ان دنوں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی نقطہ
عروج کو چھو رہی ہے اور امیدواروں کی ووٹوں کے حصول کے لیے جاری دوڑ دھوپ
بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ تمام ہی سیاسی جماعتیں اپنی دانست میں سیاسی
حکمت عملی کو حتمی شکل دے چکی ہیں ۔اور اپنے اپنے سیاسی کھلاڑیوں کو داو
پیچ سکھا کر میدان میں اتار چکی ہیں لیکن سیاسی افق پر گہری نگاہ رکھنے
والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اصل جوڑ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے
درمیان ہی پڑے گا۔جبکہ کہیں کہیں مسلم لیگ ق اور جماعت اسلامی کے امیدوار
حکومتی جماعت کو مشکل صورتحال سے دوچار کر سکتے ہیں ۔
اگرچہ بلدیاتی انتخابات کا ڈنکا تو ملک بھر کے گلی کوچوں تک بج رہا ہےلیکن
فیصل آبادمیں یہ سیاسی گہما گہمی کچھ اور ہی رخ اختیار کر چکی ہے۔ فیصل
آباد جو مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے مقامی قائدین کے باہمی اختلافات
کی وجہ سے میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ صنعتکاروں کے اس شہر میں مسلم
لیگ ن دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ اقتدار
کی اس جنگ کے سبب سیاسی ماحول کشیدہ ہو چکا ہے اور پر تشدد واقعات بڑی تیزی
سے رونما ہو رہے ہیں۔
فیصل آباد میں مسلم لیگ ن دو گروپوں میں منقسم دکھائی دیتی ہے۔ایک گروپ
عابد شیر علی کی قوت بازو کا مظہر ہے جبکہ دوسرا گروپ رانا ثنا اللہ کا
حمایت یافتہ ہے۔گزشتہ دنوں ہونے والے پر تشدد واقعات اس بات کی نشاندہی کر
رہے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں جب انتخابات سر پر ہوں گے تو فیصل آباد کے
حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعہ کو خارج از امکان
قرار نہیں دیا جا سکتا۔
قابل غور بات ہے کہ اقتدار کی جنگ بھی کس قدرخودغرضی اور سفاکیت پر مبنی
ہوتی ہے۔ایک ہی سیاسی چھتری تلے موجود کارکنان اقتدار کے حصول کے لیے تمام
تر اخلاقی حدود کو بالائے ظاق رکھتے ہوے میئر اور ڈپٹی میئر کے منصب کی جنگ
میں مصروف ہیں۔ فیصل آباد شہرپر سیاسی بالا دستی کی کش مکش نقطہ عروج پر
ہے۔عابد شیر علی اور رانا ثنا اللہ دونوں ہی فیصل آباد کے تخت پر قبضہ
جمانے کا خواب آنکھوں کی پلکوں پر سجائے بیٹھے ہیں اور اپنے اپنے گروپ کو
کامیاب کروانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد
میں مسلم لیگ ن مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر انتشار کا شکار ہے۔ رانا ثنا
اللہ اور عابد شیر علی کے حمایت یافتہ امیدوار نہ صرف فیصل آباد کی سیاسی
فضا کو گرد آلود کرنے کا موجب بن رہے ہیں بلکہ مسلم لیگ کے سیاسی امیج کا
بھی بیڑہ غرق کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اگر یہی صورتحال الیکشن تک برقرار رہی
تو مسلم لیگ ن مشکل صورتحال سے بھی دوچار ہو سکتی ہے اور مقامی سطح پر مسلم
لیگ ن کے لیے ہزیمت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
سیاست کے علم پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ سیاست کا دل نہیں
ہوتا۔اگر اس قول کو مفہوم کے کوزے میں دیکھنا ہو تو فیصل آباد کی سیاست ان
دنوں اس فرمان کی حقیقی عکاس ہے۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوے مسلم لیگ ن
کی قیادت کا فرض ہے کہ دونوں گروپوں کے تحفظات کا عمیق نظری سے جائزہ لے کر
کوئی قابل عمل حل وضع کرے جس سے دونوں گروپوں کے درمیان مصالحت کا کوئی سبب
پیدا ہو اور فیصل آباد کی سیاست میں برپا اس سیاسی خلفشار کا خاتمہ ہو۔ اگر
مسلم لیگ کی قیادت نے اس صورتحال پر چپ کا روزہ رکھ لیا اور صورتحال کو
قابو میں لانے میں تاخیر کی تو قرین قیاس ہے کہ موجودہ پر تشدد فضا
انتخابات کے دنوں میں کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
فیصل آباد کے پر انتشار سیاسی حالات سے قطع نطر اگر مسلم لیگ ن کے وفاقی
وزرا بالخصوص خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کے بیانات پر غور کیا جائے تو
یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی کہ مسلم لیگ ن بحثیت ایک سیاسی جماعت
اندرونی اختلافات کی زد میں ہے۔ خواجہ آصف اور چودھری نثار کے درمیان جاری
سرد جنگ اب بھر پور طوفان کی صورت میڈیا کی زینت بن چکی ہے اور اس بات کا
اظہار خواجہ آصف خود کر چکے ہیں کہ چودھری نثار سے ان کی بول چال گزشتہ کئی
سالوں سے بند ہے۔ خواجہ آصف گاہے گاہے دیگر وفاقی وزرا کے خلاف بیانات
داغتے رہتے ہیں جس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی وزرا
اتحاد،اعتماد اور اتفاق کے فقدان کا شکار ہیں ۔ اختلافات کی یہ آگ اگر مزید
بھڑک اٹھی تو اس سے مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوں
گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت دور اندیشی کی عینک پہن کر حالات
کی سنگینی کو مد نظر رکھتے ہوے جتنی جلدی ممکن ہو دونوں فریقین کے درمیان
اعتماد کی فضا قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے تا کہ مسلم لیگ کو
آنیوالے وقت میں کسی اندرونی سیاسی خلفشار کا سامنا نہ ہو۔درحقیقت وفاقی
وزرا کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک
کے وسیع تر مفاد میں مل جل کر کام کریں تا کہ خود دار،خود کفیل اور خوشحال
پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ |