بجلی منصوبے اور حکومتی دعوے
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
ایک نئی خبر کے مطابق سستی
بجلی کے منصوبے سردخانے کی نذر ہوگئے ہیں۔حکومت کے بجلی پیدا کرنے کے دعوے
صرف دعوے ہی رہ گئے ہیں۔ دیامیر، بھاشاڈیم ، داسو ہائیڈروپاورپروجیکٹ ،
خیال کوار ہائیڈروپاور پروجیکٹ، نیلم جہلم ہائیڈروپاور پروجیکٹ اور تر بیلا
ڈیم کی چوتھی توسیع جیسے منصوبے حکومتی عدم توجہ کا شکار ہوگئے ہیں۔ وزارت
منصوبے بندی کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق4500میگاواٹ دیامیر بھاشاڈیم کی
زمین کی خرید اری کے لیے گزشتہ مالی سال میں60ارب کا تخمینہ تھا جس کے لیے
15ارب گزشتہ مالی سال میں جاری کرنے تھے لیکن پورامالی سال گزرنے کے باوجود
یہ رقم جاری نہ کی گئی۔ اسی طر ح اب پی ایس ڈی پی میں 10ارب جاری کرنے تھے
دوماہ گزرنے کے باوجود کوئی رقم جاری نہ ہوئی۔داسو ہائیڈروپروجیکٹ کے لیے
گزشتہ مالی سال میں مختص 1ارب بھی جاری نہیں ہوئے ۔اسی طرح نیلم جہلم
ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لیے گزشتہ مالی سال میں مختص رقم 13.5ارب بھی جاری
نہیں کیے گئے جبکہ رواں مالی سال کے لیے رکھے گئے 5ارب50کروڑ روپے میں سے
بھی کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔ جامشورو میں 660میگاواٹ کے کوئلہ سے بجلی
کی پیداوراکے منصوبے کے لیے 3.3ارب جاری نہیں ہوئے۔اسی طرح دوسرے منصوبوں
جس میں داسوکے لیے 1ارب جاری نہیں ہوئے ۔ خیال کوار ہائیڈرو پروجیکٹ کے لیے
60کروڑ بھی جاری نہ ہو ئے ۔ اب تک کسی بھی پروجیکٹ کے لیے رقم جاری نہیں کی
گئی ہے۔ پورے ملک کو تقریباً 3سے 4ہزار میگاواٹ بجلی لوڈشیڈنگ کاسامنا ہے۔
اس میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔اسلام آباد کیپٹل میں 6گھنٹے لوڈشیڈنگ
کی جاری رہی ہے جو ڈھائی سال پہلے کم تھی اب چھ گھنٹے ہوگئی ہے ۔ حکومتی
دعووں اور وعدوں کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وجہ صاف ظاہر
ہے کہ نون لیگ حکومت کی تر جیحات میں ہی نہیں کہ بجلی لوڈشیڈنگ کو کم کیا
جائے۔ نئے منصوبے شروع کر یں جومنصوبے شروع ہے ان کو فنڈز ریلیز کر یں ۔
پاکستان کو اﷲ نے قدرتی وسائل سے مالا مال رکھا ہے ۔ان قدرتی وسائل میں
پانی بھی ہے جس سے آسانی کے ساتھ اور سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ
حکومت نے جو کاغذی کارروائی کی تھی اسی طرح آج بھی ان ہائیڈروپروجیکٹ پر
کام نہیں ہوا۔کام تو تب ہوگا جب حکومت فنڈز جاری کریں گے۔گزشتہ حکومتوں کی
غلطیاں یہ ہے کہ انہوں نے ان کو ہا ئیڈروپاور پروجیکٹ کے نام دیے ہیں اگر
ان کو میٹرو کانام دے دیتی تو کم از کم نون لیگ حکومت ان پر کام شروع کرتی
۔ خیبر پختونخوا کے ساتھ تو نون لیگ کی پرانی دشمنی ہے جہاں پر ان کی حکومت
ہائیڈروپروجیکٹ نہیں لگا رہی ہے حالانکہ سب سے زیادہ ہائیڈرو پروجیکٹ کے
لیے موقعے خیبرپختونخوا میں ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ جو پروجیکٹ شروع ہے
سب کچھ ان کا تیار ہے اس پر بھی کام شروع نہیں ہوتا۔صرف اگردیامیر بھاشاڈیم
بنایا جاتا جن پر 60ارب خرچ ہونا تھا اور یہ اس پروجیکٹ سے4500میگاواٹ بجلی
پیدا ہوتی توپاکستان میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جاتا۔ اسی طرح گزشتہ کئی
سالوں سے بجلی بلوں میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے نام پر پیسے
صارفین سے کاٹ لیے جاتے ہیں لیکن نیلم جہلم پروجیکٹ کے لیے گزشتہ سال بھی
رقم جاری نہ ہوئی اور اس سال تین مہینے گزرنے کے باوجود مختص رقم جاری نہ
ہوئی ۔ ناقدین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ ان پروجیکٹ میں کرپشن کا لیول
کم ہے اسلئے حکومت ان پروجیکٹس پرتوجہ نہیں دے رہی ہے۔نندی پور پاور
پروجیکٹ کی کہانی گزشتہ کالم میں بیان کر چکا ہے کہ اس میں حکومت نے اربوں
کی کرپشن کی ہے۔اسی طرح ہر ماہ بجلی بلوں میں صارفین سے ٹیکس کے نام پر
مختلف ناموں سے بھتہ وصول کیا جارہاہے۔ جن میں سیلز ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، ٹی
وی ٹیکس، بجلی استعمال ٹیکس ، مزید ٹیکس ، اضافی ٹیکس،عام ٹیکس ، ایریا
ٹیکس معلوم نہیں کونساکونسا ٹیکس صارفین سے لیا جاتا ہے۔جو بل زرداری دور
میں 15سوکا آتاتھا اب وہ 35سو آتاہے باوجود یہ کہ بجلی لوڈشیڈنگ اسی طرح
جاری ہے۔
حکومت چونکہ سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کی ہے اس لئے امیر طبقے یعنی
کارخانداروں اور سرمایہ داروں سے اس طرح ٹیکس نہیں لیا جاتا جو ٹیکس غریب
سے لیا جاتا ہے۔عام آدمی ہر مہینے کسی نہ کسی صورت میں ٹیکس ادا کرتا ہے۔
اکثر امیر طبقہ اپنے کارخانوں اور انڈسٹری کو چلانے کے لیے بجلی چوری کرتا
ہے۔ حکومتی اداروں سمیت مختلف علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے اور یہ چوری
واپڈ اہلکاروں کی تعاون سے ہوتی ہے۔ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں اور
آخرمیں سارا بوجھ غریب صارفین پر پڑجاتا ہے اور عام آدمی مجبورا ًاس بھتے
کو ادا کرتا ہے کیوں کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ بجلی
بل ادا نہ کریں ۔
اپوزیشن جماعتوں کاکام ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی نااہلی پران کو روکے اور
عوام کے سامنے ان کی کرپشن اور پالیسز کو بے نقاب کریں ۔ پاکستان کی
بدقسمتی یہ ہے کہ پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور نون لیگ اپوزیشن میں
تھی اور اب نون لیگ حکومت میں ہے تو پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعت ہے ۔ دونوں
ایک دوسرے کی کرپشن اور نااہلی کو حقیقی معنوں میں چھپاتے ہے۔جتنا ہو سکتا
ہے دونوں جماعتیں ایک دوسر ے کا ساتھ دیتی ہے بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف
بیانات عوام کو صرف دوکے کیلئے دیے جاتے ہیں۔ نئی جماعت تحریک انصاف اپنی
بساط کے مطابق بات کرتی ہے لیکن اب تک حکومت کی میگا کرپشن اور نااہلی قوم
کے سامنے خاص کر پنجاب میں بے نقاب نہیں کر پائی ہے۔ |
|