بن جونسہ جھیل خطرے میں

عجیب ملاح ہے یہ شخص، کشتی چلانا اس کا پیشہ نہیں ہے مگر مہارت سے کشتی چلاتا ہے، ماہی گیر نہیں ہے مگر مچھلی کا شکار کرتا ہے اور سیاست دان بھی نہیں ہے مگر سیاستدانوں کی باتیں جانتا ہے ۔ حمزہ نصیر کشتی کے چپو چلاتے ہوے میرے اند کا وہ ڈر اور خوف ختم کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو بن جونسہ جھیل میں ہچکولے کھاتی کشتی نے پیدا کر دیا تھا ۔ کام اس کا کشتی چلانا نہیں لکھنا اور سماجی شعور پیدا کرنا ہے ،میرے لیے ملاح بن گیا تھا۔ ایک سال پہلے میں نے دیکھا تھا جھیل کا سبز پانی اپنے اندر ایک عجیب سکون سموئے ہوئے تھا۔ جھیل کے خوشگوار احساس نے میری روح کو سر شار کر دیاتھا۔ اس جگہ کا سکون میری روح کے اندر تک اتر گیا تھا مگر اس دفعہ میں گارے اور مٹی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بارش سے بننے والے کیچڑ کے باعث سبزہ بھی ختم ہوتے دکھائی دے رہا ہے ۔ چپو چلاتے ہوے نصیر بن جونسہ جھیل کے درمیان میں پہنچ کر کہنے لگا اب جھیل گہری نہیں رہی مشکل سے تین میٹر گہر ی ہوگی ، یہ جمعہ چوبیس جولائی کی ایک دوپہر کا زکر ہے جب میں بچوں کے اصرار پر کھائی گلہ اور چھوٹا گلہ سے ہوتا ہوا بن جونسہ جھیل تک پہنچ گیا ۔ حمزہ نصیر سے نظر بچا کر جانا مشکل تھا اس لیے اسے میزبانی کا حق دینا ہی پڑا۔ اس دوران راز کھلا کہ سات سو کنال اراضی پر محیط بن جونسہ جھیل اب خطرے میں ہے۔جھیل کے مشرقی اور شمالی کناروں پر حفاظتی پشتے یا دیوار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے زمین کے کٹائو میں اضافہ ہو رہا ہے اور جھیل کے پانی کی جگہ مٹی لے رہی ہے جھیل سے مٹی نکالنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ممکن ہے آنے والے چند سالوں میں جھیل کا رقبہ سکڑ جائے اور جھیل چھو ٹے سے جوہڑ کا منظر بن جائے ۔بن جونسہ جھیل کی صفائی اور توسیع کے کام کا کوئی اسٹیک ہولڈر نہیں ہے چنانچہ جھیل کے پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور مٹی اوپر آ رہی ہے۔ کوئی ایسا انتظام بھی موجود نہیں ہے کہ سیاحوں کو جھیل آلودہ کرنے سے روکا جائے، سیاح پلاسٹک کی بوتلیں اور دوسرا کچرا جھیل کے پانی میں پھینکتے ہیں چنانچہ یہ آلودہ پانی اب جھیل کی مچھلیوں کے لیے بھی یہ پر سکون جگہ نہیں رہی۔گزشتہ دو سال سے مچھلی بھی کم ہو گئی ہے بن جونسہ جھیل آزاد کشمیر حکومت کے کنٹرول میں ہے، زمین محکمہ جنگلات کی ہے۔ محکمہ جنگلات ،محکمہ سیاحت اور محکمہ ماحولیات بن جونسہ جھیل بچانے کے امورمیں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔محکمہ پی ڈبلیو ڈی اور دوسرے سرکاری اداروں نے جھیل کے بہت قریب ریسٹ ہائوس تعمیر کر رکھے ہیں۔ یہ ریسٹ ہائوسز بھی جھیل کی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔ اگر کسی نظام کے تحت انہیں جھیل سے کچھ فاصلے پر بنایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اگر بن جونسہ جھیل کے کناروں پر پختہ حفاظتی دیوار یں تعمیر نہ کی گئیں اور جھیل کی صفائی کا کوئی نظام وضع نہ کیا گیا تو چند سالوں بعد ہم جھیل سے محروم ہو سکتے ہیں۔مون سون کے موسم میں جھیل کو خطرہ زیادہ ہے،۔جھیل میں گرنے والے نالے کے راستے جھیل میں پہنچنے والی مٹی کے حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سات سو کنال جھیل اراضی کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک سرکاری ملازم تعینات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جھیل کے نظارے کے لیے روزانہ پانچ ہزار سے دس ہزار سیاح بن جونسہ کا ر خ کرتے ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد جزوقتی ہوتے ہیں جو جھیل کے قریب دن گزار کر شام کو واپس چلے جاتے ہیں۔ 20 فیصد قریبی ہوٹلز ،گیسٹ ہائوسز اور ریسٹ ہائوسز میں قیام کرتے ہیں عید کے دوسرے اور تیسرے دن سیاحوں کی غیر معمولی تعداد نے بن جونسہ کا رخ کیا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے مقامی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس فائدے کے باوجود سیاحوں کے لیے مناسب سہولیات کا فقدان ہے ۔بن جونسہ جھیل کے احاطے میں داخل ہونے کے وقت رہنمائی کرنے والا کوئی دفتر ، کیمپ موجود نہیں۔ جزوقتی سیاحوں کے لیے اس پورے علاقے میںرفع حاجت کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے۔خواتین بچے بوڑھے، شوق سے جھیل کا رخ ضرور کرتے ہیں مگر خوشی سے واپس نہیں جاتے اس لیے کہ ان کی توقع کے مطابق انہیں سہولیات میسر نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی رہنمائی اور ان کی سہولت کا کوئی منصوبہ زیر کار نہیں ۔ دوردراز سے آنے والے سیاح رفع حاجت کے لیے کہاں جائیں؟ یہ سب سے اہم سوال ہے ۔ بد قسمتی ہے یونیورسٹیاں اور، میڈیکل کالج بنانے والی حکومت بن جونسہ جھیل میں چند لاکھ روپے کی لاگت سے واش رومز بنانے سے قاصر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ واش رومز بنانے سے حکمران جماعت اور عوامی نمائندوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ممکن نہیں۔اسلام آباد میں سی ڈی اے نے مختلف پارکوں اور تفریحی مقامات پر واش رومز پراجیکٹ شروع کیا تھا یہ منصوبہ اپنی لاگت خو د پوری کر چکا ہے ۔ دس سے پندہ لاکھ روپے کی لاگت سے ایک واش رومز ہاوس بنایا جا سکتا ہے ۔ بن جونسہ جھیل کے احاطے میں ایک واش رومز ہاوس سال کے اندر اپنی لاگت پوری کر سکتا ہے ، انتظامیہ چاہے تو اس مقصد کے لیے زمین لیز پر دے کر نجی شعبے سے مدد لے سکتی ہے ۔آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کے دعوے کرنے والی حکومت کے لیے یہ بات باعث شرم ہے کہ بن جونسہ جھیل کے سیاح کھلی فضا میں رفع حاجت پر مجبور ہیں۔ تحفظ ماحولیات ایجنسی آزاد کشمیر کے حکام کو بھی حصول تنخوا کے علاوہ بھی کوئی کام کرنا چاہیے ۔ بن جونسہ جھیل اور اس طر ح کے دورسرے تفریحی مقامات کو الودہ ہونے سے بچانے کے لیے اگاہی مہم شروع کی جا سکتی ہے ۔ غیر سرکاری تنظیموں نے اپنا بجٹ ٹھکانے لگانا ہوتا ہے ان سے ہی مدد لی جا سکتی ہے ۔بن جونسہ جھیل ایک مثال ہے دوسرے صحت افزا مقامات پر بھی یہی صورتحال ہے۔ باتھ رومز نہ بنا سکنے والی حکومت سیاحت کی ترقی کا دعوی کیسے کر سکتی ہے؟ حمزہ کا سوال جائز ہے اس کے خیال میں اس عید الفطر پر سیاحوں نے جو مشکلات اٹھائیں شاید ہی وہ دوبارہ یہاں کا رخ کریں . جانسہ خان کے پوتے سردار صادق خان 1960سے بن جونسہ جھیل کی سیر کے لیے آنے والے مہمانوں کی میزبانی کا فریضہ ادا کررہے ہیں ۔ سیاحوں کے لیے بنائے گئے گیسٹ ہاوس کے ساتھ پبلک کے لیے واش رومز بھی تھے ۔5مئی 2015 کوبن جونسہ جھیل پر تجاوزات کہ خلاف تیسرے آپریشن میں سردار صادق خان کے گیسٹ ہاوس کے ساتھ پبلک واش رومز بھی مسمار کر دیے گئے ۔ متاثرہ سردار صادق خان نے مجھے بتایا کہ میرا ایک کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا ہے ۔ متبادل واش رومز ہاوس نہیں ہے لوگ کہاں جائیں ؟ عقل و شعور رکھنے والوں سے سردار صادق خان کایہ سوال جائز ہے ۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 55848 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More