ہماری قومی تاریخ سانحات سے بھری پڑی ہے ان سانحات پر
ہمارا رد عمل اس بھیڑ سے کچھ مختلف نہیں ہے جو دوسری بھیڑوں کو کنویں میں
گرتا دیکھتے ہوئے بھی انہی کی راہ پر چل کر کنویں میں گر جاتی ہے ہمیں
نسیان کی مرض لاحق ہے ہم ہر سانحے کو ایک معمولی واقعہ سمجھ کر نا صرف بھول
جاتے ہیں بلکہ نئے سانحہ کا انتظار کرتے ہیں اور بے وقوف بھیڑوں کے ریوڑ کی
طرح بے سمت بس بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے ہمارے
سیاستدانوں کا خلوص پر مبنی ایک بیان آتا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ
ہے اس پر سیاست نہ کی جائے اگر کسی دور میں ہمارے قومی سانحات کی تاریخ
مرتب کی گئی تو مؤرخ ہمارے سیاستدانوں کے "سیاست نہ کرنے" والے بیان کو کسی
بھی صورت نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
سانحہ بڈھ بیر کو وقوع پذیر ہوئے کتنا عرصہ بیت چکا؟وزیر داخلہ سمیت اکثر
سیاستدانوں نے اس سانحہ کے بعد سخت ایکشن کی بات کرنے والے احمقوں کو تلقین
کی کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے اس پر سیاست نہ کی جائے!اور پھر ہر
سانحہ کی طرح ہم نے دیکھا کہ اس معاملہ پر کسی نے بھی سیاست نہ کی(جنرل
راحیل شریف کے علاوہ)۔اور ابھی یہ سانحہ ہماری یادوں سے محو ہونے کے قریب
ہے اگر عمران خان اور نواز شریف صاحب سمیت کوئی ایک بڑا سیاست دان ہی اس
معاملہ پر سیاست کر لیتا تو بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بچوں
،جوانوں اور بزرگوں کے قاتلوں کے سہولت کار آج سر عام دندناتے نہ پھرتے۔
سیاست در حقیقت ہے کیا؟جو اتنی بری چیز ہے کہ ہمارے سیاستدان اکثر غم اور
مصیبت کی گھڑی میں اس سے منع کرتے ہیں ۔
پاکستانی سیاستدانوں کی "سیاست" کو نکال کر اس وقت تک جتنی بھی سیاست کی
تعریفیں کی گئی ہیں ان میں یہ بات قریب الاتفاق ہے کہ سیاست در حقیقت عوام
یا لوگوں کی خدمت کا نام ہے۔جبکہ اس کے برعکس پاکستانی سیاستدانوں کی
کوششوں کو سامنے رکھ کر جو تعریف کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ :ہر طرح کے جائز
وناجائز وسائل کو بروئے کار لا کر اقتدار میں پہنچ کر عوام کی دولت کو
لوٹنا اور اپنے اثاثوں کی حفاظت کرنا ،اپنے مخالفین پر سچے جھوٹے الزامات
لگانا ان کی کردار کشی کرنا،اقتدار کے مزے لوٹنا وغیرہ وغیرہ ۔
اس مختصر سے آرٹیکل میں سیاستدانوں کی "سیاست" کی تعریف کو جامع اور مانع
انداز میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ہمارے سیاستدان اقتدار میں ہوں یا
اپوزیشن میں ہوں وہ یہی نایاب "سیاست "کرتے ہیں کوئی زیادہ پرانی بات نہیں
ایک صوبے کے وزیر اعلی مینار پاکستان پر دستی پنکھا ہلاتے ہوئے یہی سیاست
کرتے نظر آتے تھے لیکن جب وفاق میں بھی موصوف کے بڑے بھائی جان کی حکومت
قائم ہوئی اور لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی تو
کیونکہ یہ ایک قومی مسئلہ تھا اس لئے جناب آج کل اس مسئلے پر سیاست کرنے سے
باز رہنے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں ۔
نجانے کب اس مسئلے پر سیاست ہو گی ؟جب تک اس مسئلہ پر سیاست نہیں ہو گی تب
تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا بہر حال سیاستدانوں کو اس چیز کی داد دینی
چاہیئے کہ وہ جس چیز کو برا سمجھتے ہیں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں اور
قومی سلامتی کے امور میں سیاست کرنے سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں اس کا
مطلب یہ ہے کہ وہ جس طرح کی سیاست کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک بھی کوئی اچھی
چیز نہیں ہے ۔
آج کل ہماری سیاست میں چند ضمنی انتخابات کا جادوسر چڑھ کر بول رہا ہے۔جس
"سیاست مخصوصہ" سے سیاستدان سانحات کے وقت باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں اس
کی مکمل جھلک حلقہ این اے 122 میں دیکھی جا سکتی ہے۔ا س سیاست میں عوام کی
خدمت دور دور تک نظر نہیں آتی مقصد صرف مخالف فریق کو ہرا کر اپنی انا کو
تسکین پہنچانا ہے اگر امیدواروں کا ہدف حقیقی سیاست ہوتی تو کمپین کے دوران
کوئی ایک یہ ضرور کہتا کہ مقصد ہار جیت نہیں ہے اگر ہار بھی گیا تو عوام کی
خدمت جاری رکھوں گا لیکن دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں سے لے کر اصل امیدواروں
تک ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ وہ ہار نہیں سکتے ۔
اگر جناب عبدالعلیم خان اور سردار ایاز صادق کا ہم و غم عوام کی خدمت کرنا
ہوتا تو یقینا ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی نوبت کبھی بھی نہ آتی
عبدالعلیم خان صاحب اربوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں اتنے مال و دولت کے
باوجود ابھی تک وہ عوام کی خدمت نہیں کر پائے تو یقینا اقتدار میں آ کر بھی
وہ کچھ نہیں کر سکیں گے اس لئے کہ موصوف کی سیاست کا ہدف عوام کی خدمت نہیں
ہے اگر انہوں نے سیاست کے اصلی ہدف یعنی عوام کی خدمت پر عمل کیا ہوتا تو
آج انہیں کمپین چلانے کی ضرورت نہ رہتی، عوام اتنے احسان فراموش نہیں ہیں
کہ وہ اپنے محسن کی خدمات کو فراموش کر دیں۔دوسری طرف سردار ایاز صادق
متعدد مرتبہ ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں انہوں نے بھی عوامی خدمت کے اصول
پر عمل کیا ہوتا تو آج انہیں کمپین چلا کر اپنے مخالف پر الزامات لگانے کی
ضرورت پیش نہ آتی لیکن اس حلقہ میں "سیاست خاصہ" اپنی مکمل آن بان کے ساتھ
اپنے گر دکھا رہی ہے فریقین کی طرف سے نوٹوں کی بوریوں کے دھانے کھولے جا
رہے ہیں اور مخالفین پر سچے جھوٹے الزامات کی بارش کی جا رہی ہے ۔
کل اس حلقہ کا عوام فیصلہ کر دیں گے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کو ن جیتے گا
یا کون ہارے گا دونوں پارٹیوں کے سربراہوں اور امیدواروں کی کارکردگی سب کے
سامنے ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ حلقہ سیاست کی صحیح روح کے مطابق عوام کی
خدمت کرنے کے حوالےسے ایک سمبل اور حوالہ بن پائے گا یا پھر اس حلقہ کے
انتخاب کے بعد سیاستدانوں کی "سیاست مخصوصہ" کے نئے شرمناک نمونے سامنے
آئیں گے۔کل دیکھتے ہیں
|