عيد الاضحى سے پہلے کشمیر کا سیاسی ماحول خاصا گرم تھا
–ایک طرف ہندوتا کو نافذ کرنے کے لئے نریندر مودی اور اس کی ٹیم "زعفران
الیون" اپنے کپتان مفتی محمد سید کی سربراہی میں چاک و چوبند تیار کھڑی تھی
تو دوسری طرف سے کشمیری قوم بھی سینہ سپر اپنے دینی فریضہ کی ادائیگی کے
لئے کوئی درمیانی راستہ نکالنے کے لئے تیار نہیں تھی –کشمیر کے سیاسی درجہ
حرارت میں خاصہ اضافہ ہورہا تھا –ایک بار پھر ٢٠٠٨ والی رگڑا رگڑا صورتحال
پیدا ہورہی تھی –اندروں خانہ حکومت اور اس کے اتحادی پریشان تھے –جموں سے
دلھی تک حکومتی اہلکاروں کی بےچینی عیاں تھی –کہ اسی اثنا میں قابل احترام
قبلہ گیلانی صاحب نے ایک فتویٰ /بیان جاری کیا –جس میں مبینہ طور پر کشمیری
قوم سے ایک اپیل جاری کی گئی –کہ وہ عید الاضحى کے موقعے پر دوسرے مذاہب کے
جذبات کا احترام کریں جہاں تک میں اس بیان کو سمجھا ہوں- قبلہ گیلانی صاحب
نے لوگوں کو گائے کی قربانی کرنے سے منع کیا ہے- حالانکہ اطلاعات کے مطابق
لوگوں نے اس اپیل پر زیادہ توجہ نہیں دی - نا سیاسی اور مذہبی رہنماوں اور
مفتیوں نے اس پر رائے زنی کرنے کی کوشش کی- یہاں میں یہ بات سمجھنے سے
قاصرہوں کہ قبلہ گیلانی صاحب نے یہ فتویٰ نما اپیل کس حثیت سے کی ؟ بحثیت
ایک سیاسی رہنما اور عوامی لیڈریا بحثیت ایک عالم دین ؟ بےشک گیلانی صاحب
ایک مضبوط سیاسی رہنما اور آزادی پسند لیڈر ہیں - اس میں دو رائے نہیں
–لیکن اس کا قطی یہ مطلب نہیں –کہ وہ ایک مفتی بھی ہیں اور فتوے بھی جاری
کرسکتے ہیں ؟ یہ ایک نازک مذہبی معامله ہے – اس میں قطعی طور سیاست کرنے کی
ضرورت نہیں تھی –اگر کوئی لیڈر یا جماعت یہ سمجھنے لگے –کہ ہمارا لیڈر
فلسفہ –سیاست مذہب اور ایڈمنسٹریشن وغیرہ سب سمجھتا ہے یہ ایک سراب ہے –یہ
ایک دھوکہ ہے –یہ مطلق العنانیت ہے کیونکہ یہ اسپشلیزشن کا دور ہے – اور یہ
ممکن نہیں ہے – شاید وہ سیاست کا بہتر فہم رکھتے ہونگے – مگر یہ سیاست نہیں
مذہب ہے – اور یہاں رائے زنی صرف قرآن و حدیث یا کسی مستند عالم دین کے
اجتہاد کا سہارا لیکر کی جاسکتی ہے -آئے دیکھتے ہیں جید علمائے کرام اس
معاملے میں کیا رائے دیتے ہیں – ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ
,ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻮﺩﻭﺩﯼ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ
-مولانا مودودی اس حوالے سے تﻔﮩﯿﻢ ﺍﻻﺣﺎﺩﯾﺚ , ﺟﻠﺪ ﭼﮩﺎﺭم میں رائے زنی کرتے
ہوئے فرماتے ہیں –" ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻫﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺅﮞ ﮐﻮ ﺭﺍﺿﯽ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﮔﺮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺗﺮﮎ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﺎﺋﻨﺎﺗﯽ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻧﮧ ﺁﺟﺎﺋﮯ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻫﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﺮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﻮ
ﺿﺮﻭﺭ ﺁﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ - ﺍﻓﺴﻮﺱ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﻘﻄۂ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ
ﮐﮯ ﻧﻘﻄﺌﮧ ﻧﻈﺮ ﮐﯽ ﻋﯿﻦ ﺿﺪ ﮨﮯ - ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ
ﺩﻭ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﻭ ﻧﺰﺍﻉ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ - ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ
ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﺻﻞ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﯾﮧ ﺍﻣﺮ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﺎ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ
ﺷﺮﮎ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻣﻤﮑﻦ ﺧﻄﺮﮦ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ -
ﺟﺲ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﭘﻮﺟﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﻣﻌﺒﻮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ
ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﻘﺪﺱ ﮐﺎ ﺑﻬﯽ ﻋﻘﯿﺪﻩ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮ - ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ
ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻣﺤﺾ ﺍﯾﮏ ﺟﺎﺋﺰ ﻓﻌﻞ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻀﺎﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
- ﻟﯿﮑﻦ ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﺋﮯ ﻣﻌﺒﻮﺩ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺪﺱ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺭﮐﻬﺘﯽ ﮨﻮ، ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ
ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻬﺎ - ﺍﮔﺮ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻠﮏ
ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺼﻠﺤﺘﺎً ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺗﺮﮎ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ
ﺑﻬﯽ ﻧﮧ ﮐﻬﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﺎﺅ
ﭘﺮﺳﺘﺎﻧﮧ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﺗﻘﺪﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻮﺏ
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺼﺮ ﮐﯽ ﮔﺎﺅ ﭘﺮﺳﺖ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺑﻨﯽ
ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ " ﺍﺷﺮﺑﻮﺍ ﻓﯽ ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ ﺍﻟﻌﺠﻞ " ﭘﻬﺮ ﺍﺱ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ
ﮨﻨﺪﻭ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻟﯿﮟ ، ﻟﯿﮑﻦ
ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺲ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺪﺳﺘﻮﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ - ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺋﮯ
ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺟﺐ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﮐﺴﯽ ﻧﻮ ﻣﺴﻠﻢ
ﮨﻨﺪﻭ ﮐﺎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﻧﻬﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮔﺎﺋﮯ
ﮐﺎ ﮔﻮﺷﺖ ﻧﮧ ﮐﻬﺎ ﻟﮯ - ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﮦ ﺣﺪﯾﺚ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ " ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻢ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﺍﺳﯽ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺫﺑﯿﺤﮧ ﮐﻬﺎﯾﺎ ﻭﮦ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ
ﺳﮯ " - ﯾﮧ " ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺫﺑﯿﺤﮧ ﮐﻬﺎﻧﺎ " ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﻌﻨﯽ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﺍﻭﮨﺎﻡ ﻭ ﻗﯿﻮﺩ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪﺷﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﺑﻬﯽ
ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ -
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻣﺒﺎﺡ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ
ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺣﺮﺍﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﮮ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺣﺮﻣﺖ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ
-
ﺷﺮﯾﻌﺖِ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻄﺮﯼ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﻏﻠﺒﮧ ﺑﻼ ﺷﺮﮐﺖِ
ﻏﯿﺮ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻏﯿﺮﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﻦ پھﻼﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺘﺒﻌﯿﻦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﻏﯽ ﺩﯾﮑﻬﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ - ﻧﮧ
ﮐﮧ ﻣﻄﯿﻊ ﻭ ﻭﻓﺎ ﺷﻌﺎﺭ - ﺟﺲ ﻧﻈﺎﻡِ ﺣﻖ ﮐﻮ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ
ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﺁﺧﺮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ
ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﮐﮯ ﺍﮨﻢ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﺳﺮﮐﺸﯽ
ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ ﻧﺎﻓﺬ ﮐﺮﮮ
ﺷﺮﯾﻌﺖِ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﮐﯽ ﯾﮩﯽ ﺍﺳﭙﺮﭦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﻈﺎﻡِ ﮐﻔﺮ ﻭ ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﺭﺑﺎﺏ ﺣﻖ ﮐﻮ ﺻﻒ
ﺁﺭﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺤﻀﺮﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭘﯿﺸﮕﻮﺋﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﺗﯽ
ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻬﺎﺩ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ، ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﺩﻝ ﮐﺎ ﻋﺪﻝ ﺍﺳﮯ
ﺧﺘﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﻇﻠﻢ - ﯾﮩﯽ ﺍﺳﭙﺮﭦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﮑﻮﮞ ﮐﯽ
ﻣﺤﺮﮎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﮯ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﻮ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﯽ ﺧﻮﻓﻨﺎﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺟﻬﮏ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﮐﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺟﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﺍﺳﭙﺮﭦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺳﻼﻣﯿﺖ
ﻣﯿﮟ ﮐﺘﺮﺑﯿﻮﻧﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻧﻈﺎﻣﮩﺎﺋﮯ ﻃﺎﻏﻮﺕ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﮐﮧ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ
ﮨﮯ، ﺑﻠﮑﮧ ﺣﺪ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﭼﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﺤﮑﻢ ﺭﮐﻬﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﻆ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺧﺪﻣﺎﺕ ﺗﮏ ﺳﺮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺎﻭﯾﻠﯿﮟ ﮐﺮ ﻟﯽ ﮨﯿﮟ -
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺧﻮﺏ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮔﺎﺅ ﮐﺸﯽ ﺍﮔﺮ ﻃﺎﻏﻮﺕ ﮐﯽ ﺭﻭﮎ ﺳﮯ ﻣﺒﺎﺡ
ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﻬﺮ ﺍﻣﺮ ﺑﺎﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﻭﺭ ﻧﻬﯽ ﻋﻦ ﺍﻟﻤﻨﮑﺮ ﮐﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﺎ
ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻓﺮﺽ ﺍﻭﺭ ﺑﻬﺖ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﺑﺎﻃﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺰﺍﺣﻤﺖ ﮐﮯ
ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻓﺮﺽ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﺽ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭼﺸﻢ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ
ﮐﮯ ﺍﮔﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺰﺍﺭ ﻧﻔﻠﯽ ﻋﺒﺎﺩﺗﯿﮟ ﺑﻬﯽ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﮯ -
ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﺍﻟﮩﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﯽ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﻓﯽ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﭼﺎﮨﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﭼﻬﻮﭨﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ
ﻣﯿﮟ ﮨﻮ، ،ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻋﻘﯿﺪﺋﮧ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﭘﺮ ﺑﺮﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﮯ - ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺍﯾﺴﯽ
ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻣﺪﺍﺧﻠﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺪﺍﺋﯽ
ﮐﺎ ﻋﻤﻠﯽ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ - ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﻋﻼﻥ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ
ﺑﯿﭩﻬﮯ رہنے ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﻣﺸﺘﺒﮧ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ، ﮐﺠﺎ ﯾﮧ ﺣﺎﻝ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﮯ
ﺇﻋﻼﻧﭽﯽ ﺧﻮﺩ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﺠﺒﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﻗﻮﺗﯿﮟ ﺑﺎﻃﻞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ -
ﭘﺲ ﺍﺻﻠﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮔﺎﺅ ﮐﺎ ﻧﻬﯿﮟ ﮨﮯ ، ﺑﻠﮑﮧ ﻋﻘﯿﺪﺋﮧ ﺗﻮﺣﯿﺪ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﺍﺧﺮﻭﯼ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪﯾﮟ ﻗﺎﺋﻢ
ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟"
اب ایک اور عالم دین اور مفکرمولنا اشرف علی تھانوی صاحب کے نقطۂ نظر کو
ملاحظہ کرتے ہیں
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا کہنا تھا کہ چونکہ قربانی شعائر اسلام میں
سے ہے جسے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر قائم کیا ہے
اس لئے اگر مسلمان ایک شعائر اسلام کو چھوڑنے پر تیار ہوگئے تو دین کی بیخ
کنی شروع ہوجائے گی اور ایسا کرنا دوسری قوموں کو اس بات کی دعوت دینا ہوگا
کہ سب احکام اسلام ایسے ہی ہیں اس لئے ان کو کسی نہ کسی وجہ سے چھوڑا
جاسکتا ہے۔
مولانا نے مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اگر ہندوؤں کو خوش کرنے کی خاطر وہ
قربانی گاؤ کو ترک کرنے پر آمادگی کا اظہار کریں گے تو پھر کل کو ہندوؤں
کا مطالبہ یہ ہوگا کہ کلمہ چھوڑ دو۔ تاکہ دونوں قوموں اتفاق اور اتحاد بڑھ
جائے کیونکہ حقیقت میں تو یہ ساری دشمنی کلمہ پڑھنے کی بدولت ہے۔ الافاضات
الیومیہ جلد اول ص ۳۲۹۔ مولانا تھانوی چونکہ قربانی گاؤ کو شعائر اسلام
میں سے سمجھتے تھے اس لئے آپ کے نزدیک اس کا گوشت کھانا بھی موجبِ ثواب
تھا۔ فرمایا کہ " اس وقت مسلمان کی وقا میں تین چیزیں ہیں، ایک نماز دوسرے
بزرگوں کی محبت تیسرے گائے کا گوشت"۔ الافاضات الیومیہ جلد اول ۳۲۷
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی بھی گائے کی قربانی کو
شعائر اسلام میں سے سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا " ذبح بقر
در ہندوستان از شعائر اسلام است" ذبیحہ گاؤ ہندوستان میں ایک بڑا اسلامی
شعائر ہے۔
مکتوبات امام ربانی جلد اول ( لکھنؤ۱۹۱۳ء) مکتوب نمبر۸۱۔
علما کی رائے کے بعد میں نہیں سمجھتا ہوں – میرے کسی مزید تبصرے کی ضرورت
باقی رہی ہے –البتہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کو میرا ایک مشوره ہے – کہ سیاسی
بیان بازی بیشک بنا سوچے سمجھے کریں –مگر جہاں اسلام احکام یا معاملات کے
بارے میں رائے زنی کرنی ہو –تو از راہ کرم قرآن اور سنت یا مستند علمائے
کرام سے مشوره کیا جائے |