تحریک انصاف .عمران خان اور پاکستانی قوم

تحریک انصاف کے مستقبل کے حوالے سے بہت سی پشین گوئیاں کی جا چکی ہیں .کوئی کہتا ہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاۓ گی .کوئی کہتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ کی لکیریں کہتی ہیں کہ وہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے .کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ .مگر میں ذاتی طور پر اس پر بھوت کچھ لکھ چکا ہوں اور بھوت سی تجاویز بھی عمران خان کو ذاتی طور پر اور تحریک انصاف کو دے چکا ہوں .مگر تحریک انصاف کا باوا آدم ہی نرالا ہے .اس کی ایک نہیں بھوت ساری وجوہات ہیں .بعد میں بتاؤں گا .اس وقت اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اقتدار میں آ کر بات نہیں سنتے یہ واحد جماعت ہے جو ایسے نشے میں ہے کہ وہ اقتدار کے بغیر بھی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں نہ اچھی باتوں پر عمل کرنے کو تیار ہے .بلکہ اس پارٹی میں ایسے لوگ بھی ہیں .جو لکھنے والوں کو نہ تو سراہتے ہیں نہ ان کی بات عمران خان تک پنچھاتے ہیں .بلکہ لکھنے والوں کے نکات چرا کر عمران خان کو مشورے دیتے ہیں اپنے نمبر بنانے کے لئے .وہ ہماری باتیں ہمارے مشورے اپنے ناموں سے عمران خان تک پنچاتے ہیں .ویسے تو ہر پارٹی میں ایسے درباری ہوتے ہیں .مگر تحریک انصاف میں کچھ زیادہ ہی ہے .کیونکہ پہلے نظریاتی کارکن تھے مگر آہستہ آہستہ تحریک انصاف کی غلط پالیسی کی وجہ سے مفاد پرست عناصر کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کھچڑی پک چکی ہے .ویسے ہم تو ضیاء کو بھی مشورے دیا کرتے تھے مگر وہ لونگ گواچے کے نشے میں رہتے تھے .بے نظیر کو زرداری کی کرپشن اور جاگیردار سرمایادار جیالوں کی چلاکیوں نے خول سے باہر نہیں نکلنے دیا .جب وہ ملک اور قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھیں تو ان کو منظر سے ہٹا دیا گیا .مشرف کرسی کے نشے میں اتنا محو تھا کہ اسے سواۓ اقتدار کے کچھ لالچ نہیں تھا .وہ کرپٹ کو معاف کرنے کو تیار تھا جو اس کی خلافت پر بیعت کرے .زرداری کو کچھ سننے کا وقت نہیں تھا وہ صرف اپنا دماغ چلاتا تھا کہ مال و دولت کس طرح بنایا جاۓ .نواز شریف .شہباز شریف کو مال بنانے کے علاوہ ایک اور بھوت سوار رہتا ہے کہ کوئی وزیر مشیر ان کے قد کاٹھ سے اوپر نکلنے کی کوشش نہ کرے اور دوسرے ان کی سوچ کا زاویہ اس نکتے پر روکا رہتا ہے کہ فوج کی طرف سے کسی بھی اقدام کو کس طرح روکنا ہے .تاکہ اقتدار کے سورج غروب نہ ہونے پاۓ.مگر ان کو خدا پر یقین نہیں .کہ وقت کسی کا سدا ساتھ نہیں دیتا .یہ اقتدار آتا جاتا رہتا ہے .پاکستان کی تاریخ میں اچھے الفاظوں سے صرف اس کو یاد رکھا جاۓ گا .جس کی سوچ . مشن . اہلیت . اقبال اور قائد اعظم جیسی ہو گی .حکمرانوں کو یہ بات ہم کس طرح سمجھایں.ماضی کو چھوڑو میرا حکمران تو حال سے سبق نہیں سیکھ رہا کہ جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے .جبکہ جمہوریت کے سب ٹھیکیدار میدان میں ہیں .یہ لمحۂ فکریہ ہے حکمران کے لئے اور حکمران کے درباری کے لئے .تو اب بات کرتے ہیں عمران خان کی جو اتنی غلطیاں کر رہا ہے کہ کوئی اس کو بتانے کو تیار ہی نہیں .اور خود عمران خان کے پاس ان غلطیوں کے ازالے کا یا وقت نہیں یا ہوم ورک نہیں یا ٹیم میں اختلافات اس حد تک ہیں کہ عمران خان جلدی میری طرح جذباتی ہو جاتا ہے ریہام خان سے شورع کرتے ہیں .ریہام خان کو سیاست میں عمران خان کے ساتھ ہونا چاہئے عھدے کے ساتھ .یہ وقت کی پاکستانی سیاست کی ضرورت ہے .بھوت ساری وجوہات ہیں .اگر ریہام خان کو سیاست سے باہر رکھا جاتا ہے تو یہ عمران خان کی بھوت بڑی غلطی ہو گی .پاکستانی سیاست کی ضرورت ہے کہ ریہام خان تحریک انصاف میں ایک اچھے عھدے پر ذمہداری کے ساتھ کام کرے .یہ ورکر کے لئے .پارٹی کے لئے قوم کے لئے ضروری ہے .باقی مخدوم شاہ قریشی کا مسلح یہ ہے کہ پہلے وہ جاوید ہاشمی کو مجبوری کے تحت برداشت کر رہے تھے اب چودھری سرور کو برداشت کرنا پڑ گیا ہے .حالانکہ مخدوم صاحب کو سرور سے خائف نہیں ہونا چاہئے کیونکہ چودھری سرور کوئی قد کاٹھ کا آدمی نہیں ہے .نہ اس کا اپنا حلقہ ہے .وہ پرویز رشید کی طرح کا کوئی کردار شاید ادا کرتا رہے .مگر میں تو مستقبل میں چودھری سرور کو دوسرا جاوید ہاشمی بنتے دیکھ رہا ہوں .ویسے بھی وہ پنجاب میں کوارڈینیٹر کے تجربے میں نکام بھی ہو چکا ہے .اور اختلافات کو ختم کروانے اور ورکروں کو تحفظ دینے میں بھی ناکام ہو چکا ہے .کیونکہ میرے نزدیک یہ سارے کام آسانی سے ہو سکتے تھے .اگر بہتر ہوم ورک سے یہ کام کیا جاتا تو .مگر .=پارٹی میں چوں چوں کے مربعہ کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا .مگر.دوسرے نون لیگ کی تحریک انصاف پر تنقید جایز ہے کہ عمران خان کو .ک.پی.ک.میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی .گو کہ اس وقت تک .ک.پی.ک..کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے بہتر ہے .مگر مزید بهتر بنا کر مثال قایم کی جا سکتی تھی .یا کم از کم کوئی پاور پلانٹ لگا کر بجلی کا مسلح حل کر کے خادم اعلی کے منہ پر تماچہ رسید کیا جا سکتا تھا .=مگر ایسا نہیں ہوا =پارٹی کی پالیسی تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے .پیسہ نظریاتی کارکن کے اوپر حاوی دکھائی دے رہا ہے .لاہور میں الیکشن اگر نون لیگ ہارتی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا .جبکہ تحریک انصاف کو ہارنے پر بھوت فرق پڑے گا .ہر پارٹی لیڈر کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا .کہ عوام نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں .کرپشن سے پاک حکمران کو دیکھنا چاہتے ہیں .اس لئے نون لیگ اور تحریک انصاف کو خلا نہیں رکھنا ہو گا .ورنہ تیسری قوت فایدہ اٹھاے گی .کیونکہ لوگ اس کرپٹ نظام سے تنگ ہیں .لوگ زیادہ دیر تک عمران خان اور نواز شریف کی الفاظوں کی جنگ کو برداشت نہیں کر پایں گے .اسی لئے جنرل راحیل شریف کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے .کیونکہ لوگ صاف شفاف انصاف والا نظام چاہتے ہیں .یہ جھوٹ فراڈ دھوکے والی سیاست اب زیادہ دیر نہیں چلے گی .زرداری کی غلطیوں نا اہلی اور کرپشن کی وجہ سے نون کو فایدہ ملا .اب شریف برادران کی کرپشن اور نا اہلی سے تحریک انصاف کو سہارا مل رہا ہے .تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں میں دو طرح کے لوگ ہیں .ایک نظریاتی طبقہ ہے اور اقتدار کے لئے شارٹ کٹ والے لوگ ہیں .جب ان لوگوں کو یہ پتہ چلے گا .کہ کوئی تیسری قوت ان کو اقتدار تک پنچا سکتی ہے تو وہ تحریک انصاف کو چھوڑ دیں گے .اور تحریک انصاف پھر انتشار کے شکار ہو جاۓ گی .اس لئے فرسٹریشن کے خلاؤ کو پر کرنا ہو گا ..ابھی وقت ہے عوام کو ریلیف آٹا دال چینی اور بجلی وغیرہ میں دینا اور دلوانا ہو گا .اقتدار کو نچلی سطح پر انصاف کے ساتھ منتقل کرنا ہو گا .ورنہ فرسٹریشن میں اضافہ ہوا تو یہ نظام کا بوریا بستر بمعہ کرپشن کے گول ہونا ہی بہتر ہو گا .ہم لوگوں کے پاس لیڈروں کو دینے کے لئے بھوت کچھ ہوتا ہے .مگر افسوس یہ آجکل کے لیڈر ہماری آهوزاری پر دھیان تو دیں.آجکل کے لیڈروں کے پاس چاپلوسی کے بغیر کوئی فرصت ہی نہیں ہوتی .........
Javed Iqbal Cheema
About the Author: Javed Iqbal Cheema Read More Articles by Javed Iqbal Cheema: 190 Articles with 131515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.