ن کی فتح اور جنون کا غلبہ

لاہور کا معرکہ ویسے تو دیکھا جائے ن لیگ نے سر کرلیا اور ایاز صادق صاحب جیت گئے وہ پھر اسپیکر بن جائیں گے ،لیکن اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ تحریک انصاف کی فتح ہے ،وہ اس لیے کہ پنجاب اگر ن لیگ کا گڑھ ہے تو لاہور ان کا گھر ہے یہاں پر نواز لیگ اپنے مخالفین کو کم از کم پچیس ،تیس ہزار ووٹوں سے ہراتی چلی آئی ہے ۔ضمنی انتخاب کے بارے ویسے بھی ایک نپی تلی رائے یہ ہے کہ جیت برسراقتدار پارٹی ہی کے حصے میں آتی ہے ۔کسی اور کا جیتنا بہت مشکل ہے ۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب وزیر اعظم بھٹو صاحب کی حکومت تھی تو اس وقت اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد متحدہ جمہوری محاز کے نام سے سرگرم عمل تھا ۔نواب زادہ نصراﷲ خان ،پروفیسر عبدالغفور ،مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی اس اتحاد میں فعال تھے لیکن اس اتحاد میں دراڑ اس وجہ سے پڑی کہ شاہ احمد نورانی صاحب نے پتا نہیں کیوں بیٹھے بٹھائے اپنی کراچی کی قومی اسمبلی کی ممبر شپ سے مستعفی ہونے اور حیدرآباد سے سینیٹر بننے کا فیصلہ کیا ۔اس وقت اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے انھیں منع کیا کہ اس طرح ہم قومی اسمبلی کی ایک نشست پلیٹ میں رکھ کر پی پی پی کو دے دیں گے ۔آپ سینٹ کے انتخاب میں اپنی پارٹی کے کسی اور فرد کو لے آئیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ممبران کی تعداد ویسے ہی کم ہے اور کم ہو جائے گی ،بھٹو صاحب کبھی اس سیٹ سے پی پی پی کے علاوہ کسی اور جیتنے نہیں دیں گے ۔نورانی صاحب نے متحدہ جمہوری محاز کے رہنماؤں کی بات نہیں مانی اور اسی وجہ سے یہ اتحاد بھی ٹوٹ گیا کہ متحد ہ محاز نے اس ضمنی انتخاب سے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا ۔پی پی پی نے جسٹس نورالعارفین کو کھڑا کیا یہ وہی جج صاحب تھے جنھوں نے روزنامہ جسارت کے خلاف ناروا پابندی کے حوالے سے کئی بار جسارت کے حق میں فیصلہ دیا تھا ،پھر ان کو جبراَ مستعفی ہونا پڑاتھا نورانی صاحب نے حاجی حنیف طیب کو ٹکٹ دیااور عبدالستار ایدھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تھے۔نتیجہ وہی آیا جس کا اندیشہ ظاہر کیا جارہاتھا پی پی پی کے جسٹس نورالعارفین کامیاب ہو گئے ۔

2004 میں ایم کیو ایم نے اپنے تین ممبران قومی اسمبلی سے استعفے دلوائے اس کے بعد جب ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو کراچی کی جماعت اسلامی نے اور آئی جے آئی کی دیگر جماعتوں نے بھی ضمنی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اپنافیصلہ اوپر بھیجا کہ ہم یہ انتخاب جیت نہیں سکتے بلا وجہ کی ایکسر سائیز (مشق)کرنے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن آئی جے آئی کی مرکزی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اس میں حصہ لینا ہے چنانچہ کراچی کی جماعتوں کو مجبوراَ اس میں حصہ لینا پڑا 12مئی2004 کو یہ ضمنی انتخاب ہوئے جو ہم جیت تو نہ سکے لیکن جماعت اسلامی کے بارہ کارکنان اس دن شہید کردیے گئے ۔کچھ عرصے بعد الیکشن کمیشن نے یہ تینوں انتخاب کالعدم قرار دے دیے تھے لیکن ایم کیو ایم نے شور شراپا مچایا پھر پرویز مشرف صاحب جو ایم کیو ایم کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھنا چاہتے تھے انھوں نے اپنے اثر و رسوخ سے یہ فیصلہ معطل کروادیا ۔

یہ ضمنی انتخاب کی مختصر سی تاریخ ہے لاہور کے حلقہ 122کے ضمنی انتخاب کی حیثیت کچھ مختلف تھی اس سیٹ کا انتخاب تحریک انصاف کی پٹیشن پر الیکشن کمیشن نے اس کے نتائج کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخاب کا فیصلہ سنایا یہاں پر تحریک انصاف کی اخلاقی پوزیشن زیادہ مستحکم تھی اس لیے اس نے اس سیٹ کے ضمنی انتخاب میں پوری قوت سے حصہ لیا ،ویسے تو عام خیال یہی تھا کہ اس نشست سے ایاز صادق ہی جیتیں گے لیکن جس انداز سے تحریک انصاف نے انتخابی مہم کی فضا بنائی اور میڈیا میں جو اس کی کوریج ہوئی اس نے ایک ایسا تاثر بنایا کہ جیسے تحریک انصاف پالا مار لے گی لیکن جو نتیجہ آیا اسی کی توقع کی جارہی تھی ۔اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ صرف چار ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتنا نون لیگ کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یہاں پر عمران خان کی بیس مضبوط ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اگر عمران خان خود کھڑے ہو ں گے تو وہ اب یہ نشست محنت کر کے نکال سکتے ہیں ۔البتہ اس ضمنی انتخاب میں کچھ امور توجہ طلب ہی نہیں بلکہ تشویش طلب ہیں وہ یہ کہ ایک اخبار ی خبر کے مطابق لاہور کے اس ضمنی انتخاب میں دونوں پارٹیوں کی طرف سے جو اخراجات ہوئے ہیں وہ تقریباَ دو ارب روپئے کہ ہیں ۔ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے ایک پروگرام میں بتایا کہ تقریباَ 75کروڑ روپئے ہر دونوں امیدواروں نے اپنی مہم پر خرچ کیے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور دونوں امیدواروں کو نااہل قرار دیا جائے کہ انھوں نے اس انتخاب کو سرمایہ داروں کا کھیل بنا کر رکھ دیا ۔دوسری توجہ طلب بات یہ کہ اس میں دونوں طرف سے جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی بھی طرح معیاری زبان نہیں کہی جاسکتی اس سے باہر کے ملکوں میں اچھا تاثر نہیں جاتا ۔

اس ضمنی انتخاب کا روشن پہلو یہ ہے کہ اب پنجاب کی فضاء بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے عمران خان نے ن لیگ کے رہنماؤں کی نیندیں ہرام کر دیں اس انتخابی مہم میں تمام وزراء گھر گھر گئے ہیں تحریک انصاف نے بھی جان توڑ کوشش کی ہے جب کی اسی قومی اسمبلی سے وابستہ ایک صوبائی نشست تحریک انصاف کے شعیب صدیقی جیت گئے قومی کی نشست بھی جیتی جاسکتی تھی اگر اس سیٹ پر بھی شعیب صدیقی جیسا فرد کھڑا کیا جاتا اس لیے کہ تحریک انصاف نے جن عبدالعلیم صاحب کو ٹکٹ دیا ان کی شہرت و کردار پر شکوک وشبہات چادر تنی ہوئی تھی اگر کوئی ایسا امیدوار ہوتا جس کے اوپر لینڈ مافیا کی چھاپ نہ لگی ہوتی تو شاید یہ چار ہزار کا رفرق ختم ہو جاتا اور تحریک انصاف یہاں سے بھی کامیابی حاصل کر لیتی ۔آئند ہ آنے والے عام انتخابات جو ویسے تو 2018میں شیڈول کے مطابق ہونے ہیں ،لیکن اس سے پہلے بھی کسی وقت ہو سکتے ہیں اس میں عمران خان کی تحریک انصاف پورے ملک سے شاندار کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔لاہور کے ضمنی انتخابات نے اس کی بنیادیں مستحکم کر دی ہیں ۔ن کی فتح ہوئی ہے تو جنون نے اب پنجاب پر اپنا غلبہ جمالیا ہے ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.