وزیر اعطم نواز شریف کے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی بڑی دھوم مچی ہوئی ہے ، حامی کشمیری
راہنماؤں سمیت تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور اپوزیشن وزیر اعظم کی درست
بات کہنے کی جرات دکھانے کی بھی داد دینے پر آمادہ نہیں کشمیری عوام اور
قیادت بشمول حریت کانفرنس سب نے وزیر اعظم کی تقریر کو کشمیری عوام کی
امنگوں ،امیدوں اور آرزؤں کی ترجمان قرار دیا ہے……شائد ہمارے ہاں کا کلچر
ہی ایسا ہے کہ دوست کی غلط باتوں پر بھی تنقید نہیں کی جاتی اور دشمن کی
صحیح کردار و عمل کی ہر حال اور قیمت پر نفی کرنے میں ہی ہماری بڑائی
اوراچھائی ہے ……خیر ہمارے وزیر اعظم صاحب کوئی دو ہفتوں سے ملک سے باہر ہیں،
ایک حساب سے پوری حکومت بھی ان کے ہمراہ ہے، میڈیا نے شور مچایا کہ وزیر
اعظم کیساتھ اسی سے زائد نفر بھی دورہ امریکہ پر جا رہے ہیں، سرکاری ترجمان
نے وضاخت کی کہ وزیر اعظم صاحب کے ساتھ اسی نہیں صرف پینتیس افراد روانہ
ہوئے ہیں، مشیر خارجہ وزیر اعظم سے الگ اور بعد میں جاکر وزیر اعظم کے
وفدمیں شامل ہوئے، جو افراد مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سنگت میں امریکہ گئے
وہ وزیر اعظم کے پینتیس افراد کے علاوہ ہیں،شائد ’’کاریگروں‘‘ نے یہ نئی
تکنیک تلاش کی کہ ایک ساتھ ملک سے روانہ ہونے سے میڈیا میں شور مچ جائیگا
اس لیے دو وفود کو الگ الگ امریکہ اور برطانیہ لے جایا جائے-
وزیر اعظم اگر بیرون ملک اتنا بڑا وفد لیکر گئے ہیں تو انہوں نے جنرل
اسمبلی میں بھارت کو لاجواب کرکے اور عالمی ضمیر کو جنجھوڑ کر اسکا حق بھی
ادا کیا ہے، پاکستانی وزیر اعظم نے عالمی امن کے لیے جنوبی ایشیا کے ممالک
میں قیام امن کو ضروری قرار دیدیا اور انہوں نے یہ کہہ کر کہ اقوام متحدہ
کا کشمیر کے مسلہ کو حل نہ کروانا اسکی ناکامی کا باعث بنا ہے، وزیر اعظم
نے مسلہ کشمیر کے حل اور بھارت کے ساتھ بہتر اور دیرپا تعلقات کے قیام کے
لیے چار شرائط یا تجاویز پیش کر کے گیند بھارتی کورٹ میں پھینک دیا ہے اب
ہمیں اس بات کا انتظار کرنا ہوگا کہ بھارت سے کیا جواب آتا ہے، بھارت کی
جانب سے ہمارے وزیر کی تقریر کا جواب بھارتی وزیر اعظم مودی اپنی تقریر میں
دیں گے لیکن جو جواب آنا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کیونکہ بھارتی وزیر
خارجہ سشما سوراج نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم کی متوقع
تقریر کا ٹریلر دکھا دیا ہے، وزیر اعظم نواز شریف نے تجاویز پیش کی ہیں کہ
’’بھارت پاکستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرے، سیاچن سے اپنی فوجیں
غیر مشروط طور پر واپس بلائی جائیں، مقبوضہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار
دیا جائے اور دونوں ملک کشمیر پر طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘
گو وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں عالمی برادری کے گوش گزار کیا ہے کہ
’’ہمارا اولین پڑوسی پاکستان اور خطے میں امن نہیں چاہتا، وزیر اعظم نے کہا
کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں، وزیر اعظم نے
اپنی تقریر میں افغانستان کے حوالے سے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے
درمیان کشیدگی کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں…… دورے سے قبل کہا جاتا رہا ہے
کہ پاکستان میں دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت عالمی برادری کے
سامنے رکھے جائیں گے تقریر میں تو اس حوالے سے کچھ نہیں یہ الگ بات ہے کہ
بان کیمون کو ملاقات کے دوران دئیے گئے ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ،بھارت
اس وقت تک کشمیر ی عوام کو حق خوداردیت نہیں دے گا جب تک عالمی سپر مین کی
اسے حمایت اور آشیر باد حاصل ہے،
لندن میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈکمرون کے ساتھ ایک فوٹو سیشن کے سوا کوئی
سرکاری کام نہیں ہوا بس وزیر اعظم صاحب لندن میں کاروبار کرنے والے اپنے
فرزندگان اور دیگر دوست احباب سے میل ملاقاتیں کرتے رہے یہ ملاقاتیں سرکاری
اور سیاسی سے زیادہ کاروباری تھیں، خیر ایسا چھوٹا موٹا وفد لیجانا تو وزیر
اعظم کے بائیں ہاتھ کا کام ہے، اور ہر وزیر اعظم اور صدر مملکت کرتا رہا ہے
اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے،
دیکھنے ،سوچنے اور کرنے کی یہ بات ہے کہ وزیر اعظم کے اس قدر مہنگے دورہ
برطانیہ وامریکہ سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا ہے؟کیا وزیر اعظم کی جنرل
اسمبلی اور دیگر کانفرنسوں سے خطاب اور ملاقاتوں سے متاثر ہو کر امریکہ
،چین ،روس اور بان کیمون نے حامی بھر لی ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کا ھل اقوام
متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کروائیں گے؟ اور کشمیریوں کو
اسکا حق خودارادیت دلوانے کے لیے بھارت پر ہر طرح کا دباؤ ڈالیں گے اور اسے
گھٹنے تیکنے پر مجبور کردیا جائے گا؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہوا،امریکہ روس
،چین اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کیمون نے ایسی کوئی یقین دہانی
نہیں کروائی-
بان کی مون نے جو پاک بھارت کشیدگی ختم کروانے کے لیے ثالثی کی پیش کش کی
ہے وہ کس قدر موثر ثابت ہو سکتی ہے؟کیا بان کیمون اس قابل ہیں کہ وہ بھارت
جیسے ہٹ دھرم کو اقوام متحدہ کی ثالثی قبول کرنے پر آمادہ کرپائیں گے؟ نہیں
جناب نہیں ایسا کرنے کی پوزیشن میں بان کیمون نہیں ہے……کیونکہ بھارت اگر
کسی کی بات مانتا ہے تو وہ صرف امریکہ ہے ، لیکن امریکہ ایسا کبھی نہیں
چاہے گا کیونکہ اسے ہماری نسبت بھارت زیادہ عزیز ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ
بھارت امریکی اور یورپ کے لیے ایک بڑی منڈی ہے اس لیے وہ اسے کبھی ناراض
نہیں کرپائیں گے، ہمارا کیا ہے ’’ ہم تیرہ میں شامل ہیں اور نہ تین میں‘‘
دو ٹکوں کی مار ہیں میرا مطلب ہے کہ ایک آئی ایم ایف کی قسط لے کر ہم خوش
ہو جاتے ہیں میڈیا کے بقول ’’ہمارے وزیر اعظم کا دورہ امریکہ کے موثر نتائج
برآمد نہیں ہوگے ‘‘ یہ میڈیا کی رائے اور تبصرے ہیں لیکن سرکاری ترجمان اور
دفترخارجہ کے اہلکار تو اس دورہ کو نہایت کامیاب کہیں گے -
ہاں ایک بات جو امریکی صدر اوباما نے کہی وہ قابل توجہ ہے، امریکی صدر جو
اس وقت دنیا کے بے تاج بادشاہ گردانے جاتے ہیں نے تسلیم کرلیا ہے کہ وہ
دنیا کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور یہ بھی تسلیم کیا کہ
’’امریکہ اکیلا دنیا کے مسائل حل نہیں کرسکتا‘‘میرے خیال میں باراک اوباما
کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئیے تھا کہ امریکہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں
ناکام ہوا ہے وہاں وہ دنیا کے امن کو تباہ کرنے کا باعث بھی بنا ہے، یہ جو
آگ پاکستان سے یمن تک ہرسمت لگی نظر آتی ہے وہ اسی کی لگائی ہوئی ہے ، صدر
اوباما نے دنیا سے دنیا کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’ساتھ دینے کی بھیک‘‘
مانگی ہے یعنی امریکہ جو دنیا کا بغیر شرکت غیرے ’’ماما‘‘ بنا پھرتا ہے اس
نے اپنی ناکامی تسلیم کرلی ہے،امریکہ اگر واقعی دنیا کے مسائل حل کرنے میں
سنجیدہ ہے اور دنیا کو امن دینے کے خواہاں ہے تو اسے عراق سے لیکر لیبیا تک
اور افغانستان سے تیونس تک اپنی بدمعاشی بند کرنی ہوگی-
نیویارک میں اقوام متحدہ کی بہتری کے لیے بھی باتیں ہوئیں ان آوازوں پر
امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو کان دھرنے کی ضرورت ہے، ہمارے پڑوسی بھارت
( ہو سکتا ہے کہ ایک آدھ ملک اور بھی ہو) کو سلامتی کونسلکا مستقل ممبر
بنانے کی باتیں (فیصلے ) زیر بحث ہیں پاکستان اور چین بھارت کو مستقل ممبر
بنانے کی مخالفت کریں گے اور اگر چین نے اس مسلہ کو ویٹو کردیا تو بھارت کا
یہ خواب چکنا چور ہوکر رہ جائیگا۔
رہی بات اقوام متحدہ کے مسلہ کشمیر حل نہ کرواکر ناکام رہنے کی ہے تو میرے
خیال میں ہمارے وزیر اعظم کو کشمیر کے ساتھ ساتھ مسلہ فلسطین کا بھی ذکر
کرنا چاہئیے تھا، کیونکہ کشمیر کی طرح مسلہ فلسطین بھی دنیا کے امن کے لیے
خطرہ تھا ، خطرہ ہے اور خطرہ رہے گا۔ اقوام متحدہ کو ناکامیوں کی دلدل سے
نکالنے کے لیے اسے خود مختار بنانا ہوگا، اسے امریکہ سمیت چند ایک ممالک کی
غلامی سے ٓازادی دلوانا نہایت لازمی امر ہے، اقوام متحدہ ہوبھیہ اپنے آزاد
ہونے، خودمختار ہونے کے لیے اسی طرح کا کرادار ادا کرنا ہوگا جیسا اس نے
عراق ،ایران اور لیبیا سمیت دیگر مسلم ممالک پر دھڑا دھڑ قراردادیں منظور
کرنے اور ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے ادا کیا تھا اس کے ؓگیر کو یہ
تسلیم نہیں کریگا کہ اقوام متحدہ آزاد اور کود مختار ادارہ ہے۔جنرل اسمبلی
سے وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر ،عالمی راہنماؤں سے ملاقاتوں سے ہمیں
رالمی برادری کے برسوں پر محیط رویے کو مدنظر رکھتے ہوئیعالمی برادری اور
بے اختیار اقوام متحدہ سے بہت زیادہ توقعات اورا میدیں وابستہ نہیں رکھنی
چاہئیں،وزیر اعظم نواز شریف اور انکا وفد دورے کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے
لندن میں رکا ہوا ہے انہیں چاہیے کہ وہ جلد از جلد وطن واپس پہنچ کر عوام
کو اس دورے میں ہونے والی نئی ڈویلپمنٹ پر قوم کو اعتماد میں لیں- |