مسلم لیگ(ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی

ے شک عمران خان نے لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے تخت اور قلعہ میں شگاف ڈال دیا ہے اور تحریک انصاف نے سیاسی طور پر لاہور میں قدم جما لیے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) زوال پذیر ہورہی ہے اور تحریک انصاف متبادل سیاسی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی مگر اس کی قیادت کے پاس سنبھلنے کا وقت ہے۔ وہ مغل شہزادوں کی طرح حکمرانی کرنے کی بجائے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حکومت کریں۔
این اے122کے نتائج دیکھ کر یہ توکہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے کتنی مشکل سے یہ الیکشن جیتا اور ان کو کامیابی کیلئے کیا کیا نہیں کرنا پڑا۔ شہباز شریف نے پوری توجہ دی جبکہ اکثر وفاقی وزراء اورایم این اے اور ایم پی ایزکی اکثر یت ایک ایک یونین کونسل پر ڈیوٹی دیتی رہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے کارکنوں کو منانا پڑا۔ قیادت نے مراعات دیکر راضی کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی عزت قائم رکھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریک انصاف ناکام ہوگئی۔ تحریک انصاف کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ انہوںنے اتنی زبردست الیکشن مہم چلائی کہ مسلم لیگ (ن)کی تمام قیادت کو ووٹرزکے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ سیاست اورالیکشن بہت بڑا سبق سکھاتے ہیں۔

دوران ضمنی انتخابی مہم عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ نوازشریف نے اقتدار میں آ کرکرپشن کے ذریعے 140ارب بنائے۔ بجلی چوری، نااہلی اور کرپشن کی مد میں قومی خزانے کو 900 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔نندی پورپراجیکٹ پرڈاکہ مارا گیا اور ان کو 22 ارب کی بجائے 84 ارب روپے تک پہنچادیاجوپانچ دن بعد بند ہوگیا۔اسلام آباد ایئرپورٹ 35ارب کی بجائے100ارب تک پہنچ گیا۔ نواز شریف کا بیٹاحسین نواز700کروڑروپے کے گھرمیں رہتا ہے۔ نوازشریف نے بے نظیر بھٹوکی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے رقم لی تھی۔ انتخابات کیلئے خلیجی ممالک سے پیسے لئے تھے۔

ایاز صادق کی جیت پر بہت سے سوالیہ نشان لگ چکے ہیں۔ ایاز صادق حلقہ 122سے 2013ء میں عمران خان سے جیتے تھے۔اس حلقے میں دھاندلی ثابت ہونے پر ایاز صادق کو ڈی سیٹ کرکے ضمنی الیکشن ہوا۔اُس وقت ایاز صادق نے 93 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے انکے مد مقابل عمران خان کو ان سے 9ہزار ووٹ کم ملے تھے جبکہ حلقہ 122سے ملحق ایک صوبائی حلقے سے آزاد امیدوار اسلم اقبال جو بعد ازاں پی ٹی آئی میںشامل ہوئے، جیتے جبکہ دوسرے حلقے سے ن لیگ کے محسن لطیف کامیاب قرار پائے۔ مسلم لیگ ن نے یہاں سے دوسری صوبائی سیٹ بھی کھو دی۔ایاز صادق کو پہلے کی نسبت بیس ہزار ووٹ کم ملے اور مقابلے میں عمران نہیں علیم خان تھے۔ دو قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن ہاری ہے۔ جیتے تو صرف تین ہزار کے مارجن سے؟ مسلم لیگ ن کے تخت لاہور ٹائی ٹینک میں سوراخ ہوچکا ہے۔تجزیہ کار اور سیاست کا باریک بینی سے جائزہ لیتے کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن نے ایاز صادق کے حلقے کو ٹیسٹ کیس بنایا تھا،اس ٹیسٹ کو مسلم لیگ ن پوری طرح کلیئر نہیں کرسکی، ن لیگ کے ہاتھ سے تخت لاہور ہی نہیں پورا پنجاب بھی پھسلتا محسوس ہورہا ہے۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی یہی رجحان برقرار رہا تو مسلم لیگ ن کیلئے شدید مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس اب بھی وقت ہے۔ اپنے انتخابی وعدے پورے کرے۔مہنگائی کے طوفان کو روکے،بجلی اب تک پوری نہیں کی گئی کم از کم بل تو اتنا بھیجے جتنی عوام استعمال کرتے ہیں۔مسلم لیگ ن کی حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض میں پیپلز پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے،نندی پور پاور پراجیکٹ جیسے منصوبوں میں اربوں کی کرپشن میں حکومتی لوگوں کے ملوث ہونے کے سکینڈل موجود ہیں، عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں نصف سے بھی کم ہوئیں،حکومت یہ ریلیف عوام تک پہنچانے کے بجائے نہ جانے کہاں پہنچا رہی ہے۔ کسان اور تاجر حکومتی پالیسوں سے مایوس ہیں۔

نواز شریف وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز ہیں جنہوں نے فلپائن کے آنجہانی صدر مارکوس کو بھی مات دیدی ہے۔ ہر عید پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں کہ کہیں فیصل مسجد یا بادشاہی مسجد میں کھلے عام نماز عید نہ پڑھنی پڑ جائے۔ دوسرے چھوٹے وزیراعظم میاں شہباز شریف جو وڈیو لنک میٹنگ، کانفرنس اور جلسے کرکے خود کو ٹیپو سلطان سمجھتے ہیں بلکہ خود کو نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد، مائوزے تنگ، کمال اتاترک، ایڈلف ہٹلر ہی ظاہر کرتے ہیں اور کمال مہارت سے سب کی کاپی بھی کر لیتے ہیں۔ وہ خود کو سات لیڈروں کا نچوڑ سمجھتے ہیں اور سات زبانیں اردو، پنجابی، انگریزی، عربی، ترکی، چینی، جرمن بول کر اور سات اشعار سنا کر خود کو ادیب شاعر دانشور اور فلاسفر ثابت کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہے میاں شہباز شریف کا معیار تعلیم اور تعلیمی ویژن، نالج پارک کے چرچے ہیں جس میں ’’نالج‘‘ نظر نہیں آ رہی۔ سارا زور پارک پر ہے۔ جس قوم کے لیڈر ایسے ہوں اس قوم کو اپنی فاتحہ خود ہی پڑھنی پڑتی ہے۔ ہر چند کہ مسلم لیگ(ن) لاہور کی قومی اسمبلی کی نشست جیت گئی ہے مگر زندہ دلان لاہور نے اس کی قیادت کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ لاہور کے اربوں روپے کے میگا پراجیکٹس سے مطمئن نہیں ہیں۔ حکومت ان کے روز مرہ کے مسائل پر توجہ دے۔ زندہ دلان لاہور نے پنجاب حکومت (خادم اعلیٰ) پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور صوبائی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف کے اُمیدوار شعیب صدیقی نے جیت لی ہے -

بے شک عمران خان نے لاہور میں مسلم لیگ(ن) کے تخت اور قلعہ میں شگاف ڈال دیا ہے اور تحریک انصاف نے سیاسی طور پر لاہور میں قدم جما لیے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) زوال پذیر ہورہی ہے اور تحریک انصاف متبادل سیاسی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی مگر اس کی قیادت کے پاس سنبھلنے کا وقت ہے۔ وہ مغل شہزادوں کی طرح حکمرانی کرنے کی بجائے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر حکومت کریں۔ روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، معیاری تعلیم اور صحت، کمر توڑ مہنگائی سے نجات اور فوری و سستا انصاف عوام کی بنیادی ضروریات میں ان کو نظر انداز کرکے ساری توجہ میٹروز اور موٹر ویز پر اسی فیصد بجٹ صرف کرنے سے عوام کبھی مطمئن نہیں ہوں گے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 335201 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More