اسرائیل کے علاوہ شاید ہی
دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں پاکستانی سفارت خانہ موجود نہ ہو ۔قومی
خزانے کا 15 فیصد بجٹ بھی ان سفارت خانوں میں کام کرنے والے ہزایکسی لینسی
سفیروں اور عملے کی تنخواہوں اور مراعات پر ہر سال خرچ کیاجاتاہے ۔ اس کا
مقصد ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے بہترین تعلقات استوارکرناٗ قومی پالیسیوں
کے بارے میں مقامی حکومتوں کو باخبر رکھنا ٗ ملک میں سرمایہ کاری اور تجارت
کو فروغ ٗان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی مفادات کا تحفظ کرنا
ہے۔ اگر کسی سے دانستہ یا غیر دانستہ غلطی ہوجائے اور وہ مقامی قانون کی
گرفت میں آجائے تو اس کی نہ صرف مدد کی جائے بلکہ اس کی رہائی کے لیے اعلی
سطح پر کاوشیں کرکے ہر ممکن طریقے سے اپنے ہم وطنوں کا تحفظ کرنا ۔ ایک
لمحے کے لیے ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا ہمارے سفارت خانے اپنا سفارتی
فرائض احسن طریق سے انجام دیتے ہیں یا صرف ان کے اخراجات اور پروٹوکول قومی
خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں ۔سب سے پہلے میں کشمیر کی بات کرتا ہوں جو
پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ چلاآرہا ہے ۔ یہ مسئلہ بھارت اور
پاکستان کے مابین گزشتہ 67 سالوں سے متنازعہ چلاآرہا ہے ۔اس مسئلے پر دونوں
ملکوں میں تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں ۔ دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی اور اربوں
روپے کااسلحہ استعمال ہوچکا ہے ۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں
ملکوں کی سلامتی اور دوستی ہر لمحے خطرے میں رہتی ہے۔ کشمیر میں 9 لاکھ سے
زیادہ عورتیں بچے اور مرد بھارتی فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں
جبکہ بھارتی جیلوں میں قید کشمیریوں کی تعداد کا کوئی اندازا نہیں ہے ۔ یہ
مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں گزشتہ67سال سے موجود ہے یہ مسئلہ اقوام
متحدہ میں لے جانے کا سہرا بھی بھارتی حکومت کے سر ہے ۔ لیکن ابھی تک ناکام
خارجہ پالیسی اور پاکستانی سفارت خانوں کی خاموشی اور تغافلانہ رویے کی
بدولت یہ مسئلہ ہنوز التوا میں پڑا ہوا ہے ۔ اگر سفارت خانوں میں ہزایکسی
لینسی کہلوانے والے سفرا ء حضرات حقیقی معنوں میں اپنے فرائض انجام دیتے تو
آج کشمیر آزاد ہوچکا ہوتا اور بھارتی فوج وہاں جنگل کا قانون نافذ کرنے میں
کامیاب نہ ہوتی ۔کشمیر کے علاوہ ایک اور مسئلہ پاکستانی قوم کی زندگی اور
موت کا بن چکا ہے وہ ہی پانی کا ۔ بھارتی حکومت نے درجنوں ڈیم بنا کر
پاکستانی دریاؤں کا پانی روک لیا ہے اس سے سونا اگلتی ہوئی زمینیں بنجر
ہورہی ہیں تو دوسری جانب موسم برسات میں جب حد سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو
ڈیم کے دروازے کھول کر پاکستان میں قیامت خیزسیلاب برپاکردیا جاتاہے ۔ہمارے
سفرااپنی اور پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں ٗجائز او رناجائز مفادات کی
حفاظت تو اپنے فرائض سے بڑھ کر انجام دیتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے دور میں
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی بہن اور بہنوئی کو لندن ٗ پیرس کے
پاکستانی سفارت خانوں نے نہ صرف سرکاری پیسوں سے مدت دراز تک رہائش فراہم
کیے رکھی بلکہ سرکاری خزانے سے بھاری رقوم کی شاپنگ بھی کرواتے رہے ۔یہ تو
ایک مثال ہے جس کا ذکر اخبارات میں آیا تھا وگرنہ پاکستانی حکمرانوں کی ہر
ناجائز بات کو ماننا اور پورا کرنا ہمارے سفارت خانے اپنا فرض اولین تصور
کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ پاکستان خود گزشتہ پندرہ سالوں سے بھارت اور
افغانستان کی جانب سے دہشت گردی کا شکار ہے لیکن ہمارے سفارت خانوں کی
خاموشی اور ناکامی کی بدولت عالمی سطح پر دہشت گردی کا کلنک پاکستانی قوم
کے ماتھے پر چمک رہا ہے اور پوری دنیا میں پاکستانیوں کو دہشت گردی
سمجھاجانے لگا ہے گویا وہ کام جو بھارتی اور افغانی دہشت گردکرتے ہیں اس کا
الزام ہر محب وطن پاکستانی کے ماتھے پر چسپا ں کردیاگیا ہے ۔ جبکہ بیرونی
سرمایہ کاری حاصل کرنے کے حوالے سے بھی پاکستانی سفارت خانے مٹی کے بت ثابت
ہوئے ہیں۔اب رہ گئی بات ان پاکستانی شہریوں کی ۔ جو بیرون ملک محنت مزدوری
یا روشن مستقبل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے ہیں وہ مقامی انتظامیہ کی گرفت
میں آکر سالہاسال تک جیلوں میں بند ہوجاتے ہیں ۔ عرب ممالک میں غیر ملکی
مالکان جو ملازمت کے عوض ان کے پاسپورٹ قبضے میں لے لیتے ہیں اس طرح وہ ان
کے عتاب کا شکار ہوکر اپنوں سے دور اذیتیں برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں
۔پھر ہمارے ملک میں انسانی سمگلروں کاایک بڑا گروہ کھلم کھلا کام کررہا ہے۔
وہ یہاں سے کم تعلیم یافتہ ٗدیہاتی اور شہری لوگوں کو اپنی چکنی چوپڑی
باتوں میں لاکر ان سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں پھر انہیں ناجائز راستے
اختیار کرکے ایران کے راستے ترکی اورپھر یورپ لیجانا چاہتے ہیں ۔ تو ایجنٹ
آنکھ بچا کر رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ایسے ہزاروں پاکستانی نوجوان روشن مستقبل کا
خواب آنکھوں میں سجائے ایران ٗ ترکی ٗ دوبئی سمیت مسلم اور غیر مسلم ممالک
کی جیلوں میں قید ہوجاتے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق دوسروں ملکوں کی قیدمیں
پاکستانیوں کی تعداد پچیس ہزار سے زائد بنتی ہے ۔
ترکی اور ہانگ کانگ کی جیلوں سے کتنے ہی پاکستانیوں کے خطوط اخبارات و
رسائل میں شائع ہوچکے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔وزیر اعظم
نوازشریف اور وزارت خارجہ کے حکام سے یہ گزارش ہے کہ از راہ کرم بیرون ملک
جیلوں میں بند پاکستانیوں کی خبرگیری کریں اور جہاں جہاں ممکن ہے قانونی
مدد فراہم کرکے انہیں قید سے رہا کروائیں ۔ دنیا کے دوسرے ممالک اپنے
شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھاتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کے
ہونٹ سیلے ہوئے ہیں۔ ایک امریکی یا بھارتی شہری کو پکڑ کی دکھائیں تو
امریکی اور بھارتی سفارت خانے فوری طور پر حرکت میں آجاتے ہیں اور اس وقت
تک سکون نہیں ملتا جب تک وہ اپنے شہری کو رہا نہیں کروالیتے ۔ ریمنڈڈیوس کی
مثال سب کے سامنے ہے ۔کیا ہم بھی امریکی اور بھارتی شہریوں کی طرح اپنے
شہریوں کا تحفظ کرسکیں گے ؟کیا ہم بھی کشمیر کی آزادی کے لیے عالمی سطح پر
رائے عامہ ہموار کرسکیں گے ؟ کیا ہم بھی آبی جارحیت کو دنیا کے سامنے
لاکرپاکستانی زراعت کو بنجر پن اور سیلابی آفات سے بچا سکیں گے ؟پاکستانی
قوم کے پیسے سے پاکستانی سفارت خانے کے لوگ خود بھی جی بھر کے عیاشیاں کرتے
ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کو بھی کرواتے ہیں لیکن وہ غریب اور بے سہارا
پاکستانی جو حقیقت میں ان کی مدد کے طلب گار ہیں جیلوں میں بند ان کی نظریں
اپنے سفارتی عملے کی راہ دیکھ دیکھ کر تھک جاتی ہیں لیکن پاکستانی سفارتی
عملہ ان کی مدد تو کجا حالت زار دیکھنے بھی جیلوں میں نہیں جاتا ۔ کیا
مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنا ٗ سرمایہ کاری کو فروغ
دینا ٗ دہشت گردی کے خلاف قومی موقف کو اجاگر کرنا ٗدوسروں ملکوں میں قید
پاکستانیوں کی خیریت دریافت کرنا ان کی ہر ممکن مالی اور قانونی مدد کرنا
ہمارے سفارتی عملے کے فرائض میں شامل نہیں ہے ۔ یہ سوال میں وزیراعظم
پاکستان سے پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں ۔ |