ملکی قرضے - سیاستدانوں کی آنیاں جانیاں

تحریر: امجد ملک

اسلام آباد میں " سگنل فری کاریڈور " کا بورڈ اور اربوں کے نمائشی اور عیاشی کے منصوبے دیکھ کر دل کرتا ہے کہ ایسے بڑے بورڈوں کی لائن میں اسلام آباد کے داخلی راستوں پر ایک جہازی سائز کا بورڈ لگوایا جائے. جس پہ لکھا ہو" میں پاکستان انیس ہزار ارب ( 19000 ارب ) کا مقروض ہوں "شاید اسے روز آتے جاتے پڑھ کر "آئین پاکستان " کے حلف برداروں کو کچھ ہوش آ جائے،کسی کو یہ بھی احساس ہو جائے کہ ان بڑھتے ہوئے قرضوں کی جکڑ , ہمیں مستقبل میں کتنا " بلیک میل " کر سکتی ہے. قرضے دینے والے اتنے مہربان کیوں ہیں.

شاید کسی بڑے کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جائے کہ میری دھرتی پہ اتنا بڑا قرض ندامت کا بوجھ ہے. جو آئندہ نسلوں کو بھی گروی رکھے گا. قرض مشروط دئے جاتے ہیں. لیکن یہ قرض چونکہ خود ادا نہیں کرنے ہوتے. ہر نئے آنے والے کو ہینڈ اور ہو جاتے ہیں اسلئے کرائے کے مکان کا ٹوٹا بلب تو ضرورت کے مطابق لگا لیا جاتا ہے لیکن ٹوٹی دیوار مالک مکان کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے. یہاں شاید مالک مکان بیس کروڑ وہ لوگ ہیں جنکی حصہ داریاں بری طرح بٹی ہوئی ہیں. ان میں ہر کوئی اپنے پسندیدہ کرائے دار کو یہاں بسا کہ خوش ہے لیکن مکان کی فکر والا کوئی نہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان یہ طے کردے کہ جو حکمران یا پارٹی , پاکستان کے لئے جتنا قرضہ لے گی وہ اپنے دور کے اختتام تک واپس لوٹائے گی. اگر وہ پارٹی ایسا نہ کر سکے تو اسے سیاست کے لئے نا اہل قرار دے دیا جائے.

سپریم کورٹ ہی شاید کوئی ایسا بڑا اور خالص ملکی مفاد کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ اگلے دو سالوں کے لئے تعلیم , صحت اور دفاع کی علاوہ ہر ترقیاتی بجٹ پر پابندی لگا دے. جبتک اس ملک کے قرض نہیں اترتے , اور تعلیم و صحت میں بہتری نہیں آتی. سیاست کے بڑے نام , انکا شجرہ نسب , انکی مالی پوزیشن دیکھ لیں , ایسے لوگوں کی اگلے دو سال کے لئے تنخواہیں , مراعات اور سرکاری سہولیات بند کر دی جائیں. اور انھیں اس نعرے پہ سیاست کرنے کو کہا جائے جس کو وہ سیاست کی بنیاد بنا کر آتے ہیں. تالیوں کی گونج میں , ڈھولک کی تھاپ پہ , کھلی چھتوں سے سر باہر نکالے , یہ لوگ " صرف خدمت خلق , غریب کے حقوق اور وطن کی محبت میں " سیاست میں آتے ہیں. کروڑوں روپے انتخابی مہم پہ لگا کہ آ نے والا " للا کلا , مسکین " سا ممبر اسمبلی بھی اسلام آباد بیٹھ کر " نوٹ چھاپنے " کی تمام" چکر چکیریاں " سمجھ جاتا ہے. پھر عظیم فلاحی منصوبے , انکی اولادوں کو بھی خوشحال کرجاتے ہیں. کھا پی کے دولت کی ریل پیل سے سرخ موٹے تازے چہرے , الزامات اور جرائم کی لمبی لسٹوں کے باوجود , ڈھیٹ پن , بے شرمی اور بے غیرتی کا ماسک پہنے " وکٹری " کا نشان بناتے مسکراتے نظر آتے ہیں.

ستر سالوں میں , انکی دولت اور اثاثوں کی ترقی , اندروں بیرون ملک کی عیاشیاں , انکا رہن سہن , انکی" آنیاں جانیاں " قوم غور سے نہیں دیکھتی , بلکہ انکے جھانسے میں آ جاتی ہے. ایک مقروض ملک کے وزیر اعظم کے خاندان کا کھانا ہیلی کاپٹر پہ مری جاتا ہے. ایک مقروض ملک کا اپوزیشن لیڈر اپنی انتخابی مہم ہیلی کاپٹر پر چلاتا ہے. ایک ایک ممبر اسمبلی کروڑوں میں پڑتا ہے. صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے ایک وقت کے کھانے کے بجٹ سے , تھر کے ہزاروں بچوں کا ماہانہ کھانا اور پانی نکل سکتا ہے.

لیکن ہم کھوکھلے نعروں پہ زندہ ہیں. اگلے ستر سال بھی ملک اور عوام کی حالت نہیں بدلنے والی. سیاست کے بڑے انویسٹر ہی کمائیں گے انکے حالات ہی بدلیں گے. نوجوان نسل کو ملکی صورت حال پہ سنجیدہ غور و غوض کرنا پڑے گا. جذباتی نعروں اور جذباتی تقریروں سے متاثر ہونے کی بجائے " کارکردگی " زمینی حقائق , اور اصل حالات کو دیکھنا ہوگا. ورنہ یہ اربوں کے " کمشن اور رشوت " کے منصوبے اس ملک کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر دیں گے.

خدا را! موازنہ پچھلی , اگلی حکومتوں سے نھیں , دنیا کے باقی ممالک سے کریں کہ ستر سالوں میں ہمارا اور دیگر ممالک کا ترقی کا پیمانہ کیا ہے.
اﷲ پاک میرے وطن کا حامی و ناصر ہو.
 

Malik Tahir
About the Author: Malik Tahir Read More Articles by Malik Tahir: 27 Articles with 21154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.