سیاسی یتیم حلقہ انتخاب گول
ارناس……!!
یہ علم ۔ یہ حکمت، یہ تدبر،یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم ِ مساوات
یوں تو ہندوستان کا یوم آزادی1947 ء ہے انگریز اس ہندوستان سے بھاگ نکلے
لیکن اپنے پیرو کاروں کا ایک نشانہ یہاں چھوڑ گئے جو آج بھی عوام کیساتھ
انگریزوں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے کئی علاقے ہیں جو آج بھی غلامی
کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ آج بھی عوام اُن انگریز نما سیاست دانوں کی
مظالم زنجیروں جکڑے ہوئے ہیں۔ عوامی آرزؤں ، اُمنگوں کا سر عام قتل کیا جا
رہا ہے ۔انگریزوں کے یہ پیروکار سیاست دان حق تلفی، گنڈہ گردی، ذات پات،
فرقہ پرستی، انا پرستی ،بے ایمانی، بد اخلاقی، بد نیتی، بغض،حسد اور کینہ
جیسی جنگ چھیڑ کر عوامی بھائی چارے،اتفاق، اتحاد اور محبت کو ختم کرنے کی
مزموم کوشش میں سر گرم عمل ہیں ۔اس کی ایک مثال سماجی طور پسماندہ ،سیاسی
طور یتیم اور تعمیر وترقی میں مفلس ونادار حلقہ انتخاب گول ارناس سے مل
سکتی ہیں جہاں انگریز نما سیاست دانوں کی بڑھتی تعداد نے عوام کا جینا حرام
کر دیا ہے ۔ سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں لیکن سیاست کی بات کی جائے تو
روزِ اول سے ہی اس حلقہ میں انتقام گیری کی سیاست کا کھلم کھلاکھیل کھیلا
جا رہا ہے ۔عوام غلامی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے اور سیاست دان اپنے
ناپاک عزائم کا چمن ہرا رکھنے کیلئے ناپاک سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں۔
انتخابات کے دوران عوام کے ساتھ وعدوں کی بوچھاڑ ان کا پیشہ وارانہ ہتھکنڈہ
ہے عوام انہیں اپنے قیمتی ووٹوں سے نوازتی ہے لیکن اس کے عوض میں عوام
کوکیا حاصل ہے سب کے سامنے عیاں ہے ۔ جہاں دیکھومایوسی ہی مایوسی ہے ۔
نوجوان، بزرگ، بچے سب کے سب پریشان حال ہیں کہ آخر ہمیں ان انگریزوں سے کب
نجات ملے ۔ ان انگریزوں کا قلع قمع کرنے کیلئے کونسا گاندھی جنم لے گا۔
ہائے رے قسمت …… گاندھی کے اس دیش میں پھر سے انگریز وں کا دور دورہ شروع
ہو رہا ہے بس فرق اتنا ہے کہ وہ گورے انگریز تھے اوریہ کالے انگریز
ہیں،گوروں کا کام کالے انجام دینے لگے ۔
بے شک جمہورت کسی بھی قوم کی خوش بختی کی علامت ہو تی ہے۔وہ سیاست دان جو
جمہوری روایات کی پاسداری اس کی اصل روح کے مطابق کرتے ہیں ،اپنے نظام حکو
مت اور نظام حیات کو جمہوریت کے حقیقی سانچے میں ڈھال دیتے ہیں بلاشبہ وہ
دن دگنی رات چگنی ترقی کی منزل پر گامزن ہو جاتے ہیں۔جمہورت ایسا عمل ہے جو
حکو مت کو عوام اور عوام کو حکو مت سے قریب تر کر دیتا ہے اس لئے شاعر مشرق
علامہ محمد اقبالؒؔ نے فرمایا ہے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
کیا حلقہ انتخاب گول ارناس کی اساس میں بھی جمہورت کا خمیر شامل ہے؟ اس کا
جواب اس علاقہ کے کسی بھی فرد کے پاس نہیں ملتا ،لیکن حلقہ انتخاب گول
ارناس کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اگر یہاں
کی اساس میں جمہوریت کا خمیر شامل ہو تاتو صورت حال اس قدر رنجیدہ نہ ہوتی،
جمہوریت پھلنے پھولنے کی بجائے اب تک رینگ رہی ہے جبکہ ہندوستان کا بچہ بچہ
جمہوری روایات پر عملی طور پر کاربند ہو نے کی وجہ سے بام عروج چھو نے کا
دعویدارہے اور ان کے یہ دعوے بڑ ی حد تک بجا ہیں ،دوسری طرف ہم ہیں کہ ابھی
تک گلے سے کشکول اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
ہماری ان تمام پریشانیوں اور بدحالی کی اصل وجہ سیاسی انتقام گیری ہے۔سیاست
دانوں نے جمہوریت کا نام لیکر جمہور پر سیاست کی مگر جمہور کو ان کے حقوق
دینے ،انصاف فراہم کر نے اور انہیں ایک قوم بنانے میں ناکام رہے۔انگریز نے
بر صغیر پر قبضہ جمانے کے بعد اپنے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کر نے کیلئے
چند اصول وضح کئے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ بر صغیر میں بسنے والوں کو
مذاہب ،عقائید ،فرقوں ،نسلوں علاقوں اور لسانی اعتبار سے تقسیم کر کے انہیں
آپس میں لڑاؤ اور ان پر حکو مت کرو۔جاتے جاتے گورابرصغیرکے ایک چھوٹے سے
ٹکڑے حلقہ انتخاب گول ارناس میں اس اصول کوتحفے میں چھوڑ گیا جسے ہمارے
سیاست دانوں نے غنیمت سمجھ کر اپنے گلے لگایا اور عوام پر آزمایا۔
حلقہ انتخاب گول ارناس جو کہ سیاسی طور پر روز اول سے ہی اپاہج ہے لیکن
عوام کا آپسی بھائی چارہ ، اتحاد، اتفاق اور پیار و محبت کی ایک شمع جل رہی
تھی جو سیاست دانوں کے ناپاک عزائم کو قائم رکھنے میں ایک رکاوٹ تھی جسے
سیاست دانوں نے آخر کا ربجھا کر اپنے سیاسی کھیل کا ننگا ناچ کھیلا۔کالا
قانون رخصت ہوا،صبح نو کی نوید سنائی گئی۔جمہوریت کا سورج سیاست کی چمکیلی
کرنوں کے ساتھ طلوع ہوا مگرگوروں کے نقش و قدم پر چلنے والے سیاست دان نما
انسانوں نے سیاست کی تصویر ہی الٹا دی۔اقتدار کی حوس اور شہرت کا بھوت کچھ
اس طرح دل و دماغ پر سوار ہوا کہ قوم کو فرقوں ،نسلوں اور علاقوں میں بانٹ
دیا گیا۔نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں ،انسانی ضمیر کو خریدنے اور
بیچنے کا عمل عام ہو گیا ،یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری
رہے گا۔
میرے خوب رو اس پسماندہ حلقہ کے سیاست دانوں نے فرعون کی یاد تازہ کرنے کا
اعزاز حاصل کیا۔نوجوان بیروز گاری کی چکی میں پسے جا رہے ہیں ،بزرگ اپنے
نوجوان اولادوں کے سامنے شرمندہ ہوتے ہوئے نظر آ رہے، ننھی کلیاں سخت دل
حکمرانوں کی عیش پرستی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں لیکن سیاسی
رہنمالاپرواہی سے غریبوں کے مستقبل کو صلیب پر لٹکانے میں اہم ترین کردار
ادا کرکے غریبوں کی حسرتوں کا خون کررہے ہیں ۔سیاست دانوں نے ہر شعبہ میں
اپنا ایک آفیسر تعینات کر رکھا ہے جو یہاں کی غریب عوام کو دو دو ہاتھوں
لوٹتا جا رہا ہے اُسے پوچھنے والا کوئی نہیں جنہیں اس کام کیلئے عوام نے
اپنا قیمتی ووٹ دیکر منتخب کیا تھا وہ آستین کے سانپ نکلے، رشوت خور اور
کرپٹ ملازمین کا ایک لشکر گول میں ہے اچھے آفیسرکا دنوں میں تبادلہ نا
تجربہ کار آفیسران گول واسیوں کا مقدر بن چکا ہے ۔کسی کو بھی اس قوم کی
ہمدردی کا خیال نہیں ۔جنہیں اپنا رہبر چنا وہی رہزن بن گئے۔ انہیں ووٹ حاصل
کرنے والے اُس غریب کی تکلیف کا کیا احساس وہ تو سمجھتے ہیں کہ غریب ڈنگر
ہیں جن کا کام ہی ذبح ہونا ہے۔ مریضوں کے لئے طبی سہولیات کا کوئی بند و
بست نہیں۔سب ضلع ہسپتال گول اور لاپرواہی کا یہ عالم !اس ہسپتال میں نا
تجربہ کار ملازمین کودس دس برسوں سے ایک ہی جگہ پر تعینات رکھ کر کتنی ماؤں
کی گود اجڑ گئی اور کتنی خواتین زچگی کی حالت میں فوت ہو گئیں کیا کیا سپنے
ان آنکھوں نے دیکھے ہوں گے کتنی جوانیوں ظالموں کی کج ادائیوں کی بھینٹ چڑھ
گئی حکومت ہسپتالوں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اور ان میں 99% غریب ہی
جاتے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنا ان ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے جو حکومت سے
سالانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں جنہیں اگر ان کی ذمہ داریاں یاد کرائی
جائیں تو جان سے ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور اتنا ہیں نہیں بلکہ اپنے
سیاسی آقاؤں کی کرم فرمائیوں سے ایسا کر گزرتے ہیں اور اس طرح سے سب ضلع
ہسپتال گول کسی ذبح خانے سے کم نہیں ۔ہتک آمیز بات یہ ہے کہ ایک فرما سیسٹ
کے آگے وزیر صحت بھی گھٹنے ٹیک دیتا ہے ایسی صورتحال میں یہ ڈاکٹر اتنی
شدید غفلت کا مظاہرہ کریں بھی تو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ ایسے ملازمین کو
اپنی قابلیت کے دم پہ نہیں بلکہ اپنے سیاسی آقاؤں کے زیر سائے میں رہ کر
ہسپتالوں دس دس برسوں سے ایک ہی جگہ تعینات ہیں اور ڈیوٹی بھی اپنی من مرضی
کی کرتے ہیں ۔شہزادوں کی طرح اور نجی کلینکس پہ مسیحا بنے بیٹھے ہوتے ہیں
ایسے ملازمین اس مقدس پیشہ پر سیاہ داغ ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا
انہوں نے نہیں مرنا ؟ شعبہ طب میں انقلابی دعوے داروزراء کو شرم آنی چاہیے
کہ ایک ہی سب ضلع ہسپتال محکمہ صحت کے انقلابی دعوؤں کی پول کھول دیتا ہے
۔ریاست کے دور دراز علاقوں میں ایسے کتنے اسپتال ہونگے جہاں طبی عملہ کی
غفلت او ر لاپرواہی سے لوگوں مشکلات سے دو چار ہورہے ہونگے ۔آخر کب تک غریب
یونہی بے چارگی کی موت مرتے رہیں گے۔
یہی حال یہاں کے تعلیمی نظام کا ہے علاقہ گول کے تعلیمی ادارے اب جہالت کی
تھوک منڈی بن چکے ہیں ۔ ہائیر سکینڈری سکول گول جو یہاں کے تعلیمی نظام کی
ناک ہے جو نقل کا اڈہ بن کر اپنی پہچان کھو رہا ہے ۔گو کہ اس تعلیمی ادارے
میں چند اساتذہ ایسے بھی ہیں جو ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
لیکن اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سکول کے کلاس رومز کو دیکھتے
ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں بلکہ بھیڑ
بکریوں کے باندھنے کی جگہ ہے ۔ سکول میں مختلف قسم کے فنڈز سکول میں تعینات
پیشہ وارنہ رشوت خوروں کے جیب کا مال ہو جاتا ہے۔ جس مقدس پیشے سے علم کی
روشنی دی جاتی تھی وہاں سے رشوت، حق تلفی اور جہالت کا پیغام نکلتا ہے
۔سیاست دان یہاں بھی پیچھے نہیں رہتے ہیں امتحانات کے دوران سیاست دانوں کے
بچوں کو الگ سے کمرے نقل کروانے کیلئے بٹھایا جاتا تھااور ہر اپنے بچے کے
ساتھ ایک ملازم نقل دینے کیلئے ہوتا ہے جب کہ غریب بچے یہاں بھی مات کھا
جاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سب کے ذمہ دار صرف سیاست دان اور
اساتذہ ہیں…… نہیں؟ہر گز نہیں!! اس کیساتھ ساتھ عوام کو بھی قصور وار
ٹھہرایا ج سکتا ہے جو اپنے حقوق کیلئے آگے نہیں آتے اپنے حق کی آواز بلند
نہیں کرتے ہم بے ضابطگیوں کیخلاف انصاف کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹاتے ۔ذی
شعور ، انصاف پسند اور خودار لوگوں کو ان نا م نہاد سیاست دانوں کیخلاف ایک
بیڑا اٹھانا چاہیے جو علاقہ میں اپنی ناپاک سیاست کا ننگا ناچ کھیل کر
علاقہ کوتباہی کی طرف دھکیلنے کا کردار نبھا رہے ہیں۔
خدا گواہ مجھے اپنے سیاست دانوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور نہ سیاست سے
کسی قسم کا بیر،البتہ مجھے موجودہ اندازِ سیاست سے انتہا درجے کی نفرت
ہے۔میری نظر میں ایسی سیاست بے سود ہے جو معاشرے کو چین اور سکون سے محروم
رکھے جو انسانوں کو امن اور اعتماد نہ دے سکے۔جو سچ کا گلہ گھونٹے اور جھوٹ
کا بازا سجائے ۔اس سیاست کا کیا فائدہ جس میں چاروں طرف علاقہ دھول م چاٹتا
ہوا نظرآئے، سیاست دان گویا رہبر نہیں خوف کے جن منہ کھو لے بیٹھے ہو ں۔اس
سیاست اور سیاست دان نما انسانوں سے کیا امیدیں جو اپنے مفاد کیلئے قوم کو
ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیں۔عجیب تماشا ہے، قوم اپنے قائدین کے پیچھے اور
قائدین کرسی کے پیچھے دوڑ لگا رہے ہیں جہاں انتخابات کے ذریعے کرسی ہاتھ سے
جاتی دکھائی دیتی ہے وہاں فوراً ضمیر کا سودا شروع ہو جاتا ہے۔ان سیاست دان
نما انسانوں کو معلوم ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک اور راستہ بھی ہے جس
کیلئے میدان میں آنا کچھ دنوں تک عوام کو بے وقوف بنانا اور لینے دینے کی
بنیاد پر کسی کے حق میں دستبردار ہو نا ضروری ہے۔بہرحال ان ضمیر کے سودا
گروں کا کام تو کسی نہ کسی صورت میں ہوہی جاتا ہے مگر میری حلقہ انتخاب گول
ارناس کے معصوم عوام کیا ہو گا؟؟جو دن بدن اپنا وقار اور اپنی پہچان کھوتی
جا رہی ہے ۔میری حلقہ انتخاب گول ارناس کی عوام سے گزارش ہے کہ تم ایک ملت
اور ایک قوم بن جاؤ ،ووٹ بھلے سے کسی کو بھی دو مگر اپنے ضمیر کو ٹٹولنے کے
بعد۔یہ بھی دیکھو کہ کو ئی تمھیں فرقوں اور نسلوں میں تو نہیں بانٹ
رہا۔ہمیں تعصبات سے پاک سیاست اور سیاستدانوں کی تلاش کر نی ہو گی کیو نکہ
یہی ہماری ترقی اور بھلائی کی ضامن ہے۔
زندگی کی طرح بکھر جائیں
کیوں ہم ایسے جئیں کہ مر جائیں |