ رہی تھیں۔ وطن کے سپاہیوں کیلئے اپنی وفاؤں کا عہد پورا کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ ہر بچہ جوان بوڑھا سر سے کفن باندھے اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ دشمن کے مقابل تھا۔ خالد اور طارق کی روایات کے امین، حیدر کرار کے وارث آج پھر کفر کے مقابل تھے۔ ان کا تن، من، دھن دیس پر قربان تھا۔ اب ہر سپاہی ناقابل شکست فصیل تھا جس نے دشمن کی پیش قدمی روک دی تھی۔ پاک فوج کے جوان تعداد میں دشمن کی افواج سے کم تھے لیکن ان کے ساتھ قوت تھی سچائی کی، سرمایہ تھا ایمان کا، عزم تھا اﷲ اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر مر مٹنے کا۔ لاہور میں صرف ایک کمپنی نے نو گھنٹے تک دشمن کے ایک پورے بریگیڈ کو روکے رکھا۔ لاہور کے جم خانے میں عیش و عشرت کی محفل سجانے کے خواب دیکھنے والے بھارتی کمانڈر اپنی تین ڈویژن کے باوجود بی آر بی نہر پار نہ کرسکے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر نے جرأت و شجاعت کا وہ تاریخی مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ بی آر بی کو دشمن کے قبضے میں نہیں جانے دیا۔ بی آر بی بہتی رہی اور انشاء اﷲ بی آر بی بہتی رہے گی۔ آج بھی پاکستان کو جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے لئے قوم میں 1965 والا جذبہ اور قومی اتحاد تقاضا وقت ہے۔ پاکستان کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں قوت ایمانی اور جذبہ ایثار و قربانی سے لیس ہونا پڑے گا۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 105003 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.