کوئی ہم سا نہیں

 اﷲ تعالی نے ہر انسان کو ایک منفرد حیثیت میں پیدا کیا ہے پیدائش سے لیکر موت تک آپ کسی اور جیسے نہیں بن سکتے نہ کوئی آپ جیسا بن سکتا ہے اس وقت دنیاکی آبادی تقریبا 7ارب39کروڑ 23لاکھ 68ہزارلوگوں پر مشتمل ہے اور ہر گذرنے والے سیکنڈکے ساتھ ہی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں انکی بظاہر ظاہری شکل وصورت اور حرکات ایک جیسی ہوسکتی ہیں مگر اﷲ تعالی نے ایک انسان کو جوخوبی اور اسے جو خاص شناخت دی ہے وہ دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں ہے صرف آپ اپنے انگھوٹے کی الٹی سیدھی لکیروں کو ہی دیکھ لیں کہ جب آپ اپنے انگوٹھے کو ایک چھوٹی سی مشین کے اوپر رکھتے ہیں تو وہ مشین آپکا سارا ریکارڈ نکال باہر کرتی ہے یہ صرف پاکستان میں ہی آپ کی پہچان کا زریعہ نہیں بلکہ دنیاکے کسی بھی کونے میں آپ چلے جائیں آپ کا انگوٹھا جیسے ہی مشین کے چھوٹے سے شیشے پر لگے گا تو آپ کا سارا ریکارڈ معلوم ہوجائے گامگر ہم نے خدا کی طرف سے دی ہوئی خصوصیات کو اپنے اندر نمایاں نہیں ہونے دیا اور اپنے کام سے کتنے مخلص ہیں یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں جیسے ہی ہمارے پاس کوئی اختیار آجاتا ہے تو تکبر اور غروربھی ہمارے ساتھ آکر چمٹ جاتا ہے جو اﷲ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جو ذمہ داری ہمیں سونپ دی گئی ہم اسکا معیار بھی پیسوں میں تول کرطے کرتے ہیں دنیا میں وہی لوگ نامور اورکامیاب ٹہرے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو پہچان کر ایمانداری اور محنت سے اپنے حصے کا کام کرنا شروع کردیا ہم میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہیں جو کام سونپ دیا گیا وہ اس پر بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں اگر انسان اپنی حقیقت پہچان لے تو پھر دنیا کی باقی تمام حقیقتیں اسکے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ 7کروڑ سے زائد کی آبادی میں ہر انسان کی حیثیت سب سے الگ ہے یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنی صلاحیتوں کو مثبت یا منفی انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنی پہچان کو کہاں تک پہنچاتے ہیں اور ان افراد میں نمایاں ہونا ہے جو دنیا میں نامور بن گئے اس کے لیے بہت زیادہ بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں بس اﷲ تعالی نے جو آپ کو زہن دے رکھا ہے اسکا استعمال مثبت انداز میں کرنا شروع کردیں اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرناہی انسان کو سمجھ آجائے تو اس سے طاقتور انسان بھی کوئی نہیں ہے مگر ہم نے اپنی سوچوں کا زاویہ تبدیل کررکھا ہے اس میں ہمار ے والدین اور اساتذہ کی تربیت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے انسان ہر وقت اپنے فیصلوں کی بدولت ایک بارڈر لائن پر کھڑا ہوتا ہے اسکے اچھے فیصلے اور اچھی سوچ اسے بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ بری سوچ سے نہ صرف انسان خودپریشان ہوتا ہے بلکہ اسکے اردگرد والے بھی اس سے پناہ مانگتے ہیں انسانی سوچ ریلوے لائن کا وہ کانٹا ہے جیسے انسان خود اپنے ہاتھوں سے تبدیل کرتا ہے صرف ایک لیور دبانے سے ٹرین کا رخ مشرق سے مغرب کی طرف مڑ جاتا ہے بلکل اسی طرح اچھے یا برے راستے کا تعین کرنا بھی انسان کے اپنے اختیار میں ہے مگر اسکے لیے ضروری ہے انسان کی تربیت اس ماحول میں ہوئی ہو جہاں سے اچھے اور برے میں فرق کرنے کا طریقہ سمجھ آجائے بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے دہشت گرد بھی اسی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور دنیامیں اپنی شناخت قائم کرنے والے بھی ہمارے اسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے کام اور ہنر کی بدولت معتبر ٹہرے اسی لیے تو امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی نامزدگی دوڑ میں شامل اہم امیدوار ہلری کلنٹن نے لاس اینجلس میں معروف پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر آصف محمود کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ پاکستانی باصلاحیت اور زبردست لوگ ہیں اور اْن میں کامیابی کے حصول کی بھرپور اہلیت موجود ہے ان کی صلاحیتوں کو اس لیے بروئے کار نہیں لایا جا سکا کیونکہ وہاں ایک اچھے نظام حکومت اور اچھی معیشت کے لیے درکار درست اجزا موجود نہیں مگر جب پاکستانی امریکہ آتے ہیں یا کسی دوسرے ملک میں جاتے ہیں تو وہ ’’انتہائی کامیاب‘‘ ہوتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کے یہ الفاظ بلکل درست ہیں ہم بہت باصلاحیت قوم ہیں انتہائی غربت ،بے بسی اور لاچارگی کے عالم میں بھی ہم نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے اتفاق فاؤنڈری والا نہیں بلکہ حقیقت میں ہم نے اپنا وجود تسلیم کروایا ہے اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں ہمیں کام کرنے کا پورا موقعہ دیا جاتا ہے وہاں کا ماحول ہماری طرح سفارشی اور راشی نہیں ہوتا وہاں کا نظام انصاف ہماری طرح کا انصاف نہیں کرتا،ہماری طرح وہاں اپنوں کو نوازا نہیں جاتا، اشتہارات کے نام پر پیسے کی بندر بانٹ نہیں کی جاتی ،نہ وہاں پر ہماری طرح ایک فیصد طبقہ ملک کے تمام وسائل پر قابض ہے اور نہ ہی وہاں کی پولیس مظلوموں کی دشمن اور ڈاکوؤں کی محافظ بنتی ہے بلکہ وہاں حق دار کو ڈھونڈ کر اسے اسکا حق دیا جاتاہے فکر معاش سے آزاد اور علاج معالجہ کی درد سری سے دور ہوکر انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقعہ ملتا ہے مگر ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود ہم نے دنیا کو بتایاہے کہ پاکستانیوں پر اﷲ تعالی کا خاص کرم ہے کہ یہ بار بار لٹنے کے باوجود اس مکڑی کی طرح دیوار پر چڑھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے جسے دیکھ کر شکست خوردہ بادشاہ نے حوصلہ پکڑ کر فتح کے جھنڈے گاڑ دیے تھے ہم تو اشرف المخلوقات ہیں اور اﷲ تعالی نے زمین و آسمان ہمارے لیے بنائے ہیں اور ہم میں حوصلہ بھی دیا ہے مگر بات صرف یہاں پر آکر رک جاتی ہے کہ ہم اپنے حوصلے کو پس پشت ڈال کر انتقام کی آگ میں جلنا شروع کرکے اپنی شناخت کھو دیتے ہیں جسکی وجہ سے ہماری صلاحیتیں جل کر خاکستر ہو جاتی ہیں اور پھر یہی انتقام ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر ہمارے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اگر ہم نے اپنے آپ کو بدلنا ہے تو سب سے پہلے اپنے ارادے مضبوط اور حوصلے بلند کرنا ہونگے کیونکہ کوئی ہم سا نہیں ہے ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 614025 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.