عمران خان کا پراسرار کردار۔۔۔۔۔۔12اکتوبر
(Dr M Abdullah Tabasum, )
تحریک انصاف کے نام پر بیرون ملک
سے مشتبہ ذرائع سے ارسال کردہ لاکھوں ڈالرزکی ترسیل اور ان کے استعمال میں
عمران خان کا کردار ’’پراسرار‘‘اور بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آیا
گیا ہے،تحریک انصاف کے بانی رکن اکبرایس بابر نے الیکشن کمیشن کا دروازہ
کھٹکھٹا کر اسے اس بارے میں ناقابل تردید شواہد فراہم کر دئیے اور ساتھ ہی
یہ سوال بھی دائر کر دیا کہ تحریک کو بطور سیاسی جماعت کیونکر انتخابی نشان
تفویض کر دیا گیا ہے جو آئین کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے اور اسے ان ثبوتوں
کی روشنی میں تحلیل ہونا چائیے تاکہ اسے قانونی سیاسی جماعت تسلیم کرتے
انتخابی نشان مرحمت کر دیا جائے ،اکبر بابر طویل عر صے سے عمران خان کے
حوالے سے اپنے سنگین الزامات کی زنبیل لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ،اب ان
کی شنوائی ہوئی ہے اور الیکشن کمیشن نے ان معروضات کو قابل سماعت قرار دے
دیا ہے اور آئندہ سماعت کے لئے دس نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے اکبر بابر کا
کہنا ہے کہ تحریک انصاف مشکوک بیرونی ذرائع سے بھاری رقوم باقاعدگی سے مل
رہی ہیں جن کا بڑا حصہ خود عمران خان ’’خوردبرد‘‘ کر لیتے ہیں ، اس شکایت
کو الیکشن کمیشن بروقت لائق توجہ قرار دے دیت تو تحریک انصاف اور عمران خان
کے ذریعے قومی ترقی کو پہنچنے والے نقصانات سے ملک محفوظ رہ سکتا تھا اکبر
بابر بڑی ثابت قدمی سے اپنے ارادے پر ڈٹے رہے اور آخر کار اس میں کافی
تاخیر کے بعد اسے اپنے مقصد میں کامیابی ملتی دکھائی دے رہی ہے،اس حوالے سے
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے ضبط کا بندھن بھی ٹوٹ گیا ہے وہ
ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں اور مٹھاس ان کی گفتگو کا وصف امتیازی
ہوتا ہے گزشتہ روز انہوں نے دانیال عزیز کے ساتھ نیوز کانفرنس میں کہا کہ
عمران خان امریکامیں موجود یہودی اور ہندو لابی سے بھاری رقوم بٹور رہے ہیں
اور ان رقوم کو پاکستان میں جمہوریت کا تختہ الٹ دینے کے مذموم مقاصد کی
خاطر استعمال کیا گیاہے،یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی عوام کے عزم و ارادے
کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں تاہم اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچا ہے ،پرویز رشید کا اصرار تھا کہ جو دستاویزات ہیں ان کی رو سے’’عمران
خان چور ہے غدار ہے اور پاکستان کا دشمن ہے‘‘انہوں نے اس موقع پر 2002ء کا
جاری شدہ حکمنامہ بھی دکھایا جس کی رو سے تحریک انصاف بھاری غیر ملکی
سرمایہ حاصل کرنے کی پاداش میں بطور سیاسی جماعت اپنا وجود برقرار رکھنے کے
استحقاق سے محروم ہو چکی ہے ،پریس کانفرنس کے دوران پرویز رشید غیر معمولی
جذباتی نظر آئے ان کا کہنا تھا کہ ہندو لابی اور یہودی لابی سے حاصل شدہ
رقوم پاکستان میں مسلمہ جمہوری حکومت کے خاتمے اور نظام پر حملہ آور ہونے
کے لئے استعمال کرنا لمہ فکریہ ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کامیاب
ہو جاتے تو ہر جگہ پر طالبان کے دفاتر بن جاتے انکا کہنا تھا کہ ان الزامات
کی موجودگی میں کیونکر الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم
کیا اور انتخابی نشان الاٹ کیا۔۔۔۔؟اس سے قبل دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ
امریکا میں موجود اسرائیلی نواز یہودی لابی اور بھارتی لابی نے حالیہ برسوں
میں دھڑا دھڑ امریکی ڈالر ز ارسال کئے ان رقوم کی ترسیل ان دنوں میں بڑھ
گئی جب اسلام آباد میں خان کا دھرنا جاری تھا۔۔۔۔ان حالات میں الیکشن کمیشن
کو غیر جانبدارنہ اور شفاف تحققیات کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی
کرنا ہو گا تاکہ ان سنگین الزامات کی تہہ تک پہنچا جائے اسی میں سب کی
بھلائی ہے۔۔۔۔۔۔۔11اکتوبر کی رات نون لیگ کامیابی کی دھمال ڈال رہی ہو گی
یا پی ٹی آئی تو اگلا روز 12اکتوبرپاکستان کی تاریخ کا سیاہ اور بد ترین دن
ہو گا جب پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاء لگایا
تھا اسکے بعد پھر ایک لمبی اندھیری رات شروع ہوئی تو 9سال بعد اجالا ہوا
ستم ظریفی دیکھیں کہ اس غیر آئنیی اقدام کے تمام کردار ابھی اس دنیا میں
موجود ہیں مگر ان کا احتساب نہیں ہوا اور اس غیر آئینی اقدام کا ذمہ دار آج
بھی مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کے لمبے لمبے گڈ گورینس کے لیکچر دے رہا
ہوتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے اور اس نے اپنی حکومت
میں کون کون سے کمالات دکھائے،حالانکہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے دور
میں ملک کو شدید نقصان ہوا۔۔۔۔اور اپنے مخالفین پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے
یہاں تک کہ نواز شریف کو ملک بدر کیا ۔۔۔۔لاہور ،اوکاڑا کے ضمنی الیکشن کے
ایک روز بعد پھر میاں نواز شریف کی تلخ یادیں پھر شروع ہو جائیں گی ،پرویز
مشرف کو کسی عدالت نے سزاء تو نہیں دی مگر ان کی اپنی حکومت کی پالیساں کی
بدولت ان کا گھر سے نکلنا مشکل ہے اور نہ ہی کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لئے
سکتے ہیں ،وہ گھر میں بیٹھے انٹرویو اور بیان جاری کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔
مگر کیا یہ کوئی کم سزاء ہے کہ کوئی اپنی سیاسی جماعت بنائے اس کی عوامی
سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے ۔۔۔۔؟ان کے دور میں جو بڑے بڑے طرم خان تھے وہ
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی نظر نہیں آئے ،انہوں نے اپنی دانشواری میں سے
قوم کو محروم کیا انہوں نے اقتدار کا خوب مزا لوٹا اور چلتے بنا ،ملک کا
کتنا نقصان ہوا اور سوسائٹی کتنی برباد ہوئی انہیں کیا پڑی ہے کہ کہ وہ اس
طرف توجہ دیتے ۔۔۔۔ہر طرف احتساب کا نعرہ لگ رہا ہے تو یہ رٹ لگانے والوں
کے لئے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ وہ ان کے احتساب کرنے کی بات کریں جنہوں نے
1999ء میں آئین کو تہہ بالا کر کے ملک کو بند گلی میں دھکیل دیا تھا اور
دنیا بھر کی نظروں میں ملک کی رسوائی کا سبب بنے تھے (جاری ہے)۔ |
|