فرزندِ اقبال(جسٹس ڈاکٹرجاوید اقبال) کا سانِحہَ ارتحال

شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے فرزند ِ ارجمند جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال 3اکتوبر2015کو عالم فانی سے عالم جاودانی میں چلے گئے۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی قانون و انصاف کے پیشے میں اعلیٰ خدمات ہیں،انہوں نے قانون و انصاف کی بالا دستی اور علم و فضل میں منفرد و اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ وہ ایک مصنف، مورخ و محقق بھی تھے انہوں نے قانون، پاکستان، علامہ اقبال کے علاوہ اپنی آپ بیتی’اپنا گریباں چاک‘ بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کے فرزند ہونے کے علاوہ ان کی اپنی ایک شخصیت تھی، مقام تھا۔ راقم الحروف نے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی شخصیت اور خدمات پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون راقم کی علمی و ادبی شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کی چھوٹی سے کوشش ہے۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا کون چاہنے والا نہیں۔ ادب سے وابستہ شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جس نے اقبال کو نہ پڑھا ہو۔میں کافی دیر سے کوشش میں تھا کہ علامہ اقبال پر مضمون تحریر کرکے محسنِ انسانیت، معمارِ قوم، تخلیق پاکستان کا خواب دیکھنے والے ، شاعرِمشرق، نثر نگار، سیاسی بصیرت رکھنے والے، ریاست کا فلسفہ دینے والے، نوجوانوں میں بیداری کا تصورپیدا کرنے والے اور اسلام کے بہترین شارح کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں اپنے آپ کو بھی شامل کر لو۔ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میں نے اقبال کایوم پیدائش جو آئندہ ماہ9 نومبر کو آرہا ہے کا انتخاب کیا اور ایک مضمون لکھنا شروع کردیا تھا۔خیال تھا کہ اس وقت تک مکمل کرلوں گا کہ اچانک فرزندِ اقبال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کی خبر نے دل کو دھلادیاوہ 3 اکتوبر 2015 ءکو عالم فانی سے عالم جاودانی میں چلے گئے۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے بیٹے تھے لیکن وہ از خود بے بہا خوبیوں ، صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی لمحہ، کسی موقع پر اس بات کا فائدہ نہیں اٹھایا کہ وہ ایک عظیم شخصیت کے فرزند ہیں۔ انہوں نے قانون و انصاف کی بالا دستی اور علم و فضل میں جو مقام حاصل کیا اپنے زورِ بازو پرکیا، اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کی بنیاد پر کیااور اپنی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت سے حاصل کیا۔ وہ چاہتے تو بہت پہلے اپنے والد ِ محترم کے حوالے سے بہت کچھ اور بہت بہترحاصل کرسکتے تھے۔وہ خود دار ، ذہین اور بے بہا صلاحیتوں کے مالک بھی تھے۔

5اکتوبرکو ان کی 91ویں سالگرہ تھی، وہ اسپتال میں زیر علاج تھے، خواہش رہی ہوگی کہ وہ اپنے گھر جاکر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنی سالگرہ منائیں گے لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انسان سوچتا کچھ ہے، منصوبے کچھ بناتا ہے ہوتا وہ ہے جو مالک ِکائینات نے اس کے لیے لکھ دیا ہوتا ہے۔ قدرت نے یہ دن اور تاریخ ان کی سالگرہ کے بجائے ان کی دنیاوی زندگی کا اختتامی دن لکھا تھا۔ جسٹس جاوید اقبال شاعر مشرق کی بڑھاپے کی اولاد تھے، ساتھ ہی مرادوں اور منتوں کے نتیجہ میں انہیں ملے تھے۔ اولادِ نرینہ کی خواہش لیے علامہ اقبال سرہند تشریف لے گئے اور شیخ احمد (حضرت مجدد الف ثانی) کے مزار پرمنت مانی، یہ بھی التجا کی اگر ان کی مراد پوری ہوئی اور اﷲ پاک نے انہیں بیٹا عطا کیا تو وہ اسے لے کر اسی جگہ حاضر ہوں گے۔کہتے ہیں انسان کی زندگی میں بعض گھڑیاں قبولیت کی ہوتی ہیں۔ اﷲ نے ان کی دعا قبول کی اورجاوید اقبال کی صورت میں بیٹا عطا کردیا تو علامہ اپنے اس بیٹے کو سرہند مجدد الف ثانی کے مزار پر لے کر گئے، اس واقعہ کا ذکر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب’زندہ رُود‘ میں کیا ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال کے حالات زندگی پر ایک مستند تحقیقی تصنیف تصور کی جاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے جاوید علامہ اقبال کے چھیتے اور لاڈلے بھی تھے۔انہوں نے اپنے بیٹے قمر الا سلام کو ’جاویداقبال ‘ بنا دیا اوروہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہوگئے۔اپنے چہیتے بیٹے کے لیے علا مہ اقبال نے ایسی نظم کہی جو بظاہر توخطاب جاوید اقبال سے تھا لیکن یہ خطاب محض جاوید اقبال سے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے نوجوانوں سے ہے۔ علامہ نے اپنے فرزند جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

علامہ اقبال کے اس فرزند نے حق ِفرزندگی خوب نبھایا ، باپ نے جو نصیحت کی اس نے اس پر عمل کیا اوراپنا ایک الگ مقام بنایا، اس نے خودی کا سودا نہیں کیا بلکہ اپنی صلاحیت اور حیثیت کے مطابق نام پیدا کیا۔ اقبال نے اپنے چھیتے بیٹے کے لیے یہ نظم ہی نہیں کہی بلکہ اپنی ایک کتاب کا عنوان ہی ”جاوید نامہ“ رکھا ۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ، ابتداءمیں وکالت کرتے رہے پھر جج کا عہدہ قبول کر لیا اور اسی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمات کی۔قانون کے علاوہ اسلامی تاریخ ، سیاسیات، فلسفہ اور علامہ اقبال ان کے خاص موضوعات تھے۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں اپنی تمام تر صلاحیتیں تصنیف و تالیف میں صرف کیں اور متعدد کتابیں لکھیں۔ان میں اپنی سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘، ’افکار اقبال‘، ’نظریہ پاکستان‘، ’اسلام میں ریاست کا تصور‘،”اسلام اور پاکستان‘، ’قائد اعظم کا ورثہ‘ ، Legacy of Quaid-e-Azam (1968, published in English and Urdu)، ’زندہ رُو د(تین جلدیں، 1984 ( ‘، ’Ideogy of Pakistan (1959)‘، Stray Reflections: A Note-Book of Iqbal (1961)، Mai Lala Faam (1968, Collection of papers on Iqbal, in Urdu)،انہوں نے ’خطبات اقبال‘
کے تحت اقبال پر قابل ذکر تخلیقی کام کیا، Pakistan and the Islamic Liberal Movement (1994).،’جہان جاوید‘ شامل ہیں۔

پاکستان میں ہونے والے 1970کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹوکاجادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ فرزندِ اقبال نے لاہور سے کونسل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مردِ مقابل ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ نتیجہ وہی ہوا جو نظر آرہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پورے ملک میں جئے بھٹو ،سداجئے کی صدائیں گلی گلی کوچے کوچے میں گونج رہی تھیں۔ معمولی سے معمولی شخص جس کو بھٹو نے ٹکٹ دیا ، جیت اس کا مقدر بنی، بڑی بڑی معروف سیاسی شخصیات اس انتخاب میں بھٹو کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔ ان میں فرزندِ اقبال بھی تھے ۔ اگربھٹو صاحب ایک سیٹ مفکر ِپاکستان کے بیٹے کا خیال کرتے ہوئے فرزندِ اقبال کی نذر کردیتے تو پارٹی کی اہمیت میںیا انتخابی عمل میں کوئی خاص فرق نہ پڑتا۔ ان کی توقیر میں اضافہ ہی ہونا تھا لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت پائی نہیں جاتی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ایوب خان کے ہاتھو ںمادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا حال دیکھا ہے۔لوگوں کے دلوں میں مادر ملت تھیں لیکن پھر بھی ایوب خان کا گلاب کا پھول بازی لے گیا۔ایوب خان کا انجام کیا ہوا، گلی گلی کیا نعرے لگے، اقتدار کا نشہ ہوتا ہی کچھ عجیب ہے۔ مادر ملت کی شکست کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ’اگر ایوب خان کے دور میں دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں شکست نہ دی جاتی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا‘۔ یہ بات حامد میر نے ا پنے کالم میں لکھی ہے۔ انتخابات میں شکست دینے کے بعد بھٹو صاحب نے جسٹس جاوید اقبال کو اپنے سیاسی قافلے میں شامل ہوجانے کی ترغیب دی لیکن فرزند ِاقبال کو یہ گوارا نہ ہوا البتہ چیف جسٹس انوارالحق کی دعوت پر جج بننا قبول کر لیا اور وہ وکیل سے جج بن گئے اور تمام زندگی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔بھٹو صاحب سے پہلے بھی فرزندِ اقبال کو اقتدار میں شامل کرنے کی دعوت دی جاتی رہی۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان بھی جسٹس جاوید اقبال کو اپنے اقتدار میں شامل کرنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن جسٹس جاوید اقبال نے ان کی پیش کش کو قبول نہ کیا۔ یحییٰ خان نے بھی جسٹس جاوید اقبال کو انتخابات میں اہم ذمہ داری سونپنے کی پیش کش کی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ نواز شریف کے دور میں ان کا نام نگراں وزیراعظم کے طور پر تجویز کیا گیا لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان فرزندِ اقبال کو یہ عہدہ دینے پر تیار نہ ہوئے۔ نواز شریف صاحب نے اُس وقت فرزندِ اقبال کو نگراں وزیر اعظم بنانے کی شفارش تو کردی کیوںکہ اس وقت یہ معاملہ ان کے کلی اختیار میں نہیں تھا۔ اب جب کہ پاکستان کے صدر کا انتخاب سامنے آیا اور کلی اختیار بھی ہاتھ میں تھا تو فرزندِ اقبال نظر نہیں آئے۔ یہاں مصلحت سامنے آگئی۔ یہی ہمارے ملک کی سیاست ہے۔ بھٹو سے الیکشن ہارنے اور جج بن جانے کے بعد فرزندِ اقبال نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ جسٹس کی حیثیت سے جو خدمت ہوسکی کریں گے اور باقی وقت تصنیف و تالیف میں صرف کریں گے، انہوں نے ایسا ہی کیا۔

بھٹو کی بھانسی کو جسٹس جاوید اقبال درست نہیں سمجھتے تھے۔ حالانکہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے انہیں قومی اسمبلی کے انتخاب میں شکت دی تھی لیکن وہ با اصول انسان تھے، جسے سچ سمجھتے بر ملا اظہار کر دیتے جو غلط تصور کرتے بلا خوف اس کا بھی اظہار کردیا کرتے۔بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ اپنی سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک ‘ میں تحریر کیا ۔فرزندِ اقبال پر لکھنے والے اس واقعہ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ’ جس رات بھٹو کو پھانسی دی گئی اس رات وہ(جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال) اپنے بیڈ روم میں گہری نیند سو رہے تھے کہ اچانک زوردار کھڑاک سے کمرے کی کھڑکی کھلی۔ وہ ہڑ بڑا کر بیدار ہوئے اور دیکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ان کے پلنگ کی پائینتی کی جانب کھڑے ہیں ۔ ان کا جسم لہو لہان ہے اور کپڑے تار تار ۔ پھر مجھے کہتے ہیں’دیکھو انہوں نے میرا کیا حال کیا ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ (بھٹو صاحب )غائب ہوجاتے ہیں اور میں (جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال) فورناً ٹائم نوٹ کرتا ہوں۔ طلوع آفتاب بھٹو کی پھانسی کی خبر لاتا ہے۔ میں بھٹو کی پھانسی کا وقت معلوم کرکے اپنے لکھے ہوئے وقت سے موازنہ کرتا ہوں تو یہ وہی وقت تھا جب اسے پھانسی چڑھایا گیا‘۔ کالم نگار، تاریخ داں ڈاکٹر صفدر محمود کا کہنا ہے کہ’ انہوں نے فرزندِ اقبال سے جب یہ قصہ سنا تو انہوں نے جسٹس صاحب سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو یقین ہے کہ یہ خواب نہیں تھابلکہ آپ نے کھلی آنکھوں سے بھٹو کو دیکھا؟انہوں نے تصدیق کی کہ یہ خواب ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ ایک سچا واقعہ ہے‘۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی حیرانی بجا ، اور میں بھی اس حوالے سے کچھ لکھنے سے معذور ہوں۔لیکن میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ یہ ایک خواب ہی تھا۔ بھٹو صاحب سے ڈاکٹر صاحب کی شکت اثرات اور پھر پھانسی کو درست تصور نہ کرنا ان کے ذہن میں بسے ہوئے تھے۔ جو خواب کی صورت میں سامنے آئے۔

خواب کے حوالے سے اپنا ایک ذاتی واقعہ جو خواب ہی تھا بیان کرنا مناسب لگ رہا ہے۔ میں ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہا تھا۔ میرے مقالے کا موضوع شہید حکیم محمد سعید کی کتب اور کتب خانوی خدمات کے حوالے سے تھا۔ میرے تھیسس سپر وائیزر پروفیسر حکیم نعیم الدین زبیری مرحوم تھے۔ میرا کیس بورڈ آف ایڈوانس اسٹڈیز میں تھا فیصلہ یہ ہونا تھا کہ مجھے ایم فل سے پی ایچ ڈی میںکنورٹ کردیا جائے اور تھیسس جمع کرانے کی اجازت دی جائے ۔اس لیے کہ مَیں اور میرے سپر وائیزر یہ سمجھتے تھے کہ یہ کام ایم فل کا نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کی سطح کا ہے۔ میں نے کام بھی اسی اعتبار سے کیا تھا۔ میرے سپر وائیزر جامعہ ہمدرد میں تاحیات پروفیسر کے عہدہ پر فائز تھے یہ مقام و مرتبہ انہیں شہید حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی میں ہی سونپا تھا۔ جب کہ بعض سینئر پروفیسر ز جو سابق وائس چانسلر بھی رہ چکے تھے بورڈ آف ایڈوانس اسٹڈیز کے رکن تھے، اس مقام و مرتبہ سے محروم تھے۔ وہ بورڈ کی میٹنگ میں میرے معاملے پر کوئی نہ کوئی اعتراض اٹھا دیا کرتے ، جس سے معاملا طول پکٹرتا رہا۔ سپر وائیزر کی ہدایت پر میں نے اپنا مقالہ بھی جمع کرادیا، معاملہ بیچ مجھدار میں اٹک کر رہ گیا اس صورت حال نے دو سال گزردیے میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھا، میرے سپر وائیزر بھی مسلسل تگ و دو میں رہتے ، ایک مرحلے پر وہ بھی بد دل ہوگئے اور مجھ سے کہا کہ مجھے مشکل نظر آرہا ہے آپ اپنے مقالے کو کتابی صورت میں چھپوادیجئے ۔ میں بھی خاموش ہورہا، ایک دن خواب میں دیکھتا ہوں کہ شہید حکیم محمد سعید میرے گھر تشریف لاتے ہیں، وہ اور میں ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہیں، سامنے ریک پر میرا مقالہ رکھا ہوا رہتا تھا اس جانب وہ اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ یہ کتاب میں لیے جارہا ہوں اسے ہمدرد سے ہی چھپوا دونگا، آپ فکر نہ کریں۔ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ اس خواب کو چند دن ہی گزرے تھے کہ میرے سپروائیزر نے مجھے فون کیا اور کہا کہ مبارک ہو بورڈ آف ایڈوانس اسٹیڈیز نے آپ کے مقالے کو ایم فل سے پی ایچ دی میں کنورٹ کرنے اور جمع کرانے کی منظوری دیدی ہے۔ مقالہ جمع ہی تھا ،ضروری کاروائی ہوئی اور کچھ عرصہ بعد ہندوستان سے رپورٹ مثبت آئیں اور وائے وا کے بعد مجھے ڈگری بھی مل گئی، شہید حکیم محمد سعید کا میرے گھر آنا، میری مشکل اور پریشانی کے حل کی جانب اشارہ یقینا ایک خواب ہی تھا ، ان سے میرے اس قسم کے مراسم ہر گز نہ تھے۔ البتہ میں ذہنی طور پر میں ان سے متاثر تھا، ان دنوں پریشان بھی تھا، اسی ذہنی کیفیت کانتیجہ یہ خواب تھا۔ بات فرزندِ اقبال کے پاس بھٹو صاحب کے آنے کی تھی ، انہوں نے اس واقعہ کو خواب نہیں کہا اور سچا واقعہ قرار دیا بہت ممکن ہے کہ ایسا ہو۔اس پر بحث یہاں مناسب نہیں۔

جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے بعض نظریات اور خیالات سے اختلاف بھی کیا گیا۔ کیونکہ وہ از خود کہا کرتے تھے کہ’ وہ مذہبی سے زیادہ ثقافتی مسلمان ہیں‘۔ بقول حامد میر سوشلسٹ دانشور انہیں اسلام پسند اور مولوی حضرات انہیں ملحد قرار دیا کرتے تھے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں وہ صاف گوحد سے زیادہ تھے۔ وہ اپنے آپ کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھنا اور دوسروں کو محسوس کرانا چاہتے تھے۔ بعض لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا کہ وہ یعنی فرزند ِ اقبال اپنے والدِ بزرگوار سے سبقت لے جانے کی فکر میں رہا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی صاف گوئی دیکھیں کہ انہوں نے یہ بات بھی اپنی سوانح عمری میں لکھ دی۔ ساتھ ہی یہ دلیل بھی دی کہ علامہ اقبال نے ہمیں یہی ترغیب دی کہ کسی صاحب فکر سے آگے بڑھ جانے سے مراد اس کی تحقیر کرنا نہیں بلکہ اس کی توقیر برقرار رکھتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے راستے سے نئی راہیں تلاش کرنا در اصل فکری تسلسل کو آگے بڑھانا ہے۔ وہ تقلید کی بجائے اجتہاد کے قائل تھے۔ اس موضوع پر بھی احباب کا ان سے اختلاف ہوا، جس کا انہوں
نے دلائل کے ساتھ جواب دیا۔ ان کا مطالعہ گہرا، نظر دور رس اور مشاہدہ و مطالعہ وسیع تھا۔

فر زند ِ اقبال پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں5 اکتوبر 1924کوپیدا ہوئے، ان کی والدہ سردار بیگم علامہ اقبال کی دوسری شریک حیات تھیں۔ اقبال کی پہلی شادی کریم بی بی سے 4 مئی 1893کو ہوئی، ان کا تعلق گجرات کے صاحب حیثیت خاندان سے تھا ان کے والد شیخ عطا محمد کو برطانوی حکومت نے ’خان بہادر ‘ کا خطاب دیا تھا، دوسری شادی 1913 میں سردار بیگم سے ہوئی۔ جاوید ابھی 11برس کے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ جاوید اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1944میں بی اے (آنرز) کیا، پنجاب ہی سے انگریزی اور فلاسفی میں ایم اے کی سند حاصل کی، 1954میں کیمرج یونیورسٹی لندن سے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ بیرسٹر ایٹ لا کی ڈگری لنکولنز ان لندن سے 1956میں حاصل کی۔ جسٹس جاوید اقبال کو Villanova University اورSeicuk Universityنے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی۔ اپنے والد کے پیشے کو اپناتے ہوئے انہوں نے وکالت شروع کی،پھر جج ہوگئے، چیف جسٹس بھی رہے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی ہوئے۔ سینٹ کے رکن بھی رہے۔ اپنی ہم پیشہ خاتون جسٹس ناصرہ اقبال سے رشتہ ازدواج میں منسک ہوئے۔ اپنی زندگی کی 91بہاریں دیکھنے کے بعد 3اکتوبر 2015کو اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرگئے ، شہر لاہور جہاں ان کے والد علامہ ڈاکٹر محمد اقبال مدفن ہیں فرزندِ اقبال نے بھی اِسی سرزمین کو اپنی ابدی آرام گاہ بنا یا۔(7 اکتوبر 2015)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436610 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More