ابو آپ سو جائیے رات کے 12 بج
چکے ہیں
بیٹا مجھے نیند نہیں آ رہی ہے آپ سو جائیں میں تھوڑی دیر میں سو جاؤنگا
اس رات ابو تھوڑے پریشان دکھ رہے تھے میں نے بارہا پریشانی کی وجہ معلوم
کرنی چاہی مگر ابو نے کچھ نہیں بتایا
رات کے ایک بجتے ہی مجھے نیند آ گئی ..
صبح جب آنکھ کھلی ایک عجیب سا شور سنائی دیا مجھے لگا سانپ نکلا ہوگا لوگ
اسے مار رہے ہونگے
مگر دل کو پھر بھی سکون نہیں ملا تو میں چھت سے نیچے اتر کر یہ جاننے چلا
آیا آیا آخر اتنا شور کیوں برپا ہے
وہاں کا منظر دیکھ کر میرے ہوش اڑ گے گھر کے دروازے پر سیکڑوں لوگ جمع تھے
میں گھر کے اند داخل ہوا تو دیکھا امی اور کچھ لوگ مل کر ابو کے تلوؤں کی
مالش کر رہے ہیں کچھ ڈاکٹر کو کال کر رہے تھے کچھ امبولنس بلانے کی بات کر
رہے میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا آخر میرے ابو کو ہوا کیا ہے یہ بھیڑ
کیوں اکٹھا ہے میں ابو کے سامنے پہنچا ابو مجھے دیکھ کر روئے جا رہے تھے
مگر کچھ بول نہیں پا رہے تھے میں بار بار سوال کر رہا تھا ابو کیا ہوا ہے
آپ کو بتائیے نا؟ ایسے نا امید ہوکر کیوں دیکھ رہے ہیں مجھے مگر میرے
سوالوں کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا
مجھے احساس ہو گیا کہ ابو پہ پھر سے پارا لائسس کا اٹیک ہوا ہے
تھوڑی دیر میں ایمبولنس آئی ہم ابو کو لیکر پٹنہ کیلئے روانہ ہوئے راستے
بھر ﷲ سے میں ایک ہی دعا مانگتا رہا یا ﷲ میرے ابو کا سایا میرے سر پہ
ہمیشہ سلامت رکھنا
گاڑی ابھی حاجی پور ہی پہنچی تھی کہ ابو کی سانس تھم گئی ایک کلنک پر لوگوں
نے گاڑی روک کر ڈاکٹر سے ابو کا جائزہ لینے کو کہا ڈاکٹر نے ابو کو چیک
کرنے کے بعد اپنے کیبن میں خالو ابو کو بلا کر کیا کہا مجھے نہیں معلوم جب
وہ باہر نکلے انکی آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے اور میں
بارہا یہی سوال کرتا رہا ڈاکٹر نے کیا کہا دیکھیے یہ اچھا ڈاکٹر نہیں ہے
اسکی باتوں پہ مت آئیے آپ ابو کو لیکر پٹنہ چلیے نا میرے سوال پر ہر کوئی
مجھے گلے لگا کر رونے لگتا اور میں چیخ چیخ کر کہتا رہا مجھے ہمدردی کی
ضرورت نہیں ہے مجھے ابو کی ضرورت ہے
سب لوگ پھر سے گاڑی میں بیٹھے مجھے تھوڑا سکون ملا میں اپنے ابو کو اچھے
ڈاکٹر سے دکھاؤنگا یہ جھوٹے لوگ ہیں انکی باتوں میں نہیں آنا مجھے مگر گاڑی
واپس موڑ دی گئی
یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ میں نے کہا نا پٹنہ چلنا ہے وہاں اچھے ڈاکٹر ہیں
میں جانتا ہوں
خالو ابو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بول پڑے بیٹا ابو نہیں رہے
کیا؟
ذہن میں طرح طرح کے سوال پیدا ہونے لگے کبھی میں امی کی طرف دیکھتا جو شروع
سے لیکر ابتک خاموش تھیں کبھی ابو کی طرف
سوچ رہا تھا گھر جاکر اپنے چھوٹے بھائی کے سوال کا کیا جواب دونگا جو محض
7سال کا ہے حامدی کو کیسے بتاؤنگا کہ بھائی ہم یتیم ہوگئے آپی کو کیسے
سمجھاؤنگا کہ ہمارے ابو اب نہیں رہے
ہم سیوان پہنچے جہاں 20 سال سے ابو ایک مدرسے میں شیخ الحدیث تھے اور 20
سال سے مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے
لوگوں نے کہا ہماری خواہش ہے ہم غسل دے کر جنازے کی نماز ادا کر لیں جمعہ
سے پہلے ابو کو غسل دیا گیا اور جمعہ کے نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھنے
کیلئے لوگ اکٹھا ہونے لگے بھیڑ کو دیکھ کر ہر جگہ چھوٹی نظر آ رہی تھی آخر
میں مدارپور کالج کے فیلڈ میں جسے عام طور نیتاؤں کی ریلیوں کیلئے استعمال
کیا جاتا ہے پہلی بار نمازے جنازہ ادا کی گئی جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ
شامل تھے
پھر ابو کو لیکر ہم اپنے آبائی وطن پوکھریرا آ گئے یہاں میرے منجھلے بھائی
حامدی کے علی گڑھ سے آ جانے پر دوبارہ نمازے جنازہ ادا کی گئی اور سنیچر کے
دن نماز عصر کے بعد ابو دفن کئے گئے
ﷲ انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے- آمین
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے جیسے میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں ایک خوفناک خواب
کبھی تو صبح ہوگی کبھی تو کوئی آئیگا مجھے جگانے
مگر نہیں
مجھے اپنی پوری زندگی اسی خوفناک خواب جو ایک حقیقت ہے کے سائے تلے گزارنی
ہوگی
اب تو ہر رات سوتے وقت ایسا گمان ہوتا ہے کہ اب صبح نہیں ہوگی.ابو کے جانے
کے بعد جو خلا میرے اند پیدا ہوئی ہے اسکا پر ہونا نا ممکن ہے
میرے اندر اداسی گھر کر چکی ہے میں زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں
بس سانس لینے کا نام اگر زندگی ہے تو میں زندہ ہوں ورنہ......
انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں مگر قیامت بس ایک بار آتی ہے
اور ہر چیز فنا ہو جاتی ہے تمام خواب آنکھوں میں دفن ہو جاتے ہیں حسرتیں
سینے میں دم توڑ دیتی ہیں
انسان کا وجود جل کر راکھ ہو جاتا ہے اور پھر غم کی ایک ایسی بارش ہوتی ہے
کہ صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹ جاتا ہے
اور میں مٹ چکا ہوں |