بہار اسمبلی الیکشن اور ملک کا بکھرتا تانا بانا !

فی الوقت وطن عزیز جن حالات سے دوچار ہے اس سے نہ صرف ملک کی اقلیتیں بلکہ حساس دل رکھنے والا ملک کا ہر شہری ایک عجیب طرح کے دکھ درد و اضطراب میں مبتلاہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو ایک خاص فکر و نظریہ سے تعلق نہیں رکھتے ساتھ ہی تشدد و نفرت کے فروغ سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں،موجودہ حالات کے پس منظر میں اپنی تکالیف کا اظہار مختلف انداز سے کرنے پر مجبور ہیں۔واقعہ جس کا ہم یہاں تذکرہ رہے ہیں وہ اٹھاسّی سالہ مصنفہ نین تارا سہگل کا ہے جنہیں سنہ 1986 میں باوقار ادبی ایوارڈ ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے نوازا گیا تھا۔موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ایوارڈ آج انہوں نے واپس کر دیا ہے۔دوسری جانب ہندی کے معروف شاعر اشوک واجپئی نے بھی اپنا ایوارڈ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا ہے کہ حکومت عوام اور قلم کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔دونوں ہی حضرات کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت ہندو شدت پسندوں کے ذریعہ اقلیتوں اور مصنفوں کو نشانہ بنانے سے روکنے میں ناکام ہے۔نین تارا سہگل لکھتی ہیں وزیر اعظم نے دہشت کے اس راج پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ان شر پسندوں کو الگ کرنے کی ہمت نہیں ہے جو ان کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی تنوع اور بحث و مباحثے کی تہذیب و ثقافت اب مذموم حملے کی زد میں ہے۔ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بھانجی نین تارا کہتی ہیں ،جو بھی توہمات پر سوال کرتا ہے، جو بھی ہندو مذہب کی بدصورت اور خطرناک تبدیلیوں کی کسی بھی جہت پر سوال کرتا ہے انھیں الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے، ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر قتل کر دیا جاتا ہے۔حالات کس رخ پر ہیں؟اور سوچنے سمجھے والے افراد کیا کچھ محسوس کر رہے ہیں ؟نین تارا سہگل اور اشوک واجپئی کے واپس کیے گئے ایوارڈ کے پس منظر میں خوب اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔لہذا یہاں کسی بھی طرح کی تفصیلات میں جائے بغیر ان لوگوں کو بھی اس جانب لازماً متوجہ ہونا چاہیے جن کے ذریعہ ایک مصنوعی خوف کا ماحول بنانے کی کوششیں جا رہی ہیں۔ایسے افراد و گروہ اگر ملک یا اہل ملک سے ذرا بھی دلچسپی رکھتے ہیں تو چاہیے کہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی ملک کی خراب ہوتی شبیہ کو بچانے کی فکر کریں۔اس میں پہلا اقدام نفرت اور خوف کی فضا کے خاتمہ میں مثبت کردار ادا کرناہے ۔رہی بات اُن کی مخصوص فکر اور نظریہ کی تو وہ بھر پور اُس کی کوشش کریں لیکن ملک کے قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے،امن وا مان کو برقرار رکھتے ہوئے ،ساتھ ہی ان جمہوری طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے جن کے ذریعہ سماج تقسیم نہیں ہوتا اور نہ ہی ملک کی فضا مکدر ہوتی ہے۔

معاشرتی انتشار،مخصوص تہذیبی یلغاراورتمدنی خلفشارجیسے حالات میں وطن عزیز کی ریاست بہار میں ہونے والے اسمبلی الیکشن پر نہ صرف سیاسی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں بلکہ ملک کے شہری بھی تبدریج پیدا ہوتے حالات سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔اس موقع پر جہاں کانگریس پارٹی ایک بار پھر اپنے وجود کو بچانے میں جٹی ہوئی ہے وہیں مہا گٹھ بندھن سے وابستہ پارٹیاں ،خصوصیت کے ساتھ سماج وادی پارٹی اپنا راگ الاپتے ہوئے پارٹی کو خصوصاً یادؤں اور مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی میں مثبت کردار ادا کرنے والی پارٹی بتا رہی ہے۔دوسری طرف لایو یادو کی راشٹریہ جنتا دل اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈاپنے ہی پرانے ساتھی جیتن رام مانجھی کو مات دینا چاہتے ہیں تو کہیں رام ولاس پاسوان کو ،اور یہ دونوں ہی خود کو دلتوں و مہا دلتوں کا لیڈر بتا کر ،ووٹ تقسیم پالیٹکس پر عمل کرتے ہوئے ،بی جے پی کو ہر ممکن فائدہ پہنچانے میں مصروف عمل ہیں۔لیکن آرجے ڈی اورجے ڈی یوکی اصل سردردی بی جے پی کی جانب سے چہرے کے طور پر پیش کیا جانے والا ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کا چہرا ہے اور ان کی مخصوص انداز میں کی جانے والی تقاریر۔ان تقاریر میں نہ صرف ریاست کو ترقی و خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچانے کے وعدے ہیں بلکہ ریاست کی تصویر ہی تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ایک بار پھر بہار کے اچھے دن لانے کا ارادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے واقعات پر وزیر اعظم آج کل من کی بات نہیں کر رہے ہیں۔اس کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ مودی کے وعدوں سے عوام بے خبر ہیں،یہ وعدے بڑے زور و شور سے بڑے دعوں کے ساتھ پارلیمنٹری الیکشن کے دوران بھی کیے گئے تھے،جن میں سب سے بڑا وعدہ کالے دھن کو واپس لانے کاتھا،مہنگائی کے خاتمہ کا تھا، غربت کے ازالہ اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچانے کا تھا۔لیکن جیسے ہی بی جے پی یا این ڈی اے کی حکومت تشکیل پائی ،وہ تمام وعدے بھلا دیے گئے جو کبھی کیے گئے تھے۔اور کہا یہ گیا کہ یہ تو "جملہ"تھا۔کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے جملے عوام کو یاد نہیں؟خوب اچھی طرح یاد ہیں۔اور اسی حافظہ کے نتیجہ میں جب عوام ان وعدوں کو یاد دلاتی ہے تو عموماً تو جواب ہی نہیں دیا جاتا اور اگر کبھی کچھ جواب دیا بھی جاتا ہے تو بس یہ کہ ذرا اور انتظار کریں،وقت آنے پر تمام وعدے پورے کیے جائیں گے!

وہیں ایک ملک و معاشرہ کی ایک تصویر یہ بھی کہ بیرون ملک رہنے والے افراد ہوں یا وطن عزیز میں رہنے والے،ان دو سطحوں پر ایک بڑی تعداد ایسی پائی جاتی ہے جو ملک کے معاشرتی تانے بانے سے یا تو پوری طرح واقف نہیں یا پھر واقفیت رکھنے کے باوجود اظہار سے گریز کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں،مخصوص افراداور ناواقف حضرات کبھی شعوری تو کبھی لاشعوری طور پر یہ باور کرانے میں جٹے ہوئے ہیں کہ ملک میں آنے والی ہر تبدیلی کا منفی اثر صرف مسلمانوں پر پڑتا ہے یا پڑے گا۔منفی فضا جو تیار کی جا رہی ہے ،کے نتیجہ میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جو درحقیقت حالات سے واقف نہیں ،ڈر اور خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ایسی صورت میں یا تو یہ افراد و گروہ احساس کمتری میں مبتلا ہو تے ہیں یا پھر اپنی شناخت کو اہل اقتدار کی منشا کے مطابق ڈھالنے میں مجبور ہوتے ہیں۔پھر یہ کوششیں کبھی انفرادی تو کبھی اجتماعی سامنے بھی آرہی ہیں۔اس ک باوجود حقیقت یہ ہے کہ جہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے وہیں سماج کے کمزور ترین طبقہ پر بھی کچھ کم ستم نہیں ڈھایا جا رہا ہے ۔سچر کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں تو دلت ،مسلمانوں سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ دلتوں پر آج تک حد درجہ ظلم وستم اور زیادتیاں جاری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہوجن سماج وادی پارٹی کی سپریمو مایاوتی کہتی ہیں کہ جس طریقے سے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے اس سے دلتوں،قبائیلوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں کے مفاد محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہندو مذہب میں چار حروف ہوتے ہیں جس میں شودر صرف غلامی کرتا تھا،دلت اور پچھڑے شودر کہلاتے تھے۔ملک اگر ہندو راشٹر بنا تو یہ دلت پھر سے غلام بنا دیے جائیں گے۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندو راشٹر بننے سے قبل ہی دلتوں پرظلم و زیادتیاں جاری نہیں ہیں؟کیا ابھی چند پہلے انسانیت کو بے انتہا شرم سار کرنے والا دنکور،نوئیڈا کا واقعہ نہیں بتاتا کہ غلاموں جیسے معاملات آج بھی جاری ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ہندوسماج اندرونی طور پر خود بری طرح خلفشار کا شکار ہے۔اس کے باوجود ہندتو کے علمبردار سمجھتے ہیں کہ لفظ "ہندو"کا اطلاق تمام ہندوستانیوں پر کرنے سے اپنا الو سیدھا کر لیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اتنا بھی آسان نہیں ہے ،جتنا کہ وہ سمجھ رہے ہیں یاجتنا کہ گزشتہ چند ماہ سے مخصوص فکر کے حاملین کے منفی پروپیگنڈے میں حوصلے بلند ہوتے نظر آرہے ہیں۔

صورتحال کے پیش نظرجہاں مسلمانوں کو ہر قسم کے خوف و ہراس سے پوری طرح باہر نکل آنا چاہیے وہیں اُنہیں یہ بھی چاہیے کہ وہ اندرونی انتشار و اختلاف سے حتی المکان گریز کریں۔انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ اختلاف ہو، اس کے باوجود اختلاف میں اتحاد کی راہیں تلاش کی جائیں،ایک دوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف و توصیف ہو،افراد ،جماعتوں اور انجمنوں کے مثبت اقدامات کی حوصلہ افزائی ہو۔ساتھ ہی کامن ایجنڈے کے تحت برادران وطن کے ساتھ مل کر امن و امان کا ماحول پروان چڑھائیں،کدورت کی فضا کے خاتمہ کے لیے منظم اور منصوبہ بند سعی و جہد کی جائے،اپنے آس پڑوس اور شناسائیوں کے ساتھ خاندانی روابط قائم کیے جائیں،خوشی و غم کے مواقع مل بانٹ کر گزارے جائیں،اور سب سے بڑا کام جو مسلمانوں کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے وہ یہ کہ ہر شخص کو دنیا و آخرت کی ابدی کامیابی سے واقفیت بہم پہنچائی جائے۔وحدانیت کا حقیقی درس عملی زندگیوں سے دیا جائے،ساتھ ہی رسول و آخرت کے تصور کو پوری طرح واضح کیا جائے،یہاں تک کہ متعلقہ فردکی ہر غلط فہمی واشکال دور ہو ساتھ ہی اسلامی عقائد اُس پر پوری طرح واضح ہو جائیں۔مزید یہ کہ سماجی ،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی و تہذیبی منفی یلغار،جو جاری ہے،سے نجات کے لیے ہر مقام پر کامن پلیٹ فارم تشکیل دیے جائیں۔نیزووٹ کی اہمیت کو بہ خوبی سمجھتے ہوئے ریاست بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مثبت تبدیلیوں کے پیش نظر،ہر سطح پر منظم سعی و جہد کی جائے۔اور آخر میں بات بھی یاد رکھی جائے کہ مومن فرد واحد ہو یا کوئی گروہ یا بحیثیت قوم،اگر درحقیقت وہ مومن ہے تو ہر موقع پر اﷲ اس کے ساتھ ہے۔اور جس کے ساتھ اﷲ ہو،اُسے کس بات کا غم!
Muhammad Asif Iqbal
About the Author: Muhammad Asif Iqbal Read More Articles by Muhammad Asif Iqbal: 218 Articles with 161824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.