تحریر۔۔۔سیدّ تابش زیدی
ابو الفطرت میرزیدی دنیائے شعر وادب کی جانی پہچانی شخصیت تقسیم سے پہلے ہی
میر صاحب کی قدررت کلام اور قوت سخنوی کا سکہ دنیائے ادب پر بیٹھ گیا
تھا۔آپ کا پورا نام سید میر وزادت حسین شاہ زیدی ابو الفطرت لقب اور میر
زیدی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پیدائش۱۰؍ اگست ۱۹۱۹ء قصبہ تسہ ضلع مظفر
نگر،ہندوستان میں ہوئی۔پرورش ریاست خیرپورمیرس سندھ میں پائی۔ آپکے والد
میر بشارت حسین شاہ زیدی ریاست خیر پور میرس سندھ میں شاعر دربار اور وزیر
تھے۔والد کی وفات کے بعد زیدی خیرپور سے لاہور آئے۔21سال کی عمر میں ایک
روزنامہ اور کئی روزناموں ہفت روزہ اور ماہناموں کی ادارت کے فرائض انجام
دئے۔مولانا ظفر علی خان کے معروف روزنامہ زمیندار میں ادارت کے فرائض انجام
دئیے اسی دوران اپکی انقلابی نظمیں روزنامہ ذمیندار میں شائع ہوکر مقبولِ
عام ہوتیں رہیں۔
۱۹۴۲ء میں آرمی میڈکل لاہور میں ملازمت اختیار کی ۔لاہور سے میرٹھ
اورمیرٹھ سے لکھنؤ پہنچے۔ ۱۹۴۵ء سے دیوبند ضلع سہارنپور مستقل سکونت اختیا
رکی۔ دیوبند کے قیام کے دوران آپکی شادی سیدہ سلطان فاطمہ سے ہوئی۔ جن کا
تعلق اُردو ادب کی معروف شخصیت سید امتیازعلی تاج کے خاندان سے تھا۔آپکی
شادی کے موقع پرجناب قمر جلال آبادی نے ۱۹۴۵ء میں ’’ندرِزیدی‘‘ کے عنوان
سے ایک طویل نظم کہی جوپوری دستیاب نہ ہو سکی۔چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔
میر صاحب کی رسم شادی پر۔۔۔۔کاش میں دیوبند آسکتا
شعر میں تو خوشی دکھائی ہے۔۔۔۔کاش دل کی خوشی دکھا سکتا
(قمر جلال آبادی ممبئی)۔
دیوبند سے پھر لاہورآئے اور لاہور سے نوشہر چھاؤنی منتقل ہوئے۔اور زندگی کا
ایک طویل عرصہ نوشہرہ میں گذرا۔۱۹۸۰ء میں کراچی منتقل ہوئے اور وہیں آپکی
آخری آرام گاہ ہے۔انتقال سے قبل آپ نے جناب رئیس امروہوی کے ساتھ ملکر ایک
ماہنامہ ’’ مینٹل ہیلتھ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔زیدی صاحب کا تعارف آل انڈیا
ریڈیو میں نشر ہوا پیش خدمت ہے۔
میر زیدی انٹرویو براڈ کاسٹیڈآل انڈیا ریڈیولاہور اسٹیشن۱۹۴۳ء:
شاعری میری ورثے میں آئی ہے۔میں نے ایک شاعر گھرانے میں جنم لیا اور ہوش
سنبھالتے ہی اپنے ارد گرد شاعرانہ ماحول پایا۔۹ سال کی عمرمیں شعر کہنا
شروع کئے۔بچپن سے آج تک مجھے اپنے ہمعصر دوستوں میں بیٹھنے اور تبادلہ
خیالات کرنے کا اتفاق بہت کم ہوا۔ ہمیشہ بزرگوں کی ناصحانہ محفلوں سے سبق
حاصل کیا۔ جس کا اثر میرے کلام میں ہر جگہ نمایاں ہے۔۱۹۳۲ء میں لاہور
آیااور اسے صحیح معنوں میں میری شاعری کا آغاز سمجھئے ۔ یہاں آکر ماحول
موافق پایا۔ ناصح بنا نصیحتیں کیں۔مزدوروں کی مجبوریوں پہ آنسو بہائے۔مناظر
نظم کئے۔شیخ سے الجھاواعظ پہ آوازیں کسیں ۔محبت کی چوٹ کھائے بغیر عشق
ومحبت کی گتھیاں سلجھائیں۔صحرازادیوں کی زلفوں میں پھنسا۔حسن سے کھیلا ،عشق
کی رہبری کی۔فرقت کے گیت الائے۔ملکی تنظیم پر قلم اٹھایا غرض کوئی پہلوتشنہ
توجہ نہ رہا۔۱۹۳۸ء میں پہلا مجموعہ نظم’’بادۂ فطرت‘‘کے نام سے شائع ہوا۔
جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے یہ تھی میری ابتداء۔(بر اکاسٹ ریڈیو اسٹیشن
لاہور:۲۷؍ دسمبر۱۹۴۳ء)۔
اصلاح سخن:
میر صاحب کے حالات زندگی اکثر اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان سے
پتہ چلتا ہے کہ ابتداء میں آپ نے مولانا سُہا بھوپالی( مرحوم) اور اعلیٰ
حضرت ہز اینس میر علی نواز خاں تالپور( مرحوم)والی ریاست خیر پورمیرس کے
دربار سے فیض سخن حاصل کیا۔قیام لاہور کے زمانے سے علامہ تاجور نجیب آبادی
سے اپنے بزرگ سید حمید علی صاحب مالک دارالاشاعت پنجاب کی وساطت سے اصلاحِ
سخن لیتے رہے۔ جناب اخترہا شمی کا کہنا ہے کہ حضرت اعجاز صدیقی مدیر
ماہنامہ’’شاعر‘‘ آگرہ کی وساطت سے کچھ عرصہ اصلاحِ سخن کاسلسلہ علامہ سماب
اکبر آبادی سے بھی رہا۔
میر صاحب کی روحانی نظموں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب اختر
شیرانی(مرحوم) کی دوستی نے بھی طبیعت پر اثر کیا۔ دوستوں کے معاملے میں
زیدی صاحب بہت خوش قسمت رہے ۔ انکے شاعر دوستوں کی اکثریت مخلص اور انکی
مداح تھی۔مڑ باصر سیمابی، جناب ساگر نظامی،جناب اختر شیرانی، جناب احسان
دانش،جناب شوکت واسطی،جناب رئیس امروہی،جناب سید محمد تقی ،جناب انور صابری
اور جناب قمر جلال آبادی اور دیگر اصحاب کی تحریریں میر صاحب کی تعریف میں
موجود ہیں۔ جو نظم اور نژ دونوں میں ہے۔قیام دیوبند کے زمانے میں جناب
علامہ انور صابری سے گاڑھی چھنتی تھی۔میر صاحب کی خلوص اور شاعرانہ خوبیوں
نے انہیں بھی مندرجہ اشعار کہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
میر زیدی معروف شعرائے کرام کی نظر میں
اے ابو الفطرت تیرے ہر شعر میں پاتا ہوں میں
سرد آہوں کے تقاضے گرم اشکوں کا بیان
(علامہ ابور صابری)۔
ابو الفطرت کی فکر جاوداں خود اسکی شاہد ہے
تخیل غرفانی ہو تو شعر مر نہیں سکتا
(علامہ ابور صابری)۔
اونچا ہے زمانے میں شان زیدی
ہے اپنی مثال آپ ہی شان زیدی
جو سنتا ہے محصور ہو ا جاتا ہے
اﷲ غنی حسن بیانِ زیدی
(جناب شوکت واسطی)۔
خوشاقسمت ادب کی محفلوں میں
ہے بالا تر مقام ِ میر زیدی
ہوا وہ آشنائے عزم وہمت
سنا جس نے پیام میر زیدی
(جناب شوکت واسطی)۔
ان کے علاوہ علامہ فخری علیگ پانی پتی اور دیگر کئی ایک مقتدر ہستیوں کا
بھی ایک ایسا ہی کلام میری نظر سے گذرا ہے افسوس کہ اس وقت نہ ہی وہ پرچے
مل چکے اور نہ یادداشت تعاون کرتی ہے۔
ابو الفطرت میرزیدی کی شاعری
ابو الفطرت میر زیدی کی شاعری خصوصیت کے ساتھ قومی شاعری غریب عوام کے دل
سے نکلی ہوئی وہی درد بھری آواز ہے جو قصر استبداد کے لئے زلزلہ انگیز ثابت
ہوتی ہے۔ قومی زندگی کا ایسا کوئی مرحلہ نہیں کہ میر صاحب نے عوامی حقوق کے
لئے اپنی آواز بلند نہ کی ہو کہتے ہیں۔
جب اپنا فرض وطن دوست بھول جاتے ہیں۔۔۔۔۔وطن فروش اُسی وقت سر اٹھاتے ہیں
عمل بغیر جواہر بھی سنگ ریزے ہیں۔۔۔۔۔عمل کے سامنے پتھر بھی جگمگاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ابو الفطرت میرزیدی)۔
آشوبِ روزگارستائے تو کیا کریں۔۔۔۔۔ہم دل جلوں کو اورجلائیں تو کیا کریں
ظالم تھے خیرغیرتھے غیروں کاذکر کیا۔۔۔۔۔اپنے ہی گھرمیں چین نہ آئے تو کیا
کریں
دشمن نظر اٹھائے تو انکھیں نکال لیں۔۔۔۔۔بھائی کو بھائی آنکھ دکھائے تو کیا
کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ابو الفطرت میرزیدی) ۔
سنو ! اے میری قوم کے رہنماؤں۔۔۔۔۔گلستاں کی حالت پہ کچھ رحم کھاؤ
شکیو، جمیلو، حسینو، جوانوں۔۔۔۔۔سنو یہ حقیقت برُا تم نہ مانو
شریف آدمی بن گئے ہیں بھکاری۔۔۔۔۔مگر جگمگاتی ہے کو ٹھی تمہاری
تمہیں قوم سے کچھ عقیدت نہیں ہے۔۔۔۔۔غریبوں کو تم سے محبت نہیں ہے
نہ انسانیت ہے ، نہ خوف ِ خدا ہے۔۔۔۔۔نہ ایمان کا تم پہ سایہ پڑا ہے
اب ا ن کو ملے گا وطن سے اجالا۔۔۔۔۔کریں گے جو انصاف کا بو ل بالا
(ابو الفطرت میرزیدی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |