عطائی اور ان کے نسخے

اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ریاست کے منتخب نمائندے ایسے ہیں جو قرآن کریم کی پہلی پانچ سورتوں کے نام تک نہیں جانتے حالانکہ ریاست کی بنیاد کلمہ لاالہ الااللہ پر رکھی گئی تھی، جنہیں اپنی بنیاد کا ہی علم نہ ہو وہ ریاست کی بنیادوں کو کس طرح مستحکم کر سکتے ہیں؟ قرآن کریم کے بارے میں خود باری تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ایسی آفاقی کتاب ہے جو تمہاری زندگی میں رونما ہونے والے ہر مسئلے کا حل بتلاتی ہے اسے تھامے رکھنا کبھی بے راہ نہ ہوگے، لیکن المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اتنا نہیں جانتے کہ اس کی کتنی سورتیں ہیں؟ کتنے پارے ہیں؟ اور پھر سورتوں کے نام کیا کیا ہیں؟ وہ اس میں موجود ہر قسم کے حوادث سے نبرد آزما ہونے کے تیر بہدف نسخوں سے کہاں واقف ہونگے، قصور انفرادی نہیں اجتماعی ہے کیونکہ ایسے”باصلاحیت“ افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے کا سارا کریڈٹ ریاست کی عوام کو جاتا ہے جو سب کو جاننے کے باوجود صرف پارٹی بازی اور شخصیت پرستی کی لت میں مبتلا ہو کر ان افراد کے کردار وافعال سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر وہاں پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ منتخب نمائندے ان کے مفادات سے آنکھیں بند کر کے اپنے اور اپنی اگلی سات نسلوں کے مفادات کو محفوظ کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں نتیجہ سب کے سامنے ہے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

جب ایسے عطائی علاج کیلئے تجویز کیے جائیں جو امراض کے بجائے مریض کی جیب پر نظر گاڑے بیٹھے ہوں اور جو مسیحائی کی ابجد تک سے ناواقف ہوں تو مریض کا اللہ ہی حافظ ہے۔

آج کل دنگل کی تیاری پھر زوروں پر ہے ریاست کی ہر پارٹی اپنے اپنے مفادات کا پھریرا اٹھائے”ہم چوں ڈنگرے نیست“ کے بلند وبانگ دعوﺅں کے ساتھ پنجہ آزمائی کے موڈ میں ہے دیکھئے کون میدان مارتا ہے اور کون میدان سے دُم دبا کے بھاگتا ہے لیکن اتنی بات کنفرم ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ کیلئے اس میدان سے منہ نہیں موڑیں گے پھر چار چھ ماہ بعد لنگوٹ کس کر ”ہے کوئی ہماری ٹکر کا تو سامنے آئے“ کی صدا لگاتے میدان میں ہونگے، اُکھاڑ پچھاڑ کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا تاآنکہ حاکم بدہن میدان ہی باقی نہ رہے یا مکین ہی روز روز کی اس اُکھاڑ پچھاڑ سے تنگ آکر ان ”قومی پہلوانوں“ کو اُٹھا کر باہر پھینک دیں کہ ”تنگ آمد بجنگ آمد“ خیر مستقبل قریب کے لیل و نہار جلد ہی اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کہ یہ کھیل کب تک جاری رہنا چاہئے اور مکینوں کی قوت برداشت کب جواب دیتی ہے۔

تاحال تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ قومی امراض کا علاج ہر عطائی نے اپنے تئیں خوب تر کیا لیکن مرض بڑھتا گیا، ظاہر ہے کہ شوگر کے مریض کو چینی کھلا دی جائے تو جو حالت بنتی ہے وہ تو مریض ہی جانتا ہے کھلانے والوں کو کیا معلوم؟ مثال کے طور پر اپنے وزیر خارجہ صاحب کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان کی پوری کوشش ہوگی کہ طالبان افغانستان پر دوبارہ قابض نہ ہو سکیں، جانتے ہیں یہ نسخہ اکسیر کس مرض کے لئے تجویز کیا گیا ہے؟ نہیں جانتے تو ہم آپ کو بتلا دیتے ہیں، تاکہ پاکستانی قوم کی ایک کثیر تعداد مغربی بارڈر پر مصروف کردی جائے اور بھارتی بارڈر خالی رہے اس نسخے سے کئی فوائد حاصل ہونگے، امریکی بھیک کے چند ٹکے ہر سال باقاعدگی سے ملتے رہیں گے، صوبہ سرحد میں لگائی گئی آگ بآسانی ملک کے دوسروں حصوں تک پہنچائی جائے گی کیونکہ سائبیریا کی ٹھنڈی ہواﺅں نے قوم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اس آگ سے قوم ہاتھ تاپے گی، انڈیا جو ہمارا”ازلی دوست “ ہے وہ دراندازی کے خوف سے محفوظ رہنے کے لئے باڑ تو لگا ہی چکا ہے مزید وہ بے خوف ہو کر کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھا سکے گا اور ہماری فوج کی غیر موجودگی میں پاکستانی سرحدی علاقوں میں نشانہ بازی کی مشق سہولت سے کر سکے گا، اس طرح کے کئی فوائد حاصل ہونگے جو ”وسیع تر قومی مفاد“ کے پیش نظر صیغہ راز میں رکھے جا رہے ہیں۔

بعینہ اسی طرح کا ایک اور نسخہ کیمیا بھی قوم پر آزمایا جارہا ہے وہ یہ کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے اور اس تگ ودو میں حکمران جماعت اور اے این پی والے اس طرح ہلکان ہوئے جا رہے ہیں کہ جیسے صوبہ کا نام تبدیل کرتے ہی صوبے کو درپیش مسائل ہوا میں دھویں کی طرح تحلیل ہو جائیں گے لیکن بُرا ہو فرینڈلی اپوزیشن کا کہ اچانک بنے بنائے کھیل کو بگاڑ کر رکھ دیا اور یوں یہ مسئلہ کھٹائی میں جاتا نظر آرہا ہے، فرینڈلی والوں کو بھی اپنے مفادات پر چوٹ لگتی نظر آئی تو وہ منہ موڑ گئے ورنہ رات کے کھانے پر تو سب راضی اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رخصت ہوئے تھے، اس نسخے سے بھی کئی فوائد حاصل ہونگے، مثال کے طور پر چند ایک کا تذکرہ کیے دیتے ہیں، قومیت وعصبیت کو ہوا دینے میں مدد ملے گی جو ہمارے ملک میں بالکل ناپید ہے، پڑوسی ملک کے اس دعوے کو تسلیم کرنے میں آسانی ملے گی کہ یہ حصہ اُس کا تھا 63 سال سے پاکستانی لینڈ مافیا نے ناجائز قبضہ کیا ہوا تھا۔ تو اُسے نام کی تبدیلی سے اپنی زمین وا گزار کرانے میں آسانی ملے گی آخر پڑوسیوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں، اس طرح کے نجائے دسیوں فوائد اس قوم کی جھولی میں پکے پھل کی مانند آن گریں گے، قوم کو ایسے ناخداﺅں کا مشکور ہونا چاہئے جو آہستہ آہستہ کشتی کو کنارے سے دور اور طوفانوں کے سپرد کرنے میں مگن ہیں، بارش کے بعد اُڑنے والے کیڑوں کی طرح ہمارے یہ ”عطائی حکما“ بھی تعداد میں بے شمار ہیں شاعر نے انہی کو دیکھ کر شاید کہا تھا۔
ہر شاخ پہ....بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

اسی طرح ان کے نسخوں کی تعداد اور افادیت بھی کچھ کم نہیں ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر اور اس قابل ہے کہ”بلیک واٹر“ سے لکھنے کے قابل ہے، بجلی کا بحران ختم کرنے کیلئے ایسے ایسے نسخے استعمال کیے گئے جو بحران تو ختم نہ کر سکے البتہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی غربت ختم کر گئے بے چارے اپنے ملکوں میں بے روزگار پڑے تھے یہاں انہیں اسٹین لیس اسٹیل کنٹریکٹ پر روزگار مل گیا، دنیا میں ملے نہ ملے آخرت میں اس”نیکی“ کا ثواب ضرور ملے گا ان ”عطائیوں“ کو انشاءاللہ العزیز، اتنے احسانات کے باوجود بھی یہ ناشکری عوام اس دعا میں مصروف ہے کہ اے اللہ!ہمیں ایسے ناخداﺅں اور ان کی تدبیروں سے محفوظ فرما اور پکے ناخدا عطا فرما جو ڈوبتی ناﺅ کو کنارے لگا دیں۔ رب ذوالجلال تو انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے جانے کب یہ دعا اُس کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے؟ اُن عطائیوں کے بجائے جب یہ سوال قرآن کریم سے کیا تو فوراً علاج بتا دیا کہ اپنے آپ کو بدلو، صحیح رُخ پہ آجاﺅ اپنے کریم رب کے قریب ہو جاﺅ تو یہ مصائب ٹل جائیں گے لیکن شرط یہی ہے کہ اپنے رہن سہن، معاشرت و معیشت کو بدلو، مدینہ والی بنا لو تب نجات ممکن ہے ورنہ رب ذوالجلال کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود کو اس سانچے میں ڈھالنے کی سعی نہ کریں جو رب کی رضاء والا ہے، اللہ تعالیٰ پوری امت مسلمہ کو اپنی رضا والے سانچے میں ڈھال دے۔ آمین یا ارحم الرحمین

تحریر: ہارون اقبال
Haroon
About the Author: Haroon Read More Articles by Haroon: 13 Articles with 14572 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.