اسلام نے انسانوں کی زندگیوں کو ہر لحاظ سے پاکیزہ بنانے
کا اہتمام کیا ہے۔ انسان کی جسمانی اورمادی ضروریات کی فراہمی، اخلاقی
وروحانی تربیت، فکر اسلام کا تقاضا ہے۔ آج کے دور کی ’’مہذب حکومتیں‘‘ دنیا
میں بہت سے ادارے قائم کر کے انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کا ڈھنڈورا
توخوب پیٹتی ہیں۔ مگر اُن اِداروں کی کارکردگی سے کوئی نفس بھی مطمئن نہیں
۔ دوسری طرف اسلام نے معاشرے کی تنظیم وتربیت کا ایسا نظام قائم کیا کہ
تاریخ گواہ ہے ہر شخص نیکی کا علمبردار اوربرائی کادشمن بن گیا۔ حضوراکرمﷺ
نے معاشرے کے ہر فرد کو مکلف ٹھہرایا ہے کہ وہ برائی کودیکھ کر آنکھیں بند
کر لینے کی بجائے برائی کا سدباب کرنے کی فکر کرے۔ تاریخ اس بات کی بھی
گواہ ہے کہ جس قوم میں ظلم وستم عام ہو جائے وہ ہر لحاظ سے پستی میں مبتلا
ہو جاتی ہے۔ اورجس قوم میں عدل وانصاف کا بول بالا ہو وہ ہر میدان میں
سرخرو ہوتی ہے۔ اسلام نے ان اصولوں کو نظریاتی طور پر پیش کیا اورصحابہ
کرامؓ نے اس پر سب سے پہلے عمل کر کے دیکھایا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ
ہوگا کہ ہر اصول کی عملی تفسیر اصحاب محمدﷺ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
سیدناعمرؓ ان اصولوں کی بالادستی کا مکمل واضح اورقابل تقلید نمونہ ہیں۔
آپکی سیرت محض تاریخی واقعات ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی اوراسکی تربیت
کیلئے درسِ فکر وعمل بھی پیش کرتی ہے۔ دعوتِ دین وحق کے میدان میں ’’سیرتِ
فاروقیؓ‘‘ کا درسِ فکر وعمل ایک ایسے بیج کا کام دے سکتا ہے جس سے عدل
وانصاف، اخلاق وکردار ،تعلیم وتربیت کا تنا آور درخت وجود میں آسکتا ہے۔
سیدنا عمرؓ اپنی جوانمردی، عالی ہمتی، پر کشش شخصیت اوراوصافِ حمیدہ کیوجہ
سے پورے معاشرے میں نمایاں تھے۔ آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا۔
اوراس خوبصورت فطرت کو جب زیورِ اسلام بھی میسر آگیا تو سونے پہ سہاگہ کے
مصداق بن گئے۔ ٓآپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ
خوداﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء مانگی تھی’’یااﷲ ! اسلام کو کسی ایک عمر
سے عزت عطاء فرما۔عمر بن خطاب سے یا عمرو بن ہشام سے۔‘‘چنانچہ دعا کو قبول
فرماتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے عمر بن خطابؓ کو عزت اسلام کی خاطر ’’مراد
مصطفیﷺ‘‘ بنا کر سرکار دو عالم ﷺ کی جھولی میں ڈال دیا۔
اُٹھائے ہاتھ اس کے واسطے شاہ دو عالم ﷺ نے
اُسی کو ہیں فقط معلوم سارے مرتبے اس کے
حضرت عمر ؓ خودراوی ہیں۔’’ میں زمانہ جاہلیت میں ایک روز حضوراکر مﷺ کی دل
آزاری کے اِرادے سے نکلا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ مجھ سے پہلے حرمِ مکی میں
پہنچ کر نماز کی نیت باندھ چکے ہیں۔ میں آپﷺ کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔آپﷺ نے
سب سے پہلے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت فرمائی۔ پھر سورۃ الحاقہ کی تلاوت شروع
کردی۔ قرآن کی آیات اورتراکیب میں بے پناہ روانی، سلامت اورزور بیان تھا۔
میں نے دل میں کہا ’’خدا کی قسم جیسا کہ قریش کہتے ہیں یہ بہت بڑے شاعر
ہیں‘‘ یہ خیال میرے ذہن میں آیا ہی تھا کہ آپﷺ نے پڑھا ’’بے شک یہ ایک رسول
کریم کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں ہے تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو‘‘۔ میں نے
کہا شاعر کا قول نہیں تو پھر ضرور یہ کاہن کا قول ہے۔ مگر آپﷺ نے فوراً
تلاوت فرمائی۔’’ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو‘‘۔
آپﷺ نے سورت کے آخر تک ساری آیات پڑھ ڈالیں۔اور میں دم بخود کھڑا تھا۔ایک
عجیب سی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔اس روز اسلام کی مضبوط آواز میرے دل کے
دروازوں کو کھول گئی تھی۔اور میں اسکی گونج کو اپنے دل کی گہرائیوں میں
محسوس کرنے لگا تھا۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمرؓ سے ان کے
قبول اسلام کے بارے میں پوچھا ۔تو فرمایا !کہ میں’’حمزہؓ کے قبول اسلام کے
تین روز بعد گھر سے نکلا تو مجھے ایک مخزومی نظر آیا۔ وہ باپ دادا کا دین
چھوڑ کر مسلمان ہو چکا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تومحمد(ﷺ)کے دین میں
شامل ہوچکا ہے ۔اس نے جواب دیا کہ اگر میں مسلمان ہوگیا توکیاہوا۔تم پہلے
اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ اوربہنوئی سعید بھی تو مسلمان ہوچکے
ہیں‘‘۔ فرمانے لگے کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں تھا۔ یہ سن کر سخت غصہ بھی
آیا اورافسوس بھی ۔پھر میں نے اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا اور وہاں پہنچ
کر دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کچھ گنگنانے کی آواز سنائی دی۔ دروازہ
کھلاتو میں نے پوچھا کس چیز کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی۔ میری بہن نے کہا
کوئی آواز نہیں تھی، ہمارے درمیان تکرار شروع ہوگیااور میں نے انہیں بری
طرح پیٹا۔ یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئے ۔اتنے میں میری بہن اُٹھی اور میرے
سر کوپکڑ کر کہا کہ ۔’’سن لو! ہم لوگ مسلمان ہوچکے ہیں، تمہیں جو کرنا ہے
کر لو، ہم جان دے دیں گے مگراسلام نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ بہتا ہوا خون اوربہن
کا عزم دیکھ کر مجھے شرمساری ہوئی کہ میں کیاکردیا۔ پھر اُن سے کہا کہ لاؤ
مجھے بھی سناؤ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے۔فاطمہؓ نے قرآن کے اجزاء سامنے لا کر
رکھ دئے۔اُٹھا کر پڑھنا شروع کیا تو ایک ایک لفظ دل میں اُترنے لگااور وہاں
سے اُٹھ کر سیدھا درِ نبوتﷺ پر جا پہنچا۔ حضرت عمرؓ کو اندر آتے دیکھ رسول
اﷲﷺ خود آگے بڑھے اور اُنکا دامن پکڑ کر فرمایا۔’’کیوں عُمر کس ارادے سے
آئے ہو؟آپ ؓ نے عرض کی کہ آپﷺ پر ایمان لانے کے لئے آیا ہوں۔جب آپ ﷺ نے سنا
تو بے ساختہ اﷲ اکبر پکاراٹھے اورساتھ موجود تمام صحابہؓ نے بھی مل کر اﷲ
اکبر کا نعرہ بلند کیا ،اور اس طرح حضرت عمرؓ کی فطرت سلیمہ، پاکیزگی
خیالات اورسب سے بڑھ کر اﷲ رب العزت کی رحمت بسبب ’’مرادِ مصطفی‘‘ انہیں
اسلام کی آغوش میں لانے کا سبب بن گئی۔
حضرت عمر ؓ کو نبیﷺ سے بہت قرب حاصل رہا۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا ؛’’جس نے عمر ؓ سے بغض رکھا ، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمر
سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور عرفات کی شام کو اﷲ تعالیٰ نے
مسلمانوں پر عام طور سے فخر کیا لیکن عمر ؓ پر خاص طور سے فخر کیا، اور اﷲ
تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا اس کی اُمت میں ایک محدث ضرور پیدا کیااور اگر
میری اُمت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر ہوں گے۔‘‘صحابہ رضی اﷲ عنہم نے
پوچھا ۔’’اﷲ کے رسولﷺ! محدث کون ہوتا ہے؟حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی
زبان سے فرشتے بات کرتے ہیں۔‘‘ (حیاۃ الصحابہ)
ایک مرتبہ قریش کی کچھ عورتیں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں اور دوران گفتگو
اپنی آوازوں کو اونچا کر رہیں تھیں، اتنے میں حضرت عمرؓحاضرخدمت ہوئے اور
اندر آنے کی اجازت طلب کی ، حضرت عمر ؓ کی آواز سن کر وہ عورتیں پردہ میں
چھپ کر ایک طرف ہو کر بیٹھ گئیں، حضور ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو اندر آنے کی
اجازت دے دی، جب حضرت عمر ؓ اندر آئے توحضورﷺ مسکرا رہے تھے۔حضورﷺ کو
مسکراتے دیکھ کر حضرت عمر ؓ نے کہا ؛’’ اے اﷲ کے رسول!اﷲ تعالیٰ آپ کو
ہنساتا رہے‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا ’’مجھے تو ان عورتوں پر تعجب ہوا کہ یہ میرے
پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو گھبرا کر پردہ تلاش کرنے
لگ پڑیں‘‘۔حضرت عمر ؓ نے عر ض کیا ’’اے اﷲ کے رسول!آپ اس بات کے زیادہ حق
دار ہیں کہ یہ عورتیں آپ سے ڈریں‘‘پھر اُن عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے
کہا۔’’اے اپنی جان کی دشمن خواتین! تم مجھ سے ڈرتیں ہو لیکن اﷲ کے رسول ﷺ
سے نہیں ڈرتیں‘‘عورتوں نے جواب دیا’’ہاں!تم رسول اﷲ ﷺ سے زیادہ سخت اور گرم
مزاج ہو‘‘حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا ؛ اس ذات کی قسم جس کے
قبضہ میں میری جان ہے! شیطان تجھے دیکھ کر اپنا راستہ تبدیل کر لیتا
ہے۔(بخاری و مسلم)
حضوراکرمﷺ کی وفات کے بعد اُمتِ مسلمہ کی پاسبانی کا کام ایک پہاڑ سے بھی
زیادہ بوجھل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ناقابل برداشت بوجھ اسلام کے دومخلص
ترین فرزندوں نے متحد ہو کر اپنے کندھوں پراٹھا یا۔ اُن میں پہلی شخصیت
سیدنا صدیق اکبرؓ کی تھی اوردوسری سیدنا فاروق اعظمؓ کی۔
حضرت صدیق اکبرؓ کی کیفیت یہ تھی کہ ایک طرف تو فراقِ رسو لﷺ کا غم کھائے
جاتا تھا۔ اوردوسری طرف اسلام اور اُمت کے افکار ان کے دل ودماغ کو پگھلاتے
جا رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وفات نبویﷺ کے بعد آپؓ صرف سوادوسال حیات رہے۔
اس کے بعد تمام بوجھ حضرت عمرؓ کے کندھوں پر آگیا۔ آپؓ نے جس مشقت اورجان
کنی سے اپنے فرائضِ خلافت ادا کئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عمرؓ کی
خلافت ہرپہلو سے مثالی تھی۔حضرت عبداﷲ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو
حضرت عمر کے بارے میں یہ فرما تے سنا کہ’’بیشک اﷲ تعالیٰ نے حق کو عمر کی
زبان اور دل پر جاری فرما دیا ہے‘‘۔(ترمذی)
یہی وجہ تھی کہ آپؓ ہر معاملے میں اپنے آپ کو مسؤل اورذمہ دار گرادنتے ہوئے
اپنی ذات کو سب سے پہلے مواخذہ کے لئے پیش کرتے تھے۔ آپ ؓ نے اپنے دور میں
ریاست کا ایک ایسا باکمال عملی نقشہ پیش کیا جس سے رہتی دنیا انسانیت
مستفید ہوتی رہے گی۔ یہ آپؓ ہی کا دور تھا جب باقاعدہ بیت المال قائم
کیاگیا۔عدالتوں اور قاضیوں کا مکمل نظام رائج کیاگیا۔تاریخ و سن کا اجراء
کیا گیا۔فوجی دفاتر، دفتر مال کا قیام عمل میں لایا گیا ۔امام، موذن ،معلم
،کی تنخواہ کو مقرر کیاگیا۔ اسکے علاوہ اراضی پیمائش، مردم شماری، ممالک
مقبوضہ میں علاقوں کی تقسیم،مجرموں کے لئے باقاعدہ جیل خانہ جات کا
قیام،محکمہ پولیس کا قیام ،چھاؤنیوں کا انتظام،جاسوسی و پرچہ نویسی کا مکمل
انتظام،جیسے دیگر اہم امورآپؓ ہی کے زمانہ خلافت میں جاری و ساری ہوئے۔
یہ دنیا اُن سے اب تک اکتسابِ فیض کرتی ہے
کتابِ نور میں لکھے ہیں مشورے اُن کے
آپؓ کی سادگی اور انکساری بھی بے مثال تھی جس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی
لگایا جا سکتا ہے جب مسلمانوں سے جنگ کے لئے یزدگرد (شہنشاہ ایران )نے اپنے
انتہائی شان وشوکت والے سپہ سالار ’’ہر مزان‘‘ کو بھیجا ۔جنگ میں ہر مزان
نے اِس شرط پر ہتھیار ڈالے کہ اُسے صحیح سلامت مدینہ میں پہنچا دیا جائے
پھر وہاں حضرت عمرؓ جو بھی فیصلہ کریں گے اُسے قبول ہوگا۔ چنانچہ ہر مزان
بڑی شان وشوکت کے ساتھ روانہ ہوا۔ بڑے بڑے ایرانی رئیس اسکے ہمرکاب تھے۔ جب
مدینہ کے قریب پہنچے تواس نے تاج مرصع سر پر رکھا۔ دیبا کی قبا زیب بدن کی۔
کمر سے مرصع تلوار لگائی اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوا۔
مسجد نبویؐ کے قریب پہنچ کر پوچھا گیا کہ امیر المومنین کہاں ملیں گے؟
(ایرانیوں کا خیال تھا کہ جس کے دبدبے نے دنیا میں غلغلہ ڈال رکھا ہے اس کا
کاروبار بھی بڑے سازو سامان کا ہوگا،جواہرات سے جڑا ہوا تخت ہوگا، ہر طرف
درباری ہوں گے،عالی شان محل ہوگا ۔ لیکن وہاں موجود ایک شخص نے اشارہ کر کے
بتایا کہ وہ ہیں امیر المومنین ،جب اُن لوگوں کی نظر پڑی توحضرت عمرؓ کو
صحن مسجد نبوی ﷺمیں خاک پر لیٹے ہوئے پایا۔
وہ آدھی دنیا کا حکمران تھا وہ حکمران بھی مگر کہاں تھا
پھرتی موجوں پہ حق پرستوں کی سادہ کشنی کا بادباں تھا
اُبھرتے سورج سے تاج مانگا سمندروں سے خراج مانگا
کسے خبر ہے کہ اُسکا سکہ جہاں میں جاری کہاں کہاں تھا
جنگ قادسیہ کا میدان گرم تھا۔ شہنشاہ ِایران نے آخری طاقتیں میدان جنگ میں
جھونک دی تھیں۔ جنگ کی شدتِ بلاخیزی کا اندازہ یہاں لگایا جاسکتا ہے کہ صرف
ایک دن کے معرکہ میں دس ہزار ایرانی مارے گئے اور دوہزار مسلمان منصبِ
شہادت پر فائز ہوئے۔ اور دوران جنگ میں حضرت عمرؓ کا یہ حال تھا کہ جب سے
قادسیہ کا معرکہ شروع ہوا تھا۔ آپؓ ہر روز طلوع آفتاب کے ساتھ مدینہ سے نکل
جاتے اورکسی درخت کے نیچے اکیلے کھڑے قاصد کی راہ تکتے رہتے۔ جب قاصد فتح
کی خبر لایا تو آپؓ اس وقت بھی باہر کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ جب معلوم ہو
کہ سعدؓ کا قاصد ہے تو آپؓ نے حالات پوچھنے شروع کر دیئے۔ قاصد اونٹ بھگائے
جاتا تھا اورحالات بیان کرتا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ رکاب کے ساتھ دوڑتے جارہے
تھے۔ جب شہر کے اندر لوگوں نے انہیں امیر المومنین کہہ کر پکارنا شروع کیا
تو قاصد حیرت زدہ رہ گیا کہ آپؓ ہی رسولﷺ کے جانشین ہیں۔ اب قاصد کہتا تھا
کہ امیر المومنین آپؓ نے اپنا نام کیوں نہ بتایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب
نہ ہوتا۔ مگر آپؓ نے فرمایا کہ تم اپنی اصل بات جاری رکھو۔ قاصد بیان کرتا
گیا۔ اورامیر المومنین اسی طرح رکاب کے ساتھ چل کر گھر تشریف لے گئے۔ یہ
تھی حضرت فاروق اعظمؓ کی روزانہ کی زندگی، اﷲ کا خوف، مسلمانوں کی بے پناہ
خدمت، عدل وانصاف کی فراہمی، شب وروز کی بے پناہ مصروفیات۔ ان سب کے باوجود
بھی کبھی پاؤں پھیلا کر نہ سوئے تھے۔ ایک وقت بھی سیر ہو کر نہ کھاتے تھے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جسم روز بروزنحیف ہوتا گیا۔ بڑھاپے سے پہلے پڑھاپا محسوس
ہونے لگا۔ اُن ایام میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ’’ اگر کوئی دوسرا شخص
بارِخلافت اٹھا سکتا توخلیفہ بننے کی بجائے میرے لیے یہ زیادہ آسان تھا کہ
گردن اڑا دی جاتی‘‘۔
آپؓ روم و ایران کے بادشاہ بن چکے تھے مگر پھر بھی آپؓ سے فقر وفاقہ کی
زندگی نہ چھوٹی۔ لوگ اس بات کو محسوس بھی کرتے تھے۔ مگر آپ راضی برضا تھے۔
ایک مرتبہ آپؓ کی صاحبزادی اُم المومنین حضرت حفصہؓنے جرات کر کے یہ کہہ ہی
دیا کہ’’ والد محترم! اﷲ نے آپؓ کو بہت بڑا درجہ دیا ہے ،آپؓ کو اچھے لباس
اور اچھی غذا سے پرہیز نہ کرنا چاہیے۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ائے میری
بیٹی! لگتا ہے کہ تم رسولﷺ کے فقروفاقہ کو بھول گئی ہو۔ خدا کی قسم! میں
انہیں کے نقش قدم پر چلوں گا۔ اس کے بعد آپؓ نے حضور اکرمؐ کی تنگدستی کا
ذکر شروع کردیا۔ یہاں تک کہ حضرت حفصہؓ آبدیدہ ہو گئیں۔
حضرت عکرمہ بن خالدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ پر جب کمزوری کے آثار شدت
اختیار کرنے لگے تومسلمانوں کے ایک وفد نے مل کر عرض کی کہ’’ ائے امیر
المومنین اگر آپؓ ذرا بہتر کھانا کھا لیا کریں تواﷲ کے کام میں اور زیادہ
قوی ہوجائیں گے‘‘۔ آپؓ نے پوچھا کیا یہ تمہاری ذاتی رائے ہے یا سب مسلمانوں
کا یہی تقاضا ہے؟ عرض کیا یہ سب مسلمانوں کی متفقہ رائے ہے۔ فرمایا! میں
تمہاری خیرخواہی کا مشکور ہوں۔ مگر میں اپنے دوپیش رؤوں کی شاہراہ ترک نہیں
کرسکتا۔ مجھے اُن کی ہم نشینی یہاں کی لذتوں سے زیادہ عزیز ہے۔
چنانچہ۲۳ھ تھی کرمان، سجستان، مکران اوراصفہان کے علاقے فتح ہوچکے تھے۔
اسلامی سلطنت کی حدود مصر سے بلوچستان تک وسیع ہوچکی تھیں۔ اسی سال آپؓ نے
آخری حج فرمایا۔ حج سے تشریف لا تے ہوئے راہ میں ایک مقام پر ٹھہر گئے۔
پتھروں پر ہی چادر بچھائی اورلیٹ گئے پھر آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے اوردعا
کرنے لگے اے میرے رب! اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے میری قوت کمزور پڑنے لگی
ہے۔ اوررعایا ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ اب تومجھے اس حالت میں اُٹھالے کہ میرے
اعمال برباد نہ ہوں اور میری عمر کا پیمانہ اعتدال سے متجاوز نہ کرے۔
حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں !میں نے کہا کہ تورات میں پڑھ چکا ہوں کے آپؓ
شہید ہوں گے، آپؓ نے فرمایا یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب میں رہتے ہوئے میں شہید
ہو جاؤں؟ پھر دعا فرمائی ائے اﷲ! مجھے اپنے راستوں میں شہادت عطا کر
اوراپنے محبوب کے مدینے کی حدود کے اندر پیغام اجل بھیج۔
ایک دن آپؓ خطبہ جمعہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ایک
مرغ آیا ہے اورمجھے جونچیں ماررہا ہے۔ اسکی تعبیر یہی ہوسکتی ہے کہ اب مجھ
پر موت کا زمانہ قریب آگیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ یادرکھو ! میں موت کا
مالک ہوں نہ دین اورخلافت کا، خداتعالیٰ اپنے دین اورخلافت کا خود ذمہ دار
اور محافظ ہے ،وہ انہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔
امیر المومنین سیدنا عمرؓ منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد یہ حکم دیا تھا کہ
کوئی مشرک جو بالغ ہو، مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا۔اس سلسلہ میں حضرت مغیرہ
بن شعبہؓ گورنر کوفہ نے آپ کو لکھاکہ یہاں فیروزنامی بہت ہوشیار نوجوان ہے
جو نقاشی، نجاری اور آہن گری میں بڑی مہارت رکھتا ہے اگرآپؓ اُسے مدینہ میں
داخلے کی اِجازت عطا کریں تووہ مسلمانوں کے بہت کام آئے گا۔ حضرت عمرؓ نے
حکم دیا کہ اس کو بھیج دو۔ فیروز نے مدینہ پہنچ کر شکایت کی مغیرہ بن شعبہؓ
نے مجھ پر بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھا ہے آپ کم کروا دیجئے۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ کتنا ٹیکس ہے؟
اس نے جواب دیا کہ دودرہم روزانہ۔
حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہارا پیشہ کیاہے؟
اس نے جواب دیا نجاری، نقاشی، آہن گری۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم تو کافی ہے۔ فیروز
کے لیے یہ جواب نا قابل برداشت تھا۔وہ عناد سے لبریز ہوکر دانت پیستا ہوا
واپس چلا گیا۔ اوریہ کہتا جارہاتھا کہ امیر المومنین میرے سوا ہر ایک سے
انصاف کرتے ہیں۔چند روز بعد حضرت عمرؓ نے اسے پھر یاد فرمایا۔ اورپوچھا! کہ
میں نے سنا ہے تم ایسی’’ چکی ‘‘تیار کرسکتے ہو جو ہوا میں چلے؟ فیروز چونکہ
ایرانی النسل تھا۔ اورایرانی ضرب ِفاروقیؓ کامزہ چکھ چکے تھے۔ لہٰذا اُس نے
بڑی ترش روئی سے جواب دیا کہ ہاں! میں آپ کے لئے ایک ایسی’’ چکی‘‘ تیار
کروں گا جسے یہاں کے لوگ کبھی نہ بھول سکیں گے۔ فیروز کے جانے کے بعد حضرت
عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کرگیا ہے‘‘
دوسرہی روز ابولولو فیروز مجوسی ایک دودھارا خنجر آستین میں چھپائے ہوئے
صبح سویرے مسجد نبویؓ کے گوشے میں آبیٹھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ محرابِ مصطفی
میں امامت کے لیے آئے، صفیں سیدھی ہوچکیں تھیں۔کائنات ایک بار پھر یتیم
ہونے کو کھڑی تھی۔
زمین سے آسمان تک ہرایک چیز عمر ابن خطابؓ کو،امیر المومنینِ وقت کو،
’’مراد مصطفی ﷺسے فاروق اعظمؓ ‘‘ تک کا سفر طے کرنے والی شخصیت کو،اب آخری
بار شہیدِ محراب ہوتا دیکھنے جارہی تھی۔ گویا ہر چیز یہ کہتی ہوئی دکھائی
دے رہی ہو کہ۔
ازل سے کہہ دو کہ رک جائے دوگھڑی۔
مگر خدائی فیصلہ آچکا تھا۔ نماز شروع ہوچکی تھی کہ اتنے میں فیروز مجوسی نے
دفعتہ گھات لگا کر سیدنا فاروق اعظمؓ پرچھ وار کئے۔ اس درد ناک ترین حالات
میں بھی دنیا نے خداپرستی کا ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ جب حضرت عمرؓ اپنے
قدموں پر گر رہے تھے آپؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑکر انہیں
اپنی جگہ کھڑا کردیا تاکہ بقیہ مسلمان فرض بندگی ادا کر سکیں۔ اورخود زخموں
سے چور ہو کر زمین پر گر گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے اس حالت میں نماز
پڑھائی کہ امیر المومنین سامنے پڑے تڑپ رہے تھے۔ فیروز نے اور بھی کئی
صحابہ کرامؓ کو زخمی کیا۔
حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ آپؓ نے سب سے پہلے سوال کیا کہ
میرا قاتل کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ، فیروز۔ یہ جواب سن کر چہرہ کا انور
پربشاشت ظاہر ہوئی۔ اورفرمایا کہ اﷲ کا شکر میں کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل
نہیں ہوا۔
لوگوں کا خیال تھا کہ زخم زیادہ گہرے نہیں ہیں،جلد شفا ہوجائیں گے۔ چنانچہ
طبیب کوبلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ مگر یہ دونوں چیزیں زخم کی
راہ سے باہر آگئیں۔ یہ حالت دیکھ کر تمام مسلمانوں پر افسردگی طاری ہوگئی۔
صحابہؓ رضائے الہٰی سمجھ چکے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت عمرؓ کے
ساتھ ساتھ پورا مدینہ زخمی ہوگیا۔ خلافت زخمی ہوگئی بلکہ پورا اسلام زخمی
ہوگیا۔ جب حضرت عمرؓ بستر ناگہاں پر گر پڑے تومسلمانوں کو پہلی مرتبہ اپنی
بے بسی کا ،اسلام کی تنہائی کا احساس ہوا اب ہر مسلمان کو اس ہی بات کی فکر
تھی کہ سیدنا عمرؓ کے بعد اس اُمت کا محافظ کون ہوگا؟
حضرت عمرؓ خود بھی صاحب نظر، اورگہری سوچ کے مالک تھے۔ لہذا آپؓ مسلمانوں
کے اندر پائے جانے والے اضطراب کو بھانپ چکے تھے۔ آخر آپؓ نے فرمایا کہ
؛’’جب میں اس دنیا سے چلا جاؤں تومیرے بعد عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ،
عبدالرحمن عوفؓ، اور سعد بن وقاصؓ میں سے جس پر تم سب کومتفق پاؤ اس کو
خلیفہ منتخب کرلینا‘‘۔ پھر آپؓ نے اپنے بیٹے حضرت عبداﷲ کوبلا کر فرمایا کہ
میری ایک آخری تمنا ہے۔ تم اُم المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے
گذراش کرو !عمرؓ چاہتا ہے کہ اسے اپنے دورفیقوں کے پاس دفن ہونے کی اجازت
دی جائے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے آپؓ کا پیغام اُم المومنین حضرت عائشہؓ تک
پہنچایا تووہ سن کر انتہائی درد مند ہوئیں اورفرمایا کہ یہ جگہ میں نے اپنے
لئے رکھی تھی۔ ’’مگر آج میں اپنی ذات پر عمرؓ کو ترجیح دیتی ہوں‘‘ ایک وقت
تھا جب مجھ سے میرے اہل و عیال نے رُخ موڑ لیا تھا۔پورے مدینے میں ایک
پریشانی کا عالم تھا۔ایسا لگتا تھا کہ مجھ سے ہر چیز روٹھ گئی ہو۔مگرعمرؓ
نے اس وقت بھی حق کا ساتھ دیا اوردربار رسول ﷺمیں میری پاکدامنی کی گواہی
اس انداز میں دی کہ عرش وفرش پرچرچے ہوگئے۔
جب بیٹے نے آپؓ کوحضرت عائشہ کی منظوری کی اطلاع دی تو بے حد خوشی کااظہار
فرمایا۔ اوراس آرزو کی قبولیت پرشکر ادا کرنے لگے۔ اور پھر اپنے بیٹے عبداﷲ
بن عمرؓ سے فرمایا کہ’’ میرا سرتکیہ سے اٹھا کر نیچے خاک پر رکھ دو شاید
میرا اﷲ میرے خاک آلود سر کی وجہ سے مجھ پر رحم فرمائے۔ پھر فرمایاکہ جب
میں مر جاؤں تومیری آنکھیں بند کردینا اورمیرے کفن میں سادگی اور قبر میں
اختصار کرنا ،اگر میں اﷲ کے ہاں مقبول ہوں گا تو مجھے کفن سے بہتر لباس اور
قبر کے اِختصار کی جگہ جنت کی کشادگی عطا فرمائے گا۔ اورپھر اس عظیم انسان
کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ تاریخ اسلام کا ایک عظیم باب ہمیشہ کے
لیے بند ہوگیا۔ اتوار کا دن تھا۔ یکم محرم۲۴ھ کو حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے غسل
دیا اورحضرت صہیب رومیؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ،
عثمان بن عفانؓ، سعید بن زیدؓ، اورعبدالرحمان بن عوفؓ نے آپؓ کوقبر میں
اُتارا۔
دس سال پانچ ماہ اوراکیس دن عرب وعجم پرحکومت کرنے والے شخصیت کو سلام
عقیدت پیش کرناشاید قلم کے بس میں نہ ہو۔ مگر سیرت عمرؓ کا خوشہ چین ہونے
کی حثیت سے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ۔
غرض میں کیا کہوں تم سے وہ صحرانشین کیاتھا
جہاں بانی وجہاں گیروجہاں دار وجہاں آراء
اگرچاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تصور سے فزوں ترہے وہ نظارا
( ختم شد)
|