پاک فوج نے جب ضرب عضب شروع کیا ہے ملک میں امن و امان
قائم ہونا شروع ہوگیا۔ پاک فوج کے جوان اور ان کے بچے اپنی جانوں کا نظرانہ
پیش کرکے پاکستان میں امن قائم کررہے ہیں۔ کچھ لوگ سوچ رہیں ہونگے کہ پاک
فوج کے جوانوں کی بات تو ٹھیک ہے مگر یہ بچے کہاں سے آگئے تو قارئین کے علم
کے لیے بتادوں کہ آرمی سکول کا واقعہ ابھی آپ بھولے نہیں ہونگے۔ آرمی سکول
پر حملہ کوئی سکول پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ حملہ پاک فوج ان سپہ سالاروں
کے لیے کیا جو اس وقت ضرب عضب میں پیش پیش ہیں۔ یہ ان کو سبق سکھانے کے لیے
ان کے بچوں کو شہید کیا ۔ اس لیے ان بچوں کو کا ذکر نہ کرنا سراسر ناانصافی
ہوگی۔
چنددن پہلے پشاور ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر آیا۔ آرمی پبلک سکول
کا واقعہ ابھی تک ہمارے ذہینوں سے نہیں نکلا اور ایک بار پھرملک دشمن قوتوں
نے پاک فضائیہ کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ وطن دشمن لوگ شاید پاک فوج کی قوت سے
غافل ہیں، احمقوں کی جنت میں رہتے یا پھر ان کو کتے کی موت مرنے کا زیادہ
شوق ہے ۔ پاک فوج کا ہرجوان موت کو اپنے سر کا تاج سمجھتاہے، وہ اپنی جان
تو دے سکتا ہے مگر اپنے وطن کی مٹی سے غداری نہیں کرسکتا۔ اس وقت ملک میں
بہت سے را کے ایجنٹ،اسلام دشمن عناصر کو پاکستان میں امن پسند نہیں ۔ وہ
چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی جارہی تاکہ پاکستان ترقی نہ کرسکے۔
کبھی وہ دہشتگردی اور کبھی سیاسی لڑائی لڑا کر پاکستان کو تنزلی کی طرف
دھکیلنا چاہتے ہیں۔
واقعہ کچھ یوں ہیں کہ پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں جمعہ کے دن کچھ ملک دشمن
اورپاک فوج مخالف عناصر نے فضائیہ کیمپ پرحملہ کیا۔ جس میں پندرہ ، سولہ
افراد نے جام شہادت حاصل کی۔ جس طرح چاروں طرف سے دہشتگردوں نے حملہ کیا اس
سے بہت زیادہ نقصان ہونا تھا مگر صدقے جاؤں اس سپوت کے جس نے اپنی جاں جان
آفریں کے سپر دکرکے شہادت کا رتبہ تو پالیا مگر دہشگردوں کے عزائم کو
چکناچور کردیا۔ جی وہ جوان کیپٹن اسفندیار بخاری ہے جس نے اپنے دستے کی
قیادت کرتے ہوئے بہادری کی نئی مثال قائم کردی۔ قوم کے اس بہادر سپوت نے
دہشتگردوں کو بیس کے اندر جانے سے نہ صرف روکابلکہ مسلسل سیسہ پلائی دیوار
بنے رہے۔کیپٹن اسفند یار بخاری ملک دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑے
اور جام شہادت نوش کر گئے، انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے
دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنادیے۔
حملے میں شہید ہونے والے پاک فوج کے کیپٹن اسفند یار بخاری کا تعلق اٹک سے
ہے۔ وہ 14اگست 1988کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں سے حاصل کی
اور ایف ایس سی بخاری کالج سے کرنے کے بعد بطور لیفٹیننٹ پاک فوج میں بھرتی
ہو گئے۔تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھر
پور حصہ لیتے تھے۔کیپٹن اسفندیار کالج میں بیالوجی کلب کے صدر اور کالج کی
میگزین کے ایسوسی ایٹ ممبر بھی رہے چکے ہیں اسکے علاوہ بخاری کالج کی شطرنج
ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ اسفند یار بخاری پنجاب انڈر 19ہاکی ٹیم کے لیے
بھی کھیلتے رہے۔ انہوں نے پاک فوج میں بھی نمایاں کارکردگی دکھاتے ہوئے
اعزار شمشیر سے بھی حاصل کیا۔ 2008میں آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے
کاکول اکیڈمی میں انہیں بہترین کارکردگی پر اعزازی شمشیر دیا -
کیپٹن اسفندیار شہید کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری معروف پیتھالوجسٹ اور پی ایم
اے کے سابق صدر ہیں۔ ان کے ماموں ڈاکٹر سید تنویر گیلانی آئی اسپیشلسٹ ہیں۔
ان کے بڑے بھائی شہریار بخاری لندن میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
ان کے چھوٹے بھائی احسان بخاری آرمی میڈیکل کالج میں سال آخرکے طالب علم
ہیں۔کیپٹن صاحب کی ایک ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور وہ 7 ستمبر کوایک ماہ
چھٹیاں گزارنے کے بعد ڈیوٹی پر گئے تھے۔کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اپنے
خاندان میں خوشیاں بکھیرنے والا یہ جوان آخری بار گھر سے جارہا ہے ۔ وہ
بیوی کا جس کا عروسی لباس ابھی میلا نہ ہوا وہ شہید کی بیوہ کہلائی گی۔
کیپٹن اسفند یار کا جسد خاکی جب قومی پرچم میں لپیٹ کر ان کے آبائی علاقے
چھوئی روڈ پر واقع گھر منتقل کیا گیا تو رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے،
شہریوں کی بڑی تعداد شہید کیپٹن کا دیدار کرنے کے لیے امڈآئی جب کہ شہید کے
والد نے بیٹے کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ شہید کیپٹن کے والد نے کہاکہ
انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے۔ انہوں نے بتایاکہ انکی شدید خواہش تھی
کہ اسفندیار ڈاکٹر بنے مگر وہ فوجی وردی پہننا چاہتا تھا جس پر بیٹے کی ضد
کے سامنے اپنی خواہش قربان کردی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا بیٹا ہر میدان میں
جیتتا رہا ہے اور آج شدت پسندوں کیساتھ بھی مقابلے میں اس نے میدان مار لیا
ہے۔
آج ایک بار پھر ایک اور جوان نے نئی داستاں رقم کردی۔ پاکستان کی تاریخ
بھری ہوئی ہے ایسے فوجی جوانوں کے کارناموں سے۔ جس طرح اسفندیار نے اپنے
کیمپ کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت حاصل کی اس پر حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ان
نشان حیدر یا تمغہ جرأت سے نوازے۔ میں اپنے کالم نگاروں کی طرف سے شہید وطن
کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں برابر
شریک ہو۔ |