حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

امام العادلین، ناصرِ دین مبین، فاتح اعظم، پیکر وفاوشجاعت، مراد مصطفی، شہید محراب، امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شمار ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے براہ راست نبی آخر الزماں سے کسب فیض کیا اور ’’وما ینطق عن الھوی‘‘کی مبارک زبان سے جنت کی بشارت حاصل کی ہے۔ آپ خطاب بن نفیل بن عبد الفری بن رباح بن عبداﷲ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مسالک کے صاحبزادے ہیں اور آپ کا نسب آٹھویں پشت میں نبی کریمﷺ سے جاکر ملتا ہے۔ آپ حصول معاش کے لیے تجارت سے وابستہ تھے البتہ شہسواری، پہلوانی، سپہ گری اور خطابت میں بھی ماہر تھے۔

نبی کریمﷺ کی طرف سے ابو حفص کی کنیت اور فاروق کا لقب عطا کیا گیا ۔ مجاہد بن جبر المکی رحمہ اﷲ حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے آپ کو لقب فاروق پڑا؟تو انہوں نے کہاکہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ مجھ سے تین دن مسلمان ہوئے تھے پھر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے ان کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے آخر میں کہا کہ پھر جب میں مسلمان ہوا تو عرض کیا! اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں خواہ زندہ رہیں خواہ مریںِ؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں؟ اْس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ حق پر ہو خواہ زندہ رہو خواہ موت سے دوچار ہو۔۔۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں تب میں نے کہا کہ پھر چھپنا کیسا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ہم ضرور باہر نکلیں گے چنانچہ ہم دوصفوں میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر باہر آئے ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ تھے اور ایک میں، میں تھا۔۔۔ ہمارے چلنے سے چکی کے آٹے کی طرح ہلکا ہلکا غبار اڑ رہا تھا، یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں داخل ہوگئے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا بیان کہ قریش نے مجھے اور حمزہ رضی اﷲ عنہما کو دیکھا تو اْن کے دلوں پر ایسی چوٹ لگی کہ اب تک نہ لگی تھی۔ اسی دن رسول اﷲ ﷺ نے میرا لقب فاروق رکھ دیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے وصال باکمال کے بعد آپ (حضرت عمر فاروق )رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بطور خلیفہ مقرر کیا گیا۔ آپ نے دس برس چھ ماہ چار دن تخت خلافت پر رونق افروز رہ کر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ کی جرأت و بہادری قبول اسلام سے پہلے بھی مشہور تھی یہا ں تک کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ جس کسی نے ہجرت کی چھپ کر کی مگر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسلح ہوکر خانہ کعبہ آئے اور کفار کے سرداروں کو للکارا اور فرمایا کہ جو اپنے بچوں کو یتیم اور بیویوں کو بیوہ کرنا چاہتا ہے وہ مجھے روک لے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زبان سے نکلنے والے الفاظوں سے کفار مکہ پر لرزہ طاری ہوگیا اور کوئی مدمقابل نہ آیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اسلام کو عروج نصیب فرمایا اور سلطنت اسلامیہ 22لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی۔ آج کے دور میں جس طرح امریکہ نام نہادسپر پاور ہے اس دور میں قیصر وقصری (ایران وروم)سپر پاور ہونے کے دعوی دار تھے۔سپر پاور ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نام سے کانپتے تھے۔ آپ نے جس طرف بھی ارادہ فرمایا کہ اسلام کا پرچم لہرایا جائے اﷲ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اور آپ مصر، ایران، روم اور شام سمیت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو روندتے ہوئے اسلام کی عظمت کے علم کو لہرا دیتے۔ اور جو طاقت بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اٹھتی آپ نے اسی نیست ونابود کردیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ نے عدل وانصاف کی وہ تاریخ رقم کی آج 1400برس گزرنے کے باوجود عدل وانصاف میں آپ کا ثانی پیش کرنے سے تاریخ قاصر رہی ہے۔ آپ نے راستی ودیانت داری کا سکہ رائج فرما دیا۔ مخلوق ِ خدا کے دلوں میں حق پرستی وپاکبازی کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ کے رعب وہیت کا یہ عالم تھا کہ بہادروں کے زہرے نام سن کر پانی پانی ہوتے تھے۔ جنگجو یا صاحب ہنر کانپتے اور تھرتھراتے تھے۔ انسان تو انسان زمین بھی آپ کے رعب و ہیت اور عدل وانصاف سے ڈرتی تھی۔ حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں مدینے شریف میں ایک شدید زلزلہ آیا اور زمین ہلنے لگی۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کچھ دیر خدا تعالیٰ جل جلا لہ' کی حمد و ثناء کرتے رہے مگر زلزلہ ختم نہ ہوا۔ آپ رضی اﷲ تعالی عنہ جلال میں آگئے اور آپ نے اپنا دْرّہ زمین پر مار کر فرمایا’’اقدّی الم اعدل علیک قلتقرت من وقتھا‘‘اے زمین ساکن ہو جا کیا میں نے تیرے اْوپرانصاف نہیں کیا ہے؟یہ فرماتے ہی فوراً زلزلہ ختم ہوگیا اور زمین ٹھہر گئی۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے پھر کبھی مدینے شریف کی زمین پر زلزلہ نہیں آیا۔

22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ قیصر روم کا قاصد مدینہ طیبہ میں آیا اور امیر المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تلاش کرنے لگا تاکہ بادشاہ کا پیام پیش خدمت کرسکے۔ لوگوں سے پوچھنے پہ پتا چلا کہ امیر المومنین مسجد میں ہیں جب وہاں دیکھا کہ سوائے ایک دَلَق پوش کے وہاں کوئی بھی نہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے کہا کہ وہی دلق پوش ہمارا امیر وخلیفہ ہے۔

آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا زہد وورع، تواضع وحلم یوں تھا کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روزانہ گیارہ لقموں سے زیادہ طعام ملاحظہ نہ فرماتے تھے۔ روایت کا جاتا ہے کہ شام کے ممالک جب فتح ہوئے اور آپ رضی اﷲ تعالیٰ نے ان ممالک کو اپنے قدوم ِ میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا اور وہاں کے امراء وعظماء آپ رضی اﷲ عنہ کے استقبال کے لیے آئے تو اس موقع پر آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایک اونٹ پر سوار تھے۔ آپ کے خدام نے عرض کیا ’’اے امیر المومنین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شام کے اکابر واشراف آپ سے ملاقات کے لیے آرہے ہیں مناسب ہوگا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہوں تاکہ آپ کی شان وہیبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اس خیال میں نہ رہیے کام بنانے والا اور ہی ہے۔ اور جب قبلہ اول بیت المقدس کو بغیر جدل وقتال فتح کیا گیا اور آپ اس کی چابیاں لینے پہنچے تو آپ کا غلام سواری پر سوار تھا اور اس سواری کی لگام آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ کا یہ انصاف اور ظاہری حلیہ مبارک دیکھتے ہوئے پادریوں نے کہا یہ بے شک بیت المقدس کے فاتح کی جو نشانیاں ہم نے کتابوں میں پڑھی تھی وہ ساری نشانیاں ان میں پائی جاتی ہیں۔

علماء وفقہاء کے مطابق 25آیت قرآنیہ ایسی ہیں جو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مشورے اور رائے کی تائید میں نازل ہوئیں۔ آپ کی شان میں بہت سی احادیث مبارکہ،منافق کا فیصلہ مصطفی سے انکار کے بعد آپ کے پاس آنا اور آپ کا اس کا سر قلم کرنا، دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دریامیں دفن کرنے کی بجائے آپ کا اسے خط لکھنا اور دریا کا جاری ہوجانا، خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ایران میں جہاد میں مصروف حضرت ساریہ کو ’’یاساریہ الجبل‘‘ فرما کر دشمن کی خبر دینا، پہاڑ کے غار سے آگ نکلنے پر حضرت تمیم داری کو چادر دے کر بھیجنا اور آگ کا بجھ جا نایہ سب آپ کے عدل وانصاف،جرأت و بہادری، رعب وہیبت، خوف خدا اور عشق مصطفی کا پتا دیتی ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ کے خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ آپ کی بیوی حضرت عاتکہ کہتی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ اﷲ کی قسم اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اﷲ تعالیٰ مجھ سے یہ سوال نہ کردے کہ اے عمر! تو نے وہ راستہ کیوں ٹھیک نہیں کرایا۔۔؟

بالآخر یکم محرم الحرام کو اسلام کا یہ بطلِ جلیل، مراد مصطفی، امیر المومنین خلیفۃ المسلمین تریسٹھ برس کی عمر میں مجوسی منافق ابولولوفیروز کے حملہ کی نتیجہ میں منصب شہادت پر فائز ہوگیا۔ حضرت صہیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اوربمطابق وصیت اماں عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے روضہ مبارکہ کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ نے اسلامی ریاست میں جیسی حکومت کی، وہ تمام حکمران اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج اگر حضرت عمر فاروق ؓ کے مرتب کردہ قوانین پر عمل پیرا ہوکر اغیار کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو یقیناً مسلم حکمران جب امیرالمومنین، امام العادلین،فاروق اعظم حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرز حکمرانی کو اپنائیں گے تو کامیابی وکامرانی ان کے پاؤں چومے گی اور جس سمت چلیں گے اﷲ کی مدد ونصرت ان کے شامل حال ہوگی۔

abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 26444 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.