حضرت ِاقبالؒ کا نور چشم جاوید اقبالؒ
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
اقبالؒ جنہیں دنیا اپنا
مرشد مانتی ہے ۔جنہوں نے پوری دنیا کو روحانیت کو آفاقیت کے انداز میں
سمجھانے کی بھر پور کو شش کی وہی اقبالؒ جس نے کہا تھا کہ حیا نہیں زمانے
کی آنکھ میں باقی خدا کرئے جوانی تیری رہے بے داغ اور یہ الفاظ اقبالؒ نے
اپنے پیارئے بیٹے جاویدؒ کے لیے کہے تھے۔چند سال پیشتر ہمارئے دوست جناب
علامہ رضا الدین صدیقی نے ایک سیمنار آواری ہوٹل لاہور میں جسٹس پیر کرم
شاہؒ کی یاد منعقد کیا تھا اُس میں جناب جاوید اقبالؒ بھی شریک ہوئے تھے۔
راقم جناب جاوید اقبالؒ کو ہال کے دروازئے سے سٹیج تک احتراماً لایا اور
راقم نے بے اختیار یہ تصور کرتے ہوئے جاوید اقبالؒ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا
کہ ان ہاتھوں کو حضرت اقبال نے بھی چوما ہوگا۔ تصور اقبالؒ کی بابت مجھے
روحانی سرشاری کے لمحات میسر آئے اور راقم نے جناب جاوید اقبالؒ سے ہاتھ
ملایا تھا اور اُن کے انتہائی نرم ہاتھ کا لمس مجھے آج بھی روح میں اُترتا
محسوس ہوتا ہے۔یقیناً جاوید اقبالؒ خود بھی بہت بڑئے انسان تھے لیکن میری
اُن سے عقیدت کی وجہ حضرت اقبال ؒ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے رہی۔راقم زندگی
کی سنتالیس بہاریں اور خزائیں دیکھ چکا ہوں اور یقین جانیے مجھے ہمیشہ فخر
رہتا ہے کہ میں نے بھی اُس دور میں اُس شہر میں زندگی کی رمق محسوس کی جہاں
اقبالؒ کے بیٹے جناب جاوید اقبال اپنے علم و فکر سے نواز رہے تھے۔جب راقم
نے جناب جاوید اقبالؒ کی تقریر تصوف کے حوالے سے سنی تو یقین کیجیے کہ
واقعی مجھے یہ احساس ہوا کہ جناب جاوید اقبالؒ نے حضرت اقبالؒ کے نظریات
اور فلسفے کی لاج رکھ لی ہے۔راقم کو یہ بھی افتخار حاصل ہے کہ جس لاہور بار
اور لاہور ہائی کورٹ بار کے جاوید اقبالؒ رکن تھے میں بھی ہوں ۔یوں وکلاء
کیمونٹی ہونے کے ناطے وہ ہماری پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لیے بھی رول ماڈل
ہیں۔ ولید اقبال ایڈووکیٹ جو کہ جناب جاوید اقبالؒ کے فرزند ہیں اُن سے بھی
عقید ت کا رشتہ قائم ہے اُس کی وجہ بھی جناب اقبالؒ کی ذات ہے۔اﷲ پاک نے
جناب جاوید اقبالؒ کو دنیاوی طور پر بھی عزت واحترم سے نوازا۔ لاہور ہائی
کورٹ کے چیف جسٹس رہے سپریم کورٹ کے جج رہے۔ سینیٹر رہے۔ تمغہ امتیاز سے
نواز گیا۔ اقبالؒ کا فرزند ہونے کا حق جناب جاوید اقبالؒ نے ادا کر دیا۔اب
جبکہ جناب جاوید اقبالؒ روشن راہوں کے مسافر بن کر اپنی خالق کے حضور پیش
ہو چکے ہیں لیکن یہ تذکرہ بے جاء نہ ہوگا کہ جاوید اقبالؒ سے حسد کرنے والے
نام نہاد دانشو صرف اقبال ؒدشمنی کے نام پر ان سے اختلاف کرتے رہے لیکن
روحانی ہستی اقبالؒ کافرزند اپنے لوگوں کی رہنمائی کے لیے آخری سانس تگ و
تاز میں رہا۔موجودہ حالات میں اقبالؒ کی فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جناب
جاویدؒ بھی اقبالؒ اﷲ پاک کے بتائے ہوئے رستے ہر چلنے میں ہی مسلمانوں کی
فلاح سمجھتے تھے جیسا کہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ قلندر میلِ تقریر نہ دارد
، جز ایں نکتہ اکسیر نہ دارد، ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیشت ،کہ آب از خون
شبیر نداردـ (ارمغانِ حجاز)حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ قلندر لمبی چوڑی
تقریر کی طرف رغبت نہیں رکھتا۔سوائے اُس نکتے کہ جو میں تمھارئے لیے کہنے
والا ہوں کہ اِس ویران کھیت سے کوئی پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی کہ جس کی
حضرت امام حسینؓ(شبیرؓ) کے خون سے آبیاری نہ کی جائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ
مسلمان جہاد فی سبیل اﷲ کے بغیر یا باطل کے مقابلے میں عملاً نکلے بغیر کسی
قسم کی عزت اور وقار حاصل نہیں کرسکتے۔جہاد کے حق میں اور باطل کے خلاف
زبانی کلامی باتیں کرنے سے تمہاری اجڑی ہوئی دنیا آباد نہیں ہو سکتی اس کا
ایک ہی طریقہ ہے جو کہتے ہو اِس پر عمل کرو۔ جاوید ؒ نے بھی اپنے والد کی
اسی فکر کو پنایا کہمگو از مدعائے زندگانی ، ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست، من
از ذو ق سفر آنگونہ مستم کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست ( پیام مشرق) جناب
جاوید اقبالؒ اپنی والد کے اِس فلفے ہر کار بند رہے ۔ کہ جیسا کہ حضرت
اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول یعنی بیان کرنے کی
کوشش نہ کر ِاس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس کے انداز کو نہیں
سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل راستے کا پتھر ہے
اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں منزل پر پہنچ کر
بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے لیے رواں دواں
ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام ہے۔فرشتہ گرچہ
بروں از طلسم افلاک است نگاہِ او بتماشائے ایں کف خا ک است (زبوررِعجم)حضرت
اقبالؒ فرماتے ہیں فرشتہ اگرچہ انسانوں کی طرح آسمان کے جادو یعنی قوانینِ
فطرت سے آزاد ہے ۔اس کے باوجود اس کی نظر مٹھی بھر خاک کے پتلے(انسان) پر
ہے یعنی وہ انسان کی رفعت کی طرف دیکھتا ہے جو اُسے عشق کے سوزوگداز کی
بدولت حاصل ہے۔ ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است ، وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے
زنگاری است (زبور عجم) جناب جاویدؒ نے ساری زندگی حضرت اقبالؒ کے فلسفے پر
کاربند رہے کہ جس میں حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں
ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان)
کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا
ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل،یا کہ عشق
مسلمان و عقل زناری است (زبور عجم) جاویدؒ نے اقبال کی یہ بات عملی طور پر
ثابت کی کہ حضرتِ اقبال نے جیسے فرمایا تھا کہ عقل جو کچھ تراشتی ہے اُسے
لمحہ بہ لمحہ تورتی رہتی ہے کیونکہ وہ درست نتیجہ اخذ نہیں کرسکتی۔ اب عقل
کی باتیں چھوڑ کر عشق اختیار کرلے کیونکہ عشق مسلمان ہے صحیح راستے پر ہے
اور عقل برہمن کا زنار ہے یہ کفر کی راہ چلتی ہے عشق معرفتِ حق کی طرف لے
جاتا ہے۔جناب جاوید ؒ نے اپنی فرزند اقبالؒ ہونے کا حق ادا کیا اور اِس سوچ
کو پروان چڑھایا کہ مگو از مدعائے زندگانی، ترابرشیوہ ہائے اذنگہ نیست ، من
از ذو ق سفر آنگونہ مستم ،کہ منزل پیش من جز سنگ رہ نیست، ( پیام مشرق)
جیسا کہ جناب حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں زندگی کے مقصد کے بارئے زبان مت کھول
یعنی بیان کرنے کی کوشش نہ کر ِاس کی اداؤں پر تیری نظر نہیں یعنی تو اِس
کے انداز کو نہیں سمجھتا۔ میں سفر کی لذت سے اتنا مست ہوں کہ میرے آگے منزل
راستے کا پتھر ہے اور کچھ نہیں یعنی میں منزل کو سنگِ راہ سمجھتا ہوں ۔ میں
منزل پر پہنچ کر بھی منزل کو منزل کو منزل نہیں سمجھتا اور ایک نئی منزل کے
لیے رواں دواں ہوجاتا ہوں ۔ زندگی سکون وثبات کا نام نہیں حرکت وعمل کا نام
ہے۔جناب اقبالؒ کی سوچ کاو یہ ادراک تھا کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کیسے ختم
کی جاسکتی ہے۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے مردِ مومن کو یہ سبق دیا ہے کہ جس
کو تو منزل سمجھ رہا ہے یہ تو پڑاؤ ہے منزل نہیں ہے یہ حیات سکوت کا نام
نہیں ، یہ زندگی تو حرکت کا نام ہے اِسی لیے علامہؒ اپنے مقصد سے اتنی لگن
رکھتے ہیں کہ وہ ستارون سے آگے جہاں اور بھی ہے کا پیغام دیتے ہیں۔ اقبالؒ
کے ہاں مایوسی کا دور دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں اقبال بندہِ مومن کو عقلی
تقاضوں سے بہت آگے عشق کے میدان میں لے جاتے ہین وہ کہتے ہیں کہ عشق ہی
تمھاری منزل ہے۔حتیٰ کہ جنابِ اقبالؒ یہاں تک پکار اُٹھے ہیں کہ وہ انسان
کو یہ بتلاتے ہیں کہ کیونکہ تیرے اندر عشق کی وجہ سے سوز و گداز ہے اِس لیے
فرشتے آسمانوں کے باسی ہونے کے باوجود انسان کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔
اقبالؒ کے خیالات یہ ہیں کہ وہ عمل پر زور دیتے ہیں وہ گفتار کے غازی کی
بجائے کردار کے غازی بننے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت
بھی فرماتے ہین کہ اگر تم نے دُنیا میں عزت واحترام سے رہنا ہے تو پھر جنابِ
حضرت امام حسینؓ کی طرح جہاد کرو اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دو۔قوموں کی زندگی
میں لیڈرشپ کا بہت اہم کردار ہوا کرتا ہے۔جس قوم میں اعلیٰ قومی قیادت
موجود ہو اُس قوم کو ہر طرح کے خطرات سے نبردآزما ہونے کی ہمت مل جاتی ہے۔
گویا قومی سطح پر قیادت ہی پوری قوم کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہوتی ہے ہر کس
و نا کس کی رائے کا احترام کرنا بھی درحقیت لیڈر شپ کا کمال ہوتا ہے۔موجودہ
دور کو قحط الرجال کا دور کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔ اب جب جناب جاوید
اقبالؒ اِس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں وہ علم و عمل کے پیکر تھے۔اور پاکستانی
قوم کو یتیم کر گئے ہیں ۔ اﷲ پاک اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کو جنت
الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور حضرت اقبالؒ کی نسبت سے میرا رب پاک
اُنکی دنیاوی لغزشوں کو معاف فرمائے۔اقبالؒ تیرے شہر میں کہرامچا ہے۔ نور
چشم اقبالؒ جناب جاوید اقبالؒ ہمارئے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ |
|