گزشتہ کچھ عرصہ سے جماعت اسلامی جموں کشمیرکے الیکشن میں
حصہ لینے کی خبر چارسوگردش کررہی ہے - نہ صرف ملک کشمیرمیں بلکہ کشمیر سے
باہر بھی یہ خبر لوگوں کے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے –بیرون ملک مقیم
کشمیریوں کی نجی محفلوں میں تبصرے اور تجزئے ہورہے ہیں –سوشل میڈیا پر بھی
اس موضوع بارے بحث چل رہی ہے –کہ آیا جماعت اسلامی جموں کشمیرآیندہ
انتخابات میں حصہ لے گی کہ نہیں –اس خبر نے جہاں حریت پسند تنظیموں میں ایک
ہلچل مچائی ہوئی ہے –وہاں میں سٹریم پارٹیوں کے بھی ہوش اڑ گے ہیں –جو آج
تک جعلی مینڈیٹ پر منتخب ہوتے تھے –اگرچہ امیرجماعت اسلامی جموں کشمیر کا
اس سلسلے میں ایک پالسی بیان بھی آیا –لیکن اس بیان سے تشنہ گی میں اضافہ
ہی ہوا –اور عام لوگ اس بیان کے سیاق و سباق کو سمجنے سے قاصر ہیں-ضرورت اس
بات کی تھی کہ امیر جماعت اسلامی جموں کشمیر اس موضوع پر اس وقت بات کرتے
جب یہ موضوع شوری جماعت میں زیر بحث آتا –خیر امیرجماعت اسلامی جموں کشمیر
نے مذکورہ بیان میں فرمایا کہ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی فیصلہ نہیں لیا
گیا ہے –بلکہ اس کا فیصلہ آیندہ مجلس شوری میں کیا جائے گا –اس بیان پر غور
کیا جائے –تو امیرجماعت اسلامی جموں کشمیر نے اس بات کا عندیہ ضرور دیا ہے
کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر کے لئے الیکشن شجر ممنوعہ نہیں ہے – آنے
والےالیکشن میں نہ سہی تو اگلے الیکشن کا جماعت اسلامی جموں کشمیر حصہ بن
سکتی ہے –یہاں یہ بات زہن نشین ہونی چاہئے-کہ جماعت اسلامی میں شوری ایک با
اثر اور با اختیار ادارہ ہوتا ہے –جہاں أَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ (ان
کے معاملات باہم مشورے سے طے پتے ہیں) کا قرانی اصول لاگو ہوتا ہے –اس
ادارے کے سامنے جماعت اسلامی کے تمام ممبران (ارکان)ذمداران بشمول امیر
جماعت اسلامی جوابدہ ہوتے ہیں –اس ادارے کو قطئی طور کسی دوسری سیاسی جماعت
کے فیصلہ ساز کمیٹی کی طرح نہ سمجاجائے –نہ اس کو حیدر پورہ یا راجباغ کی
یک نفری شوری تصور کیا جایئے- جہاں ھڑتالوں کی کالوں کے سوا باقی تمام
فیصلے دارمد کئے جاتے ہیں –جماعت اسلامی کی شوری جو بھی فیصلہ کرے گی
–انشاللہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کرے گی – اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع
پر آگے بھڑئیں-ہم کو سمجنا چاہئے-کہ جماعت اسلامی کیا ہے؟ اس کا قیام کب
اور کیوں لایا گیا ؟ اور جماعت اسلامی کی دعوت کیا ہے ؟ جماعت اسلامی
برصغیر کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے –جس کا آغاز
بیسویں صدی کے عظیم اسلامی مفکر سید ابوالاعلی مودودی (رح) نے تقسیم
ہندوستان سے قبل ٣ شعبان ١٣٦٠ھ بمطابق ٢٦ اگست ١٩٤١ کو کیا تھا –جماعت
اسلامی کو کسی وقتی غرض اور مقصد کے لئے وجود میں نہیں لیا گیا تھا –بلکہ
اس کا مقصد وہی ہے –جس کی خاطر نبی رحمت ( صلی الله علیہ وسلم ) اپنے پیارے
وطن سے ہجرت کرکے یثرب تشریف لے گئے تھے –یعنی اقامت دین –اس دین کی اقامت
کا مفہوم کچھ یوں بیان کیا گیا ہے " اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے –کہ کسی
تفریق اور تقسیم کے بغیراس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف
سے یکسو ہو کر کی جائے –اور انسانی زند گی کے انفرادی اور اجتمائی تمام
گوشوں میں اس سے اسی طرح جاری و نافذ کیا جائے –کہ فرد کا ارتقا،معاشرہ کی
تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اس دین کے مطابق ہو –اس دین کی اقامت کا
مثالی اور بہترین عملی نمونہ وہ ہے –جس سے نبی رحمت (صلی الله علیہ وسلم )
نے مدینہ منورہ میں عمل میں لایا-قیام جماعت اسلامی کا ایک پہلو یہ ہے –کہ
جماعت اسلامی مسلمانوں کو کسی فرقے،کسی مسلک،کسی قومیت،کسی زبان،کسی
نسل.کسی جغرافیہ،کسی ثقافت،اور خاصکر کسی ملک( جیسا کہ کشمیر میں تاثر پیدا
کیا گیا ہے) کی طرف نہیں بلاتی –جماعت اسلامی ان تمام بتوں کا انکار کرتی
ہے –جماعت اسلامی کی دعوت صرف اسلام، قرآن وسنت اور اسلامی تاریخ و تہذیب
کی طرف بلاتی ہے –اور وہ اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت کی علامت ہے –اس
تناظر میں جماعت اسلامی کا پیغام سادہ اور دوٹوک ہے – جماعت اسلامی
مسلمانوں سے کہتی ہے –کہ انفرادیت ختم کرکے امت کے سمندر کا حصہ بنو- ( امت
کے سمندر کا حصہ بننے کو مفہوم کو بھی کچھ لوگ توڈ مروڈ کر پیش کرتے ہیں
–یہ ایک الگ موضوع ہے –جس کو انشاللہ کبھی دوبارہ زیر بحث لیا جائے گا )
یہی وہ خوبیاں ہیں جو جماعت اسلامی کو دوسری روایتی مذہبی جماعتوں سے ممتاز
کرتی ہیں –چونکہ میں جماعت اسلامی کا ترجمان نہیں نہ میری جماعت اسلامی سے
کوئی باضبط وابستگی ہے – ہاں فکر مودودی (رح) سے ضرور متاثر ہوں –اس لئے
میں نے مناسب سمجا کہ اس نازک مسلئے پر لب کشائی کروں –ہاں تو بات ہورہی
تھی الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کی –جماعت اسلامی کا قیام جس ملک میں
بھی لا یا گیا –وہاں جماعت روز اول سے ہی انتخابی سیاست کا حصہ رہی ہے
-١٩٨٧ میں جماعت اسلامی جموں کشمیرنے اپنا آخری الیکشن مسلم متحدہ محاذ کے
پلیٹ فارم سے لڑا –جس میں محاذ کی واضح کامیابی کو نشنل کانفرنس نے بدترین
دھاندلی کا سہارا لیتے ہوئے ہار میں تبدیل کر دیا –اور وہی دھاندلی کشمیر
میں عسکریت کا سبب بنی –اسی دھاندلی کی وجہ سے سید محمد یوسف شاہ نے سید
صلاح الدین کا رخ اختیار کیا –یہی سید صلاح الدین اور اس کی حزب المجاہدین
بھارت کے لئے ایک درد سر بنے ہوئے ہیں – حالانکہ ان کے مقاصد سے تو ناسہی
پر طریق کار سے مجھ ناچیز سمیت بہت سے ہمدردان مشن کو شدید تحفظات ہیں – جس
کا اظہار راقم نے ان سے ذاتی طور کیا ہے -کیوں کہ وہ ایک نہایت شفیق انسان
ہیں اور بات سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں -الخیر جماعت اسلامی ایک تحریک ہے
–ایک منظم عالمی تحریک اور تحریکوں کے لئے ہارجیت سے زیادہ اپنی دعوت اور
منشور اہم ہوا کرتی ہیں –عام فہم زبان میں اگر سمجا اور سمجایا جائے –تو
تحریک ایک چنار کی ماند ہوتی ہے –جس کے لگانے والے کا کوئی ذاتی مقصد نہیں
ہوتا ہے –بلکہ اس کا مقصد اگلی نسل کے لئے ایک سایہ دار شجر فراہم کرنا
ہوتا ہے –یوں تصور کیا جاتا ہے کہ سیاسی طور برصغیرمیں جماعت اسلامی کا سب
سے مضبوط نظم جماعت اسلامی پاکستان کا ہے –جہاں محترم مولانا مودودی (رح)
اور ان کے قریبی رفقا نے جی جان لگا کر محنت کی -١٩٧٠ع کے الیکشن میں وہاں
جماعت اسلامی نے تین سو(٣٠٠) نشستوں والے قومی اسمبلی کے ایوان میں صرف( ٤)
چار نشستیں حاصل کئیں-آج تینتالیس سال بعد ٢٠١٣ع کے الیکشن میں جماعت
اسلامی کو (٣٤٣) تین سو تینتالیس والے اسی قومی اسمبلی کے ایوان میں ایک
نشست کم ہوکر صرف (٣) تین رہ گئی ہیں –میرے یہ تفصیلات لکھنے کا مقصد خدا
نہ خواستہ حوصلہ شکنی کرنا نہیں –بلکہ صرف یہ زہن نشین کرانا مطلوب ہے –کہ
جماعت اسلامی نے الیکشن کھبی اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں لڑا ہے –بلکہ
جماعت کا نصب العین ہے-کہ جماعت اسلامی ایک پرامن اور جمہوری عمل کے زریعے
ہی معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی –جماعت اسلامی برصغیر
کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں واحد جماعت ہے –جس میں شخص پرستی نام کی
کوئی شے موجود نہیں ہے –ورنہ نام نہاد جمہوریت کے یہ دعویدار جمہوریت
جمہوریت کا شورمچاکر آسمان سر پر اٹھاتے ہیں- اور عملی طور یہ شہنشاہیت کے
سب سے بڑے علمبردار ہیں –یہ کسی جمہوریت ہے –جس میں آہنجانی پنڈت جواہر لعل
نہرو کے بعد ان کی دختر آہنجانی اندرا گاندھی پھر ترتیب وار شری راجو
گاندھی اور اب ان کا سپتر یووراج راہول گاندھی ملک اور پارٹی کا اقتداراعلی
سنھبال رہے ہیں – واہ رے جمہوریت تیری جئے ہو –شیخ عبدللہ کے بعد ان کا
بیٹا فاروق عبدللہ (بیشک وہ کتنا ہی نکما اور نااہل کیوں نہ ہو) اور اس کے
بعد اس کا بیٹا ہی نشنل کانفرنس اور مجاہد منزل کی کرسی کا حقدار ہے –آپ
کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہو جائے گا –اسلام کے مقدس نام پر حاصل ہونے والے
پاکستان (یہ الگ بات ہے ٦٥ سال پہلے قائم ہوئے پاکستان میں ٦٥ منٹ بھی
اسلام نافذ نہیں ہوسکا)کی کہانی بھی ایسی ہی ہے –جہاں ٦٥ سال کے دوران صرف
چند خاندان ملک کو لوٹتے رہے -جس میں ایک قابل ذکر خاندان پاکستانی فوج ہے
–دوسرا سر شاہنواز بھٹو –اس کا بیٹا ذولفقار علی بھٹو مرحوم –محترمہ بے
نظیر بھٹو اوراب ان کا نور چشم بلاول بھٹو پارٹی اور اقتدار کا ولی وارث
بنا ہوا ہے – مسلم لیگ اب ریونڈ لیگ بن گئی ہے –دیوبندیت کے نام پرسیاست
کرنی والی جمعیت علمائے اسلام کے سارے رہنما عالم بھی مفتی محمود الرحمان
کے گھر پیدا ہوتے ہیں –وہاں بنگلہ دیش کے جمہوری چمپئیں کی عوامی لیگ اب
مرحوم شیخ مجیب کے گھر کی لیگ بن گئی ہے –یہی حال کشمیر کے حریت پسند
تنظیموں کا ہے ( جنکا میرے دل میں شدید احترم ہے –پر اس کے باوجود حق گوئی
اولین فرض ہے) عوامی ایکشن کمیٹی ہو یا پیپلز کانفرنس،پروفیسرغنی صاحب کی
جماعت ہو یا محترم عباس انصاری کی جماعت ہر جگہ خاندانی راج قائم ہے –اور
گھر کے چار دیوا ری کے اندر ہی تنظیموں کے فیصلے ہوتے ہیں –الله کے فضل سے
جماعت اسلامی کو شخص پرستی،خاندانی راج یا گروہ بندی سے نہ کبھی ماضی میں
واسطہ رہا ہے نہ آیندہ رہے گا انشاللہ –جیسا کہ میں نے تحریر کیا کہ جماعت
اسلامی میں ہر فیصلہ حق اور باطل کی پرکھ کے ساتھ با ضابطہ دلیل پیش کرکے
کیا جاتا ہے –اگر جماعت اسلامی ماضی میں الیکشن میں شمولیت اختیار کرنے کا
فیصلہ کیا تھا تو کسی منطق کی بنیاد پر کیا تھا –اگر ١٩٨٧ کے بعد جماعت
اسلامی نے الیکشن بائیکاٹ کا قدم اٹھایا تھا –وہ بھی ایک حکمت والا فیصلہ
ہی تھا –چونکہ ١٩٩٠ کے بعد کشمیر میں حالات ابتر ہوئے – جسکا % ٩٠ اثر
اجتمائی طور صرف اور صرف جماعت اسلامی پر پڑا جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن
بےدردی سے شہید کردیے گئے –جو کارکن عام کارکن نہیں تھے –بلکہ ایک ایک
کارکن اپنے آپ میں ایک تحریک تھے – ایک تنظیم تھے –ایک مشن تھے –( میں مادی
نقصان کی بات یہاں نہیں کروں گا )یہ ایک ایسا سرمایا تھا –جس کی تلافی ممکن
نہیں –بہت ہوگیا –کافی خون ریزی ہوگئی-کافی قربانیاں پیش کی گئیں –دھن،
دولت،مال حالانکہ عزت تک کی قربانیاں پیش کی گئیں-سب کچھ لٹا دیا گیا- ایک
اندھی تقلید کے پیچھے –ایک بے منطق جدوجہد میں جس کی حکمت عملی کا علم راج
باغ ،حیدرپورہ اور مائسمہ کو بھی شاید نہیں( زہن نشیں کرنے والی بات ہے کہ
یہاں بےمنطق سے مراد جدوجہد اور مطالبہ آزادی سے دستبرداری نہیں )
–دلی،راولپنڈی اور حریت کانفرنس اس قوم کے اکیلے ٹھیکہ دارنہیں جماعت
اسلامی کو کارگزاری،فروغ علم اور تزکیہ نفس کی کنٹرول لائن تک محدود کرنے
کی کوشش کی جارہی ہے –درآمد ہوئے سیاسی فیصلے جماعت اسلامی پر تھوپے جانے
کی کوشیش کی جارہی ہے –درآمد شدہ ہدایت کو آزادی کے ستوں قرار دیا جارہا ہے
–سوال یہ ہے کہ الیکشن میں حصہ لینے سے تحریک آزادی کی صحت پر کون سا برا
اثر پڑسکتا ہے ؟کیا الیکشن میں حصہ لینے سے تحریک آزادی کی بیک کنی ہوتی ہے
؟ اگر ہاں تو کیا ہم سب (جماعت اسلامی،حریت کانفرنس(الف)(ب) (ج) اور جہاد
کونسل) ١٩٨٧ تک تحریک دشمن تھے –کیا ہم اس وقت سہی تھے یہ اب سہی ہیں ؟ اگر
ہم اس وقت غلط تھے –تو کیا ہم نے اس غلطی کا سجدالسھو ادا کیا ؟کیا ہم نے
کبھی اس عنوان پر بات کی ؟ کیا ہم نے قوم کو اعتماد میں لیا ؟آخر ہماری
منزل کیا ہے ؟ اور منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے –آخر یہ (ھل من مزید) کا
تقاضا کب ختم ہوگا ؟طاقت سے زیادہ جدوجہد میں حکمت عملی ہوتی ہے ؟ سفارتی
سطح پر ہم صفر ہیں –الله مغفرت کرے ٹھاکرصاحب کو وہ اب اس دنیا میں نہیں
ہیں-غلام نبی فاہی صاحب نام نہاد اپنوں کے سازش کا شکا ر ہوئے – رہی بات
ہمارے نام نہاد وکیلوں کی ان کے ہر قول اور فعل سے ایسا لگتا ہے – کہ وہ
دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں – شملہ سمجوتے سے لیکرپانچ نکاتی ڈرامہ تک ان کے
سوچ کا محور سب سے پہلے پاکستان ہی ہے- یہ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے – بلکہ یہ
محمد علی جناح کے اس قول کا تسلسل ہے- جس میں انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی
شہ رگ قرار دیا تھا –یہ نعرہ اسلامی نقطہ نظر سے نہیں دیا گیا تھا – یہ
خالص ایک معاشی دور اندیشی تھی –چونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے –پاکستانی
معشیت کی ریڑ کی ہڈی زراعت ہے –اور زراعت کا انحصار صرف اور صرف کشمیر کے
پانیوں پر ہے- اس لئے کشمیر کے دریاؤں کا پانی پاکستان کے لئے شہ رگ کی
حثیت رکھتا ہے –پاکستانی معیشت کے دو بنیادی ستون یعنی زراعت اور انرجی کا
سارا انحصار کشمیر کے بہتے ہوئے دریاؤں پر ہے – چونکہ انڈیا سند طاس معاہدے
کے بندر بانٹ سے اب منحرف ہوتے نظر آرہا ہے –اسلے پاکستان حسب ضرورت تحریک
آزادی کشمیر کی نام نہاد پشتبا نی سے کھبی دستبردار ہوتا ہے – تو کبھی اس
کی جی جان سے پیروی کر رہا ہے –سچ تو یہ ہے- کہ جتنا نقصان تحریک آزادی
کشمیر کو پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں نے پہنچایا ہے –شاید اتنا نقصان
انڈیا اور ان کے دس لاکھ فوج نہیں پہنچا سکے -١٩٤٧ سے آج تک پاکستان کے پاس
کوئی کشمیر پالسی موجود ہی نہیں ہے –ماسوائے اس کے کہ کشمیری لیڈروں کی
جیبئیں گرم رکھی جائیں –اور مسلہ جوں کا توں قائم رکھا جائے – اور ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن بائیکاٹ بھی مسلہ جوں کا توں رکھنے کی ایک کڑی ہے
–یہ کون سی حکمت لقمان ہے – کہ ہم الیکشن بائیکاٹ کا ڈنڈورا پیٹتے رہیں –
لیکن ہمارے پاسس کو ئی متبادل واضح راستہ بھی نہیں – ہماری ساری حکمت عملی
یہ ہے –کہ ہم محسنوں کی طرف دیکھتے رہیں –محسن انڈیا سے بات کرتے رہیں –وہ
اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں-پاکستان کا پانی بہتا رہے –چایئے اس کے لئے ہم
کو آخری کشمیری بھی کیوں نہ قربان کرنا پڑے- جماعت اسلامی پر اخلاقی ذمہ
داری آئید ہوتی ہے- کہ وہ کارگزاری – فروغ علم اور تزکیہ نفس کے دائرے سے (
جس میں اس کو قید کر کے رکھ دیا گیا ہے ) باہر بھی آئے –قوم کی رہنمائی کرے
–اور راست اقدامات اٹھانے سے دریغ نہ کرے –جماعت اسلامی نے ہمیشہ مشکلات کا
سامنا خندہ پیشانی سے کیا ہے –جماعت اسلامی نے ہمیشہ قیام جماعت سے لیکرآج
تک بہت سے نشیب و فراز دیکھیے ہیں –جماعت اسلامی تقسیم ہندوستان کے وقت
اپنے اصولی فیصلے پر آخری وقت تک قائم رہی –اور ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان
بننے کے بعد جماعت اپنا وجود نہ منوا سکی - جماعت اسلامی جموں کشمیر نے
اپریل ١٩٧٩ کی سونامی کا بھی نہ صرف مجاہدانہ مقابلہ کیا- بلکہ اس اندھے
طوفان کو شکست فاش کیا –جماعت اسلامی نے اخوانی دور میں بھی کربلائی صبر کا
مظاہرہ کیا – آخرکار اخوانیوں کی گولیاں ختم ہوئی پر جماتئیوں کے سینے
تحریک اسلامیہ کو ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوئے – اخوانیوں نے ہمارے گھروں کو
آگ میں بسم کیا – پرہم پھربھی قال الله اور قال الرسول سنانے کا عہد نباتے
رہے – روز اول سے ہی جماعت اسلامی کا ہر قدم (شریعت کے دائرے میں ) لچک دار
ہوتا آیا ہے – مولنا مودودی (رح) نے قیام پاکستان کی بھرپور مخالفت کی –
لیکن تقسیم ہندوستان کے بعد انہونے نے پاکستان کو ہی اپنا مسکن بنایا –یہ
ہے وہ حکمت والی لچک جو ہمیشہ جماعت اسلامی میں رہی –اور اس لچک کا مقصود
کوئی ذاتی فایدہ نہیں –بلکہ اپنے مقدس مشن( اقامت الدین) کی پیروی ہے –
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے کسی نے پوچھا –جناب ایک زمانہ تھا –کہ آپ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستان ہمارا،
لکھا کرتے تھے –لیکن اب آپ نے 'چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا،مسلم ہیں ہم
وطن ہیں سارا جہاں ہمارا' لکھ کر اپنی بنیادی سوچ میں اتنی بڑی تبدیلی کی
عکاسی کی – تو ایسا کیوں ہے –شاعر مشرق اپنی شہادت کی انگلی اپنے دانتوں
میں دبا کر سوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے ! علامہ سوال کرنے والے کو مخاطب
ہوکر فرمانے لگے –میرے عزیز صرف پھتر نہیں بدلا کرتے-اور میں پھتر نہیں ایک
جیتا جاگتا انسان ہوں –اور انسانوں کی فکر اور سوچ میں ہمیشہ سے ارتقاء
ہوتا آیا ہے –اور ہمیشہ ہوتا رہے گا –البتہ جو پھتر ہیں –وہ ویسے کے ویسے
ہی رہیں گے – ساکت، بے جان،بے حرکت،بےحس لہذا ان کے اندر ارتقاء کا کوئی
امکان نہیں - |