خود اعتمادی.... کامیابی کی شاہ کلید

کہا جاتا ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے انسان میں خوداعتمادی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دن کے لیے سورج کا ہونا ضروری ہے۔ خود اعتمادی کو کامیابی کی کنجی کہا جاتا اور کامرانی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ کسی بھی انسان کا اس کے بغیر کامیابی کے راستے پر گامزن ہونا مشکل ہے، جبکہ خود اعتمادی کے ساتھ مشکلات سے لڑنا انتہائی آسان ہوتا ہے۔ بیش تر کامیاب افراد کی ترقی کا راز ان کی خوداعتمادی میں چھپا ہوتا ہے، جو لوگ اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرلیتے ہیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کی عملی زندگی میں ناکامی کی بنیادی وجہ خوداعتمادی میں کمی کا ہونا ہے، جن لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے ان کے دل میں یقین کی پختگی نہیں ہوتی۔ جو شخص اپنی صلاحیتوں پر اعتماد و یقین رکھتا ہے، وہ ناکام ہونے کے تصور کو ہی ماننے سے انکار کردیتا ہے اور مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا ہے اور بالآخر کامیاب ہوجاتا ہے، لیکن جس شخص میں خوداعتمادی نہیں ہوتی وہ اپنی ہر ناکامی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خود کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ حالانکہ اپنی ناکامیوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ لینا حالات سے فرار ہے۔

خوداعتمادی ایک مثبت رویہ ہے، اس لیے دیگر مثبت رویوں کی طرح یہ بھی انسانی زندگی میں بہت سی مثبت اور خوش آیند تبدیلیاں لے کر آتی ہے۔ خود اعتمادی خوف کی ضد ہے اور خوف انسان کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ یہ خوف ہی ہے جو کسی منزل کا تعین کرنے سے پہلے ہی راہی کو راستے کی دشواریوں سے خائف کرکے اس کے عزائم اور ارادوں کو متزلزل کر دیتا ہے۔ اندیشے اور خوف خود اعتمادی کو سخت چوٹ پہنچاتے ہیں۔ اندیشوں اور خوف سے ہی انسان میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے، جبکہ خود اعتمادی سے سرشار شخص زندگی کی مشکلات پر قابو پاکر کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اگر انسان خود ہی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو اور اسے اس بات پر اعتماد ہی نہ ہو کہ میری کامیابی یقینی ہے تو وہ کیوں کر کامیاب ہوسکتا ہے۔اس لیے کامیاب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک اور ان پر مکمل اعتماد ہونا ضروری ہے۔ زیادہ تر لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی، بلکہ ان میں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ ہرانسان میں کسی نہ کسی کام کی صلاحیت ضرور ہوتی ہے، چاہے خفیہ طور پر ہی ہو، لیکن وہ خوداعتمادی میں کمی کی وجہ سے اس جوہر کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتا، نتیجتاً ناکام رہتا ہے۔ اگر انسان کو اپنی ذات پر مکمل اعتماد ہو تو وہ بڑے سے بڑا کارنامہ بھی باآسانی سر انجام دے سکتا ہے۔

تاریخ میں متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ مٹھی بھر جنگجوؤں نے بھاری بھرکم فوج کو آن کی آن میں ملیامیٹ کر دیا، یہ ان کی خود اعتمادی کا نتیجہ تھا۔ جنگ یرموک میں مسلمانوں نے رومیوں کے لشکرجرار کے مقابلے میں شاندار کامیابی حاصل کی، یہاں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خود اعتمادی کا گراف بھی انتہائی بلند سطح پر تھا۔ اس جنگ کے سپاہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ اکیلے ہی لاکھوں رومیوں سے بھڑنے کو تیار تھے۔ ان کے تیس ہزار مسلمانوں پر مشتمل خود اعتمادی کے جذبے سے بھرپور لشکر نے لاکھوں رومیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ انسان کو جیسا اعتماد ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس کو کامیابی دیتا ہے۔ اعتماد دل کی حکومت میں سپہ سالار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام قومیں اس کا حکم مان کر چلتی ہیں۔ جو شخص خود اعتمادی، خدا پر یقین اور بھروسے سے آگے بڑھتا ہے، اسے کامیابی مل کر ہی رہتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ دوسروں کی کامیابیاں دیکھنے میں اپنا سارا وقت کھو دیتے ہیں، حالانکہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر خود بھی کامیاب ہونے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔

خود اعتمادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر کام میں کامیابی حاصل ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مشکل کا سامنا ہو تو یہ معلوم ہو کہ محنت اور کوشش سے اس مشکل پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تب بھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ خوداعتمادی دراصل مختلف شعبوں میں انسان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا اندازہ لگانے کا موثر پیمانہ ہے۔ جس شعبے میں انسان کی معلومات بہتر ہوں گی، اسی میں خوداعتمادی بھی زیادہ ہوگی، اس لیے جب انسان کسی شعبے میں ناکام ہوتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شعبے میں اس کی معلومات ناکافی ہیں تو اپنی اس ناکامی پر کڑھنے کی بجائے اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں اور معلومات میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ”ایک کامیاب شخصیت بننے کی کنجی یہ ہے کہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے شعبوں میں اعتماد پیدا کیا جائے اور جس شعبے میں بھی قابلیت کم ہو اس کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہونے کی بجائے اپنی قابلیت کو بڑھاوا دیا جائے۔“ ناکام ہونا کوئی بری بات نہیں ہے، ناکامی تو ہماری استاد ہوتی ہے۔ وہ ایک نشانِ راہ ہوتی ہے۔ اگر ہم ناکام ہوتے ہیں تو اس سے ہمیں ایک نیا اعتماد حاصل ہونا چاہیے، کیونکہ اہم اور کامیاب ترین لوگ بارہا ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں اور ہمیشہ مقصد کے حصول کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

ہم اکثر یہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں کہ غلطیوں کے باوجود بھی اپنے آپ کو بہتر طور پر پرکھا جاسکتا ہے۔ جس طرح ہم اپنی کارکردگی کے بارے میں سوچتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی غلطیوں سمیت اپنی قدر کرنا سیکھنا چاہیے۔ ہم اپنی اچھی کارکردگی کے بارے میں ضرور سوچیں، لیکن اس کے ساتھ ہمیں اپنی غلطیوں سے بھی لطف اندوز ہونا چاہیے۔ خود اعتمادی کا فقدان ”کہیں میں ناکام نہ ہوجاؤں“ یا ”لوگ کیا کہیں گے“ سے شروع ہوتا ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان وسووں اور اوہام کو دل سے باہر نکال کر پھینک دینا چاہیے اور امید و یقین کی زندگی بسر کرنا شروع کردینا چاہیے۔ اپنی ذات کے کمزور پہلوؤں کو نظر انداز کردینا چاہیے۔ جب کوئی شخص اپنی قوت و کارکردگی کے کمزور پہلو دیکھتا ہے تو پھر اپنی صلاحیت کا اعتماد کھودیتا ہے اور ناکام ہوجاتا ہے۔ خوداعتمادی کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ شک کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے۔ اپنے آپ کو ہر وقت یہ یقین دلاتے رہنا چاہیے کہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ یقین کی طاقت اور خدا تعالیٰ کی مدد کی بدولت ہم ہر قسم کی مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کر سکتے ہیں اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.