بابا جان کے لیے امید کی نئی کرن
(Sardar Ashiq Hussain, Iskamabad)
آپ کچھ کر سکتے ہیں بابا جان کے
لیے ؟ دی ہیگ میں عالمی تنازعات سلجھانے سے شہرت پانے والے جسٹس (ر) علی
نواز چوہان نے نفی میں سر ہلاتے ہوے جواب دیا,, دیکھیں گلگت بلتستان کی
حیثیت متنازعہ ہے ، ہم برائے راست وہاں مداخلت نہیں کر سکتے، ، عجیب بات ہے
متنازعہ علاقے میں اسلام آباد سے گورنر تعینات ہوسکتا ہے ، چیف سیکرٹری اور
دوسرے انتظامی پرزے لگائے جا سکتے ہیں ، ظلم کے شکار کسی شخص کی مدد
کیوںنہیں کی جاسکتی ؟شاہراہ دستور میں وزارت قانون و انصاف کی عمارت میں
قائم انسانی حقوق کمشن آف پاکستان کے دفتر میں جسٹس (ر) علی نواز چوہان نے
ایچ آر سی پی کے کام اور طریقہ کار پر گھنٹے بھر کی بریفنگ دی مگر انسانی
حقوق کے معاملے میں بھی گلگت بلتستان متنازعہ ہی قرار پایا۔ بابا جان اور
ان کے ساتھیوں کا معاملہ ایچ آر سی پی نہیں لے سکتاا س لیے کہ ان کے نام کے
ساتھ گلگت بلتستان کا نام بھی آتا ہے ۔ جسٹس علی نواز چوہان ہیگ میں عالمی
عدالت انصاف کے جج رہ چکے ہیں ۔انٹرنیشنل کرمنل ٹربیونل کے جج بھی رہے
ہیں۔اس سال مارچ تک گھمبیا کے چیف جسٹس کے فرائض بھی ادا کیے ۔ اب جسٹس علی
نواز چوہان پاکستان میں سرکاری طور پر قائم انسانی حقوق کمشن کے چیرمین ہیں
۔بابا جان سے میری کوئی رشتہ داری نہیں ہے، نڈر اور بے باک بابا جان نے
ہنزہ کے عوام کے حق میں آواز بلند کرکے عمر قید کی سزا پاکر مجھے حیران
کردیا تھا ۔ پاکستان ورکرز پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے رکن اور گلگت بلتستان
کے قوم پرست رہنما بابا جان کا جرم یہ تھا کہ اس نے متاثرین عطا آباد کے حق
کے لیے احتجاج کا راستہ اپنایا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں 2011 میں ان پر
سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمے سمیت 15 سے زیادہ مقدمات درج کیے
گئے ۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بابا جان سمیت 13 افراد کے خلاف عمر
قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں، بعد ازاں چیف کورٹ نے بابا جان اور
ان کے ساتھیوں کی عمر قید کی سزا ختم کر دی تھی ۔ انسانی حقوق کے لے سرگرم
سیاسی کارکن نثار شاہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ افرسیاب خٹک کی سربراہی میں
سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے وفد نے بابا جان کیس کے سلسلے میںگلگت کا دورہ کیا
تھا جس کے نتیجے میں ان پر قائم کچھ مقدمہ ختم کیے گئے تھے بابا جان نے
2010 میں ہنزہ کی وادی گوجال میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کا معاملہ اٹھایا
تھا، متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے آواز بلند کی تھی، لوگوں کو اپنے
حق کے حصول کے لیے منظم کیا تھا۔ ہنزہ کے علی آباد علاقے میں ایسے ہی ایک
مظاہرے کے دوران پولیس نے فائر کھول دیا جس سے دو غیر مسلح لوگ مارے گئے۔
اس کے جواب میں مظاہرین نے ایک سرکاری عمارت کو آگ لگا دی۔بابا جان اس دن
وہاںموجود نہیں تھے، لیکن اسے گلگت جیل میں بند کردیا گیا، جہاں اس نے دیگر
تین ساتھیوں کے ساتھ دو سال قید کاٹی۔ رہائی پرگندم پر سبسڈی کے خاتمے کے
خلاف ایک بار پھر بابا جان احتجاج کے راستے پر تھا اس بار طاقت ور انتظامیہ
نے قانون کو اس طرح حرکت دی کہ بابا جان دہشتگرد قرار پا گیا اورگلگت جیل
کو بابا جان کا مستقل مسکن بنا دیا گیا۔ مقامی لوگوں نے ریاستی طاقت کے اس
بدصورت چہرے کو پہلی بار نہیں دیکھا نصف صدی سے اس خطے میں اسی چہرے کی
حکمرانی رہی ہے۔ یہ چہرہ طاقت ور انتظامیہ کا ہے۔ طاقت ور انتظامیہ کے
اہلکار بدلتے رہے مگر بابا جان ، کرنل نادر اور دوسرے سیاسی کارکن گلگت جیل
سے باہر نہ آسکے ۔ کئی دھاھیوں سے اسلام آباد گلگت بلتستان کے عوام کو
باختیار بنانے کے بجائے وہاں کی بیورو کریسی ، انتظامیہ کو بااختیار بنانے
کی پالیسی پر عمل پیرا رہاہے ۔ اس پالیسی نے گلگت بلتستان کے عوام کو سوچنے
پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر انہیں کوئی ایسا سیاسی نظام کیوں نہیں دیا جاتا
جس میں مسائل مقامی سطح پر حل ہوں، عوام حقیقی معنوں میں با ختیار ہوں،گلگت
بلتستان کو 2009 میں سیلف گورننس آرڈر کے تحت ایک قانون ساز اسمبلی دی گئی
جس کے تحت اب جی بی کا وزیراعلی بھی ہے او گورنر بھی۔ لیکن گلگت بلتستان کے
عوام اور سیاسی قیادت کو شکایت ہے کہ انھیں نہ تو حقیقی اختیارات ملے ہیں ا
ور نہ ہی انھیں پاکستان کے دوسرے صوبوں کے عوام کی طرح بااختیار بنایا گیا
ہے۔ گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر کے جی بی کا نیم صوبائی درجہ عوا م کو
بااختیار بنانے کے بجائے عوام کو سیاسی شعور فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوا
ہے ۔ اس سال اپریل میں وزیر اعظم نواز شریف نے دورہ گلگت بلتستان کے موقع
پر ایک انتخابی جلسے سے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو
اہنی حقوق دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کی
سربراہی میں کمیٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ۔ یہ رائے درست ہے کہ گلگت
بلتستان کے لیے آئینی حقوق کے حصول میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑی رکاوٹ رہاہے۔
گلگت بلتستان کا علاقہ ریاست کشمیر کا حصہ رہا ہے۔ کشمیر پر پاکستان کا
مقدمہ خراب نہ ہو یہ وجہ بیان کرکے جی بی کو پاکستان کا مستقل حصہ بنانے کی
مخالفت کی جاتی ہے ۔گلگت کی جغرافیائی اہمیت کے باعث یہ علاقہ پاکستان کی
سلامتی کے لیے خاصا اہم ہے۔گلگت کی سرحدیں روس، چین اور بھارت کے زیر
انتظام جموں و کشمیر سے ملتی ہیں۔گلگت بلتستان کے بغیرپاک چین اقتصادی
راہداری منصو بہ ممکن نہیں۔ اقتصادی راہداری منصو بے کی تکمیل کے لیے اس
خطے میں امن کا قیام اور عوام کا سیاسی احساس محرومی دور ہونا انتہائی اہم
ہے۔؟ مستقبل میں گلگت کی سیاسی سمت اسی سے طے ہوگی۔ ماضی میں اسلام آباد اس
خطے کے لیے شاندار سیاسی نظام دینے کے بجائے ریموٹ کنٹرولڈ نظام دینے پر
مجبور رہا ہے ۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں کمیٹی کے اعلان
نے گلگت بلتستان کے مقابلے میں آزاد کشمیر میں زیادہ پینک پید اکر دیا ہے
۔گزشتہ دو ماہ سے ریاستی اخبارات خبریں چھاپ رہے ہیں کہ کمیٹی نے گلگت
بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی سفارشات تیار کرلی ہیں ۔ ان
خبروں کی بنیاد پر آزاد کشمیر کے صدر ، وزیر اعظم اور سیاسی جماعتوں کے
قائدین گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی سفارشات پر
تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ۔27 اگست کوترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار
بریفنگ کے ابتداعی ریمارکس میں کہا,, وزیر اعظم نواز شریف نے اپریل میں
گلگت بلتستان کے اہنی حقوق کے لیے جس کمیٹی کا اعلان کیا تھا وہ تاحال
تشکیل ہی نہیں پاسکی اس لیے کمیٹی کی سفارشات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،،
آزاد کشمیر کے صدر ، وزیر اعظم ایک ایسے میلے پر ڈھول بجا کر اپنی شراکت
داری کا دعوی کررہیں جس کا ابھی کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ صورت حال ایسی ہے
کہ آزاد کشمیر کی تمام جماعتیں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ
بنانے کی مخالف ہیں۔ دوسری طرف گلگت بلتستان کی تمام جماعتیں آہنی حقوق کا
مطالبہ کررہی ہیں۔ زیادہ تر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے
کی حامی ہیں۔ آپشن تین ہو سکتے ہیں، گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں
صوبہ بنایا جائے، آزاد کشمیر کی طرز کا نظام دیا جائے یا پھر معائدہ کراچی
ختم کرکے دونوں خطوں کو ایک یونٹ بنا دیا جائے ۔اس میں کوئی حرج نہیں کہ
ایک ریفرنڈم کے زریعے گلگت بلتستان کے عوام کو خود فیصلہ کرنے کا اختیار
دیا جائے۔ جس طرح برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کے عوام کو ریفرنڈم کے زریعے فیصلہ
کرنے کا اختیار دیا تھا۔ یہ امر جی بی کے عوام کو بااختیار بنانے کی طرف
اہم قدم ہوگا۔ اس سے بابا جان کے دیس کے لوگوں کے لیے امید کی نئی کرن بھی
پیدا ہوگی۔ |
|