اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ "محرم الحرام" اور عاشورہ کا روزہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہِ اَجْمَعِین۔

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اﷲ تعالیٰ کے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اﷲ تعالیٰ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷) حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ماہ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اﷲ تعالیٰ کے مہینے ماہ محرم الحرام کے روزے ہیں ۔ (صحیح مسلم)

حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اﷲ ﷺ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اﷲ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی ج۱ ص ۱۵۷) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔

محرم الحرام سے ہجری سال کی ابتدا کیوں؟
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، یعنی محرم سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سال کی ابتداء ماہ ِمحرم الحرام سے ہی کیوں کی گئی؟ جبکہ نبی اکرم ﷺ کی ہجرت مدینہ منورہ کی طرف ماہِ ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ جواب سے پہلے‘ چند ایسے امور کا ملاحظہ فرمائیں جن کے متعلق تقریباً تمام مؤرخین متفق ہیں:
۱) ہجری سال کا استعمال نبی اکرم ﷺ کے عہد میں نہیں تھا، بلکہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام کے مشورے کے بعد ۱۷ ہجری میں شروع ہوا۔
۲) ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے زمانے میں ہوا تھا ، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم ﷺ کے زمانے، بلکہ عرصۂ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام ، رجب) کی تحدید بھی زمانۂ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اﷲ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشادفرماتا ہے: مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک کتاب اﷲ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (سورۂ التوبہ ۳۶)
۳) اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔
اب جواب عرض ہے:
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ ٔخلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی توصحابہ کرام نے اسلامی کیلنڈر کی ابتداء کو نبی اکرم ﷺکی ولادت باسعادت یا نبوت یا ہجرت ِمدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دئے ۔ آخر میں صحابۂ کرام کے مشورہ سے ہجرت ِمدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ یعنی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے تمام سالوں کو زیرو (Zero) کر دیاگیا اور ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کرلیاگیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب‘ تو اس کو عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتداء۔ غرض یہ ہے کہ عربوں میں محرم الحرام کا مہینہ قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا، لہذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس طرح ہجرت مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہوگیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

عاشورہ کا روزہ:
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔ اس دن میں حضور اکرم ﷺ نے روزہ رکھا تھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پہلے تو یہ روزہ واجب تھا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو مسلمانوں کو اختیار دے دیاگیا کہ چاہیں یہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں البتہ اس کی فضیلت بیان کردی گئی کہ جو روزہ رکھے گا اس کے سال گذشتہ کے چھوٹے گناہ معاف کردئے جائیں گے ۔پہلے یہ روزہ ایک دن رکھا جاتا تھا لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لئے آخر میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو انشاء اﷲ نویں محرم کو بھی روزہ رکھوں گا لیکن اس خواہش پر عمل کرنے سے قبل ہی آپ ﷺکا وصال ہوگیا۔

عاشورہ کے روزہ سے متعلق احادیث:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور عاشورہ کے دن بیت اﷲ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔جب رمضان فرض ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۱۷)

دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور حضور اکرم ﷺ بھی اس وقت یہ روزہ رکھتے تھے۔ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بھی روزہ رکھا اور اس روزہ کا بھی حکم دیا ۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشورہ (کے روزے کا حکم) چھوڑ دیا گیا، جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ص ۲۵۴، ص ۲۶۸)

حضرت رُبیع بنت مُعوِذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کی صبح انصار کے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس نے صبح کو کھاپی لیا ہو وہ بقیہ دن پورا کرے (یعنی رکا رہے )اور جس نے ابھی تک کھایا پیا نہیں ہے وہ روزہ رکھے ۔ فرماتی ہیں کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتی تھیں اور ان کے لئے اون کا کھلونا بناتی تھیں ۔جب کو ئی بچہ کھانے لئے روتا تویہ کھلونا اس کو دے دیتیں یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوتا۔ (صحیح بخاری ج۱ ص ۲۶۳، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶۰)

حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کے دن ایک آدمی کو بھیجا جو لوگوں میں یہ اعلان کررہا تھا کہ جس نے کھالیاوہ پورا کرے یا فرمایا بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہیں کھایا وہ نہ کھائے ( یعنی روزہ رکھے )۔ (بخاری ج ۱ ص ۲۵۷)

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ یہودیوں نے کہا یہ اچھا دن ہے، اس دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غلبہ اور کامیابی عطافرمائی، ہم اس دن کی تعظیم کے لئے روزہ رکھتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں، پھر آپ ﷺ نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸)

حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ یہودی عاشورہ کی تعظیم کررہے ہیں اور اس دن روزہ رکھتے ہیں، اس کو عید بنارہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہم اس روزہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸، ۵۶۲)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو کسی دن کے روزہ کا اہتمام اور قصد کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے عاشورہ کا روزہ اور رمضان کے مہینے کا۔ (بخاری ج۱ ص ۲۶۸) یعنی ان روزوں کا آپ ﷺبہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔

حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضور اکرم ﷺ کے منبر پر عاشورہ کے دن (کھڑے ہوکر) فرمایا: اے اہل مدینہ کہاں ہیں تمہارے علماء، میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ یہ عاشورہ کا دن ہے اور اﷲ تعالیٰ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہیں کیا ہے، میں روزے سے ہوں، جو چاہے روزہ رکھے جوچاہے روزہ نہ رکھے۔ (صحیح بخاری ج ۱ ص ۲۶۲)

عاشورہ کے روزہ کا ثواب:
رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایا : مجھے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجائیگا۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوقتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۵۱) ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لئے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

عاشورہ کے روزہ رکھنے کا طریقہ:
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہودونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگر آئندہ سال زندہ رہا تو ان شاء اﷲ نویں کو (بھی) روزہ رکھوں گا لیکن آئندہ سال آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ (مسلم ج۱ ص ۳۵۹)

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے روزہ رکھو یا ایک دن بعد۔ (مسند احمد ج ۱ ص ۲۴۱) یہ حدیث بعض نسخوں میں او کی جگہ پر و اوکے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ اگر واو (یعنی اور) کے ساتھ روایت ثابت مان لی جائے تو پھر تین روزہ رکھنا ثابت ہوگا۔ اس طرح عاشورہ کے روزے رکھنے کی ۴ شکلیں بنتی ہیں : ۹ ، ۱۰ اور ۱۱ تینوں دن روزے رکھ لیں۔ ۹ اور ۱۰ دو دن روزہ رکھ لیں۔ ۱۰ اور ۱۱ دو دن روزہ رکھ لیں۔ اگر کسی وجہ سے ۲ روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔

خلاصۂ کلام:
حضور اکرم ﷺکی حیاتِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا، آپ ﷺروزہ رکھتے ، لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ ﷺنے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ۱۰ محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سے مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اِس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کو رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے۔ لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم ﷺکا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور اکرم ﷺکے اس ارشاد کی روشنی میں‘ صحابۂ کرام نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم الحرام کا ایک روزہ ملاکر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قرار دیا اور صرف عاشورہ کاروزہ رکھنا خلافِ اولیٰ قرار دیا ۔ یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورہ کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشورہ کا ثواب ملے گا لیکن چونکہ آپ ﷺکی خواہش ۲ روزے رکھنے کی تھی اس لئے اس خواہش کے تکمیل میں بہتر یہی ہے کہ ایک روزہ اور ملاکر دو روزے رکھے جائیں۔

وضاحت:
بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺکی وفات کے تقریباً ۵۰ سال بعد ۶۱ ہجری میں نواسہ ٔرسول ﷺ حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کی اہمیت ہوئی ہے حالانکہ اس دن کی فضیلت واہمیت نبی اکرم ﷺ کے اقوال وعمل کی روشنی میں پہلے ہی سے ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال وعمل کی روشنی میں ذکر کیا گیا، ہاں حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اس بابرکت دن کا نتخاب کیا جس سے حضرت حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی قربانی کی مزید اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 169662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.