ہندو راشٹر کا خواب مسلمان
کو مار کر ہی کیوں؟
28ستمبر2015ء کادن بھارت میں ان سینکڑوں تاریک ایام میں سے ایک ہے جب محمد
اخلاق نامی ایک مسلمان کو دادری ضلع کے ایک گاؤں میں اُس’’ جرم‘‘ کی پاداش
میں قتل کیا گیا جو اس بے چارے نے کیا ہی نہیں تھایعنی گائے کا گوشت کھانے
کا جرم؟فارنسک لیبارٹری میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ محمد اخلاق کے گھر کے
فرج میں پڑا ہوا گوشت گائے کا نہیں بلکہ بکری کا تھا ! سوال پیدا ہوتا ہے
کہ بکری کا گوشت ’’سور خوروں ‘‘کے مطابق گائے کا گوشت کیسے بن گیا ؟یہ خبر
کس نے پھیلائی ؟بھیڑ کو کس نے جمع کیا؟مندروں کے لاوڈ اسپیکروں سے گائے کے
گوشت کھانے کی خبر کس نے پھیلائی ؟اس کے پیچھے کس کا دماغ تھا؟ اخلاق کو
گائے خور بنا کر کس نے کیا حاصل کر لیا ؟اس کے معصوم بیٹے کو ادھ موا
چھوڑکر کس نے کیا پایا ؟اور اس سب ’’وحشیانہ دہشت گردانہ کاروائی کا بنیادی
مقصد کیا تھا؟انہی جیسے درجنوں سوالات ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا اور
جاننا وقت کی ایک اہم ترین ضرورت بن چکی ہے اس لئے کہ بھارت دنیا میں کثیر
الآبادی ملک ہے اور مسلمان بھی یہاں سب سے زیادہ رہتے ہیں ۔
بھارت کے عوام نے گذشتہ الیکشن میں ترقی کے ساتھ ساتھ مذہب کے نام پر
آر،ایس،ایس کو ووٹ دیا ۔بی ،جے ،پی آر ،ایس،ایس کا سیاسی چہرہ ہے ۔یہ کوئی
سیکولر جماعت نہیں ہے بلکہ خالص ہندتوا کے ایجنڈے کو نافذ کرنے والی ایک
ایسی جماعت ہے جس نے مسلمانوں کی لاشوں اور املاک کی تباہی وبربادی پر
ہمیشہ سیاست کی ہے ۔اس کا مقصد بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنا ہی شامل
نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد میں بھارت کو ایک ہندؤ راشٹر بنانا بھی شامل ہے ۔اس
پارٹی کے قومی سطح کے لیڈران نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں رتھ یاترا
نکال کر فیض آباد پہنچ کر قانون کو بالائے تاک رکھتے ہو ئے بابری مسجد کو
شہید کردیا تھا اور اس مقصدکے حصول میں نرسیماراؤکی’’کانگریس سرکار ‘‘نے
اپنے ہم مذہب لیڈران کی بھر پور مدد کی تھی ۔بابری مسجدکی غیر قانونی طریقے
پرشہادت کے بعد بھارت بھر میں ’’سنگھ پریوار‘‘کے حوصلے بلند ہو گئے اس لئے
کہ مجرمین کی حوصلہ شکنی کے برعکس ان کی ’’ریاستی پشت پناہی اور حوصلہ
افزائی‘‘نے پورے ملک میں یہ خاموش پیغام پھیلادیا کہ جو بھی شخص یا تنظیم
مسلمانانِ ہند کے مال جان کو نقصان پہنچائے گا یا مذہبی شعائر کا مذا ق
اڑائے گا تو اعلیٰ سے اعلیٰ منصب بھی اس کے قدم چوم لے گا ،بالکل اسی طرح
جس طرح ایڈوانی جی کو رتھ یاترا کے عوض ہندوستان کی وزارت داخلہ سے عظمیٰ
تک پہنچا دیا گیا ۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد چھوٹے موٹے مسلم کش فسادات کو چھوڑ کر سیدھے
’’گجرات کے قتلِ عام ‘‘پر آجائے تو معلوم ہو گا کہ ہمارا یہ دعویٰ
کہ’’مسلمانوں کے مال وجان سے کھیلنے اور مذہبی شعائرکا مذاق اڑانے‘‘پر
بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب تک پہنچا دیا جاتا ہے
سچا دعویٰ نظر آئے گا۔سزا تو در کنار بلکہ شرمندگی کے برعکس جس ملک میں
حوصلہ افزائی کی روایت ریاستی پشت پناہی کے ساتھ قائم ہو چکی ہو تو اس ملک
میں اقلیتوں کے مال و جان کی حفاظت کا تصور کیسے قائم کیا جا سکتا ہے ؟
گجرات قتل عام کی سر پرستی کا الزام جن حضرات پر لگا وہ وزارت عظمیٰ سے
لیکر دوسری وزارتوں تک پہنچ جائیں تو ایسے میں محمد اخلاق جیسے فرد کو کسی
روکاوٹ کے بغیر سر عام قتل نہ کیا جا ئے تو اورکیا ہو گا؟محمد اخلاق کی
مظلومانہ شہادت جن لوگوں کا کارنامہ ہے انہی کے سر پرستوں نے سابق ممبر
پارلیمنٹ جعفری صاحب کو ببانگِ دہل گجرات کی سڑکوں پر گھسیٹا اور قتل کردیا
!کیا کبھی کسی ہندؤ لیڈر کو اس بے رحمی کے ساتھ کسی مسلمانوں کی بھیڑ نے
قتل تو در کنار بے عزت کیا ہے ؟ محمد اخلاق ایک عام مسلمان تھا اس کا یہ
کوئی چھوٹا جرم نہیں تھا کہ وہ ’’مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں کا رہنے
والاتھا‘‘جس ملک میں ممبر پارلیمنٹ کے قاتلوں کو تحقیقاتی ایجنسیوں سے لیکر
اعلیٰ عدالتوں تک ہر جگہ باعزت رہائی نصیب ہوتی ہو اس ملک میں محمد اخلاق
کے قاتلوں کو سزا ملنے کی اُمید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
بھارت کی آبادی کی اکثریت نے آر،ایس،ایس کو ووٹ دیکر اپنے سوچ کو نئی سمت
بخشی ۔بھارت کے ہندؤں کی اکثریت اب بھارت کو ہندؤ راشٹر بنانے کے حق میں
نظر آتی ہے۔کل تک بھارت کی سیکولر جماعتیں یہ تاثر دیتی رہیں ہیں کہ بھارت
سیکولر ملک ہے اور یہاں کسی انتہا پسند ی کی کو ئی گنجائش نہیں ہے مگر حق
یہ ہے کہ بھارت ایک تسلسل اور تدریج کے ساتھ ہندؤ راشٹر بننے کی جانب بڑھا
یہاں تک کہ آر،ایس،ایس کے ’’چالک‘‘پوری اکثریت کے ساتھ بر سرِ اقتدار آگئے
اور اب وہ انتہائی تیزی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔سیکولر
ہندؤں کے لئے انھوں نے ایک نئی صورتحال یہ پیدا کردی ہے کہ آر ،ایس،ایس کے
ایجنڈے کو نہ ماننا گویا دھرم کا انکار اور اس کی توہین ہے ۔رہے مسلمان تو
آر ،ایس،ایس کی لغت میں اس کے لئے ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے انھیں ہر طرح
خوف زدہ کردینا تاکہ وہ اپنے لب کھولنے کے بجائے چپ چاپ تماشائی بنے رہیں ۔محمد
اخلاق کے قتل کی درپردہ کہانی ہی یہی ہے کہ بھارت کا مسلمان خوف میں مبتلا
رہے ۔بھارت کے مسلمان نے مزاحمت ہی کب کی ہے کہ ہندو راشٹر بنانے والے ان
کے عقائد اور جذبات کا خیال رکھیں ۔
بھارت کے ہندؤں کو سوچنا چاہیے کہ اگر بھارت ہندؤ راشٹر بن جاتا ہے تو کیا
یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ نا بہتر؟ اس لئے کہ یہ آس پاس کے ممالک میں بھی
مذہب کے تئیں جذبات بھڑکا دے گااور ان میں مذہب کی طرف جھکاؤ پیداہوگا اور
رہا ہمسایہ ملک چین جس کا کوئی مذہب ہی نہیں ہے بلکہ اس کو مذہب ہی سے نفرت
ہے کی بھارت دشمنی میں اور بھی اضافہ ہوگا ۔بھارت کے ہندؤ راشٹر کے راستے
میں خود ہندؤں کے علاوہ کوئی اور رکاوٹ نہیں ہے البتہ بھارت کے ہندوں
کواندیشہ اس بات کاہے کہ پھر مذہب کی تشریح بھی آر ایس ایس ہی کرے گی اور
لامحالہ بھارت کے کروڑوں لوگوں کو ان کی مذہب سے متعلق تشریح بھی قبول کرنی
پڑے گی ۔ان سبھی سوالات سے اہم سوال یہ ہے کہ بھارتی باسی یہ بھی سمجھ لیں
کہ مسلمان ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ خود بھارت کے سیکولر اور لبرل
ہندؤ اس راہ میں رکاوٹ ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ’’دستور‘‘جس کی بنیاد
سیکولر ازم پر ڈالی گئی ہے ۔جس میں ملک کے تمام مذاہب کو برابر کا مقام دیا
گیا ہے اور ہر شہری کو مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے لطف اور چاہت کے ساتھ جینے
کا حق قبول کیا گیا ہے ۔ |