جوہری توانائی کے حصول کے لئے متحدہ عرب امارات کی فکرمندی

دیر آید درست آید

ان دنوں پوری دنیا پر جنگی طاقت کو بڑھانے اور فوجی قوت کو مضبوط کرنے کا بھوت سوار ہے ۔ دنیا کے آٹھ ممالک جوہری توانائی حاصل کرچکے ہیں اور کئی اس کے حصول کوشش میں سرگرداں ہیں ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ وہ قوم جسے دفاعی قوت مضبوط رکھنے کی تعلیم روز اول دے گئی ۔ بھوکے رہنے کے باوجود جنگی سازو سامان تیار رکھنے کی ہدایت دی گئی وہ اس میدان میں سب سے پیچھے رہی ۔ 57 سے زائد ملکوں میں سے سوائے پاکستان کے کسی کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی توفیق نہیں مل سکی ۔ 22 عرب ملکوں میں سے کسی نے اس جانب کبھی توجہ بھی نہیں دی ۔ گذشتہ کچھ سالوں سے ایران نے جوہری توانائی کی فکر کی اور اس میں اسے کامیابی ملنی شروع ہوگئی ۔تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان گذشتہ دنوں ہوئے جوہری معاہدہ کے بعد ایران کو یونییم فزودگی کا حق دے دیا گیا ہے جس کے عرب ملکوں کو بھی سلسلے میں اس کی کچھ فکر لاحق ہوئی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی رپوٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے امریکہ سے کہاہے کہ ہم بھی یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یو اے ای کے سفیر برائے واشنگٹن یوسف العتیبہ نے امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس کو فون پر کہا کہ ان کا ملک خود کو امریکہ کے ساتھ طے کیے جانے والے جوہری معاہدے پر مزید عمل درآمد کا پابند محسوس نہیں کر رہاہے۔ ان کے بقول العتیبہ نے کہا کہ امریکہ کے دشمن کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے اور اب دوست بھی ایسا کرنا چاہتے ہیں۔

2009ء میں امریکہ اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کی رو سے امریکہ نے یو۔ اے۔ ای۔ کو جوہری توانائی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور آلات مہیا کرنے کی حامی بھری تھی۔ اس 123 ایگریمنٹ نامی معاہدے کے تحت یہ بات تھی کہ یو اے ای نہ تو یورینیم افزودہ کر سکتا ہے اور نہ ہی اس عمل میں استعمال شدہ جوہری ایندھن کو ری پروسس کر کے اس سے پلوٹونیم حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کیوں کہ جوہری ہتھیا بنانے کے لئے ان ہی دونوں طریقوں پر عمل کرناپڑتا ہے ۔

عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدے کے طے ہونے کے بعد ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی گئی ہے اور اسے یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت بھی مل گئی ہے۔ایسے میں متحدہ عرب امارات کی انتظامیہ بھی نیند سے بیدار ہوگئی ہے اور اسے نظر آنے لگا ہے کہ جب ایران کے ساتھ امریکہ کی اتنی مہربانیاں ہورہی ہے ۔ اسے جوہری توانائی کو بڑھانے کی اجازت دے دی گئی ہے تو پھر متحدہ عرب امارا ت کو کیو نہیں ۔

متحدہ عرب امارات کا یہ مطالبہ بجا ہے اوروقت کا تقاضا ہے کہ عرب ممالک پہلی فرصت میں ایٹمی طاقت کے حصول پر توجہ دیں۔کیوں کہ مسلم حقوق کے تحفظ کے لئے عرب ملکوں کے پاس جوہری توانائی کا ہونا انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے۔ خاص طور پر عالم اسلام ان دنوں جن پر آشوب دور سے گزر رہا ہے ، خطرات کے جو بادل منڈلارہے ہیں ایسے میں عرب ملکوں کے پاس ایٹمی تواناکا ہونا وقت کا اہم تقاضا ہے ۔

آج مسلم دنیا بالخصوص عربوں کے پاس سب دولت کا انبار ہے ۔عیش و عشرت کے تمام اسباب موجود ہیں ۔ ان کے وسائل اور ذرائع کا استعمال کرکے یورپ اپنی معیشت مضبوط کررہاہے لیکن خود عرب ممالک اپنی دفاعی طاقت پر کوئی توجہ نہیں دے رہیں ۔ باالخصوص ایسے وقت میں جب ایران مسلسل جوہری توانائی کے معاملے میں پیش قدمی کررہا ہے عرب ملکوں کے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ بھی جوہری تونائی کے حصول پر مکمل توجہ دے۔ اپنی دولت وثروت کا استعمال عیش و عشرت کے سامان مہیاکرنے بجائے فوجی طاقت اور جوہری تونائی کے حصول پر کرے اور حرمین شریفین کے تحفظ کے پیش نظر لازمی طور ایٹمی ملک بننے کی مکمل کوشش کرے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163107 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More