اسٹریٹ پاور سے اسٹریٹ کرائم تک

جمعرات کی صبح نماز فجر کے بعد حسب معمول بیکری سے ناشتے کا سامان خریدنے گیا تو معلوم ہوا کہ اس بیکری میں رات کو ڈاکا پڑا ڈکوؤں نے تقریباَ چار لاکھ روپئے لوٹے اور دکان پر موجود گاہکوں کے علاوہ اس روڈ سے جو راہگیر پیدل یا بائیک پر گزررہے تھے انھیں بھی روک کران سے موبائل اور نقدی چھین لیااور اطمینان سے چلتے بنے ،دس منٹ تک ڈاکو آرام سے کارروائی کرتے رہے ۔وہ جب سب کچھ لوٹ کر جاچکے تو وہاں پر پولیس کی موبائل اور رینجرز کے لوگ آئے اور موقع پر موجو لوگوں سے پوچھ گچھ کرتے رہے ۔جب سے رینجرز نے کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا ہے ٹارگٹ کلنگ میں واضح کمی آئی ہے بھتے کی پرچیاں بھی کم ہو گئیں شہر میں کچھ صورتحال بہتر محسوس ہو رہی ہے پورے ملک میں اور بیرون ملک بھی یہ تاثر جارہا ہے کہ کراچی میں امن امان کی صورتحال پہلے سے بہتر ہوگئی ہے ایک درجے میں یہ بات صحیح بھی ہے لیکن شاید کراچی کے شہریوں کے مقدر میں چین اور سکون کی لکیر نہیں ہے اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے لوگوں کا جینا ہرام کردیا ۔

جس بیکری کا قصہ سنایا وہ پوری رات کھلی رہتی تھی کچھ عرصہ پہلے صبح فجر سے تھوڑا پہلے بھی ایک واردات ہو چکی تھی بلکہ ہر دوچار ہفتے بعد کوئی نہ کوئی خبر اس بیکری کے حوالے سے سننے کو مل جاتی ہے ،لیکن اس کے علاوہ پورے لیاقت آباد میں مختلف مقامات پر دسیوں وارداتیں ہو جاتی ہیں ۔یہ دسیوں کا لفظ محض رسماَ استعمال نہیں کیا بلکہ یہ شاید کم ہو اس سے زیادہ ہی واقعات رونما ہوتے ہیں دو ہفتے قبل محلے میں دودھ کی دکان پر آئے پیسے بھی لوٹے اور تین افراد کو گولیاں بھی ماریں جس میں ایک کی موت واقع ہو گئی ۔ یہ ایک علاقے کی صورت ہے تو پورے شہر میں کیا صورتحال ہو گی ،بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے کہ رینجرز نے جن لوگوں کی اسٹریٹ پاور ختم کی ہے وہ اب اسٹریٹ کرائم کو ہوا دے رہے ہیں ۔تاکہ عام لوگوں میں یہ احساس مستحکم ہو سکے کہ جب تک ایم کیو ایم کے یونٹ اور سیکٹرز فعال تھے تو انھوں نے ان چوروں اچکوں اور اٹھائی گیروں کوقابو میں کیا ہوا تھا ۔

اب ایسے حالات ہو گئے ہیں کے گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈر لگتا ہے پتا کب کس موڑ پر کسی ڈاکو سے سابقہ پڑجائے بقرعید سے ایک روز قبل جماعت کے کارکن جناب عاصم بھائی اجتماعی قربانی کی دو لاکھ سے زائد رقم لے کر دفتر سے اٹھے اور اور روڈ کراس کرکے ایک ہوٹل کے قریب سے گزرے کے وہ ڈاکو جو پہلے ہی سے لوٹ مار کررہے تھے ان کی نظر ان کی سائیڈ کی بھاری جیب گئی تو انھوں نے فوراَجیب پر ہاتھ مار کر دولاکھ سے زائد رقم لوٹ لی ۔پھر یہ لوگ دو یا تین کی تعداد میں نہیں ہوتے بلکہ بارہ پندرہ کی تعداد ہوتی ہے جو بہت دور تک پھیلے ہوئے عام فرد کی طرح کسی دکان پر بیٹھے یا چل پھررہے ہوتے ہیں کہ اگر کسی روڈ سے رینجر کی کوئی گاڑی آتی ہوئی نظر آئے تو آگے اطلاع کردی جائے ۔

کراچی والوں جو خوشی بھی ملتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے ابھی دو روز قبل کورنگی میں ایک کھالوں کے گودام میں کیمیکل پھینک کر کروڑوں روپئے کی کھالیں جلا دی گئیں ،مالک کا کہنا ہے اس سے پانچ سو روپئے فی کھال کے حساب سے بھتا طلب کے گیا تھااس نے انکار کردیا یا ان کو واضح جواب دینے میں دیر کی ہوگی کہ یہ کارروائی ہو گئی ۔ہماری انتظامیہ پتا نہیں سورہی ہے یا جاگ رہی ہے کہ اسے بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائم کے بارے میں معلوم بھی ہے کہ نہیں اور اگر معلوم ہے تو اس کے تدارک کے لیے کیا اقدمات اٹھائے جارہے ہیں کچھ کسی کو معلوم نہیں ۔

ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ رینجرز نے چونکہ اس دفعہ ایم کیو ایم کو رمضان میں فطرہ جمع کرنے نہیں دیا بقرعید میں کھال بھی ٹھیک طرح سے جمع نہ ہو سکی اس سے جہاں ایک طرف کروڑوں کا نقصان ہوا وہیں دوسری طرف کارکنوں کا خرچہ پانی بھی بند ہو گیا پھر جب ہڑتال کا مرحلہ آیا تو وہ بھی ناکام ہو گئی ۔ایم کیو ایم جو بہت مضبوط اسٹریٹ پاور رکھنے والی پارٹی تھی اس پر رینجرز نے جو ضرب کاری لگائی ہے اس کے نتیجے میں کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی بیروزگار لوگ اب محلوں میں لوٹ مار مچا رہے ہوں جس سے ایک طرف تو ان کے اخراجات کا مسئلہ حل ہوگا تو دوسری طرف کچھ پارٹی فنڈنگ بھی ہو سکتی ہے اس لیے کے ان کے جو اکثر ٹارگٹ کلرز اور ڈاکا ڈالنے والے لوگ گرفتار ہوئے ہیں انھوں نے خود یہ بیان دیا ہے کہ ہم جو ڈاکا مارتے تھے اس کا نصف حصہ سیکٹر میں پہنچایا کرتے تھے۔دوسرا تاثر یہ بھی قائم کرنا ہے کہ امن و امان کے سارے دعوے جھوٹے ہیں ۔اس طرح کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹریٹ پاور کو ایک منظم سازش کے تحت اسٹریٹ کرائم میں تبدیل کیا جارہا ہو ۔

پولیس سے عوام مایوس ہیں کہ خود اس ڈپارٹمنٹ میں چور اور ڈاکو بڑی تعداد میں گھسے ہوئے ہیں آئے دن ایسے لوگوں کی گرفتاری کی خبر آتی رہتی ہے جو ڈاکا ڈالتے ہوئے پکڑے گئے اور ان کا تعلق پولیس سے نکل آیا اور کوئی بعید نہیں کہ یہ بڑی تعداد میں محلوں اور آبادیوں ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اس میں مقامی پولیس کو کوئی بندہ نہ ہو کہ ہر تھانے میں ایم کیو ایم کا ایک خاموش یونٹ قائم ہے جو ان کی مخبری بھی کرتا ہے اور تنظیم کے اشاروں پر پارٹی کے کارکنان کے ساتھ مل کر آبادیوں اور بستیوں میں ڈکیتی اور قتل و غارت گری کی وارداتیں بھی کر نے کا ٹاسک ملا ہو ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کے شہریوں کی امیدیں اب رینجرز ہی سے وابستہ ہیں اس اسٹریٹ کرائم کو رینجر ہی ختم کر سکتی ہے اس حوالے سے ہم کراچی رینجر کے سربراہ بلال اکبر سے درخواست کریں گے وہ کوئی ایسا لائحہ عمل بنائیں کہ کراچی کے شہریوں کو اسٹریٹ کرائم اذیت سے نجات مل جائے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.